اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"وہ بڑی مُدت سے اپنے آخری ایّام گزار رہی تھیں”۔۔۔خضرجسکانی

تاہم میں نے اِس سب کے باوجود، میں نے اُنھیں ایک باہِمّت خاتون پایا۔ اگرچہ بُوڑھی ہو چکی تھیں مگر دادا ابو کے سارے کام خُود اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں۔ حتّٰی کہ پانی تک خود پِلاتی تھیں۔

خضرجسکانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1992ء میں 16 سالہ نوجوان بیٹے کی اچانک وفات کے بعد اور پھر چار سال بعد 1996ء میں 32 سالہ دوسرے نوجوان بیٹے (میرے والد محترم) کی وفات کے بعد دادی اماں اکثر اکیلے بیٹھ کر اُن کی یاد میں رویا کرتی تھیں۔ کہتی تھیں کہ بھلا یہ زندگی اب میرے کِس کام کی ہے؟ یوں لگتا تھا کہ اپنے بیٹوں کی وفات کے وقت سے گویا وہ اپنے آخری ایّام گزار رہی تھیں۔
تاہم میں نے اِس سب کے باوجود، میں نے اُنھیں ایک باہِمّت خاتون پایا۔ اگرچہ بُوڑھی ہو چکی تھیں مگر دادا ابو کے سارے کام خُود اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں۔ حتّٰی کہ پانی تک خود پِلاتی تھیں۔ دادا ابو کہیں سفر سے واپس آتے تو باوجود بڑھاپے کے، خود ان کے پاؤں دباتیں۔ دادا ابو کا بستر تو ہم اٹھا کر چارپائی پر رکھ دیتے لیکن سونے کے لیے خود ہی بستر سیدھا کرتیں، کہتی تھیں کہ مجھے پتہ ہے کہ تمہارے دادا ابّو کا بِستر کس طرح آرام دِہ بنانا ہے۔ دوسری طرف دادا ابو بھی ان کی ہر قِسم کی ضروریات پوری کرتے تھے۔
دادا ابو کی وفات کے بعد مزید بُوڑھی ہو گئیں۔ سب بیٹوں نے اپنے اپنے الگ الگ گھر بنا لیے۔ سب اُنھیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے جانے کے لیے باضِد تھے مگر کہنے لگیں، "نہیں، میں اپنے یتیم پوتوں کے ساتھ رہوں گی۔” یوں دادی اماں ہمارے گھر آ گئیں۔ اپنا ہر کام مجھے بتاتی تھیں۔ ہر وہ بات جو کسی اور کو نہ بتاتیں، مجھے بتاتی تھیں۔ کوئی بھی مشورہ کرنا ہوتا، مجھ سے کرتیں۔ گویا میں پوتا نہیں بلکہ ان کا بیٹا تھا۔ اکثر کہیں جانا ہوتا تو مجھے بلاتیں کہ میرا ہاتھ پکڑ کر لے چلو۔ طبیعت خراب ہوئی سب نے ہسپتال جانے کا کہا مگر میرے علاوہ کسی کے ساتھ جانے کو تیار نہ ہوئیں۔ دادی اماں کے ساتھ تمام گھر والوں سے زیادہ میری Attachment تھی۔
تھوڑی دیر پہلے ان کے کمرے میں ان کی چارپائی کے ساتھ کتنی دیر بیٹھا رہا ہوں۔ کچھ دیر کے لیے ایسے لگا کہ کہیں گی خضر میرا ہاتھ پکڑ کر لے چلو۔ لیکن ایک خاموشی ہے۔ وہ اپنے بیٹوں کی وفات کے بعد زمانے کے دکھوں اور تکلیفوں سے لڑتی لڑتی آخر کار چلی گئیں۔ ان کی چارپائی کے ساتھ پڑے ان کے جوتے، ان کا اعصا، رضائی اور تکیہ، دوا کی چند شیشیاں، کھڑکی پر رکھی سرسوں کے تیل کی چھوٹی بوتل اور تکیّے کے ساتھ رکھا دس روپے کا نوٹ بھی جیسے اپنے مالک کی جدائی میں مایوس نظر آ رہے ہیں۔ لیکن وہ اپنی آخری آرام گاہ میں پہنچ چکی ہیں۔ آنسوؤں کا ایک سیلِ بے کراں ہے جو آنکھوں کا ساتھ چھوڑ رہا ہے اور مزید کچھ لکھنے کی ہمّت بھی بہا لیے جا رہا ہے۔
خدا اُن کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔
میں، اپنے ہاں آنے والے، کالز، میسجز اور کمنٹس کے ذریعے دعاؤں اور تعزیت پہنچانے والے ایک ایک دوست اور خیرخواہ کا شُکر گزار ہوں۔
دعاؤں اور خیرخواہی کا ایک بہت بڑا باب تھا جو بند ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: