مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی تشکیک کی وجہ سے مجھے بیشتر باتوں کا یقین نہیں ہوتا لیکن یہ بات میں کافی یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ ایٹگر کیرٹ کو نہیں جانتے ہوں گے۔ وہ عبرانی میں افسانے لکھتے ہیں۔ مجھے بھی آپ کی طرح عبرانی نہیں آتی، سوائے اس کی ابجد اور چند الفاظ کے۔ لیکن کیرٹ کا بیشتر کام انگریزی میں ترجمہ ہوچکا ہے اور ہم اس سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
کیرٹ کی کہانیوں کے نو مجموعے چھپ چکے ہیں جن میں سے سات میرے پاس ہیں۔ اگر میں کتب خانے والے گروپ میں کتابیں شئیر کررہا ہوتا تو کیرٹ کی کتابیں بھی شئیر کرتا، لیکن شاید نہ کرتا کیونکہ ایک تو کیرٹ اسرائیلی ادیب ہیں، اور دوسرے، کتابیں پڑھتا کون ہے۔
کیرٹ کے ایک افسانے کا نام ہے، بس ڈرائیور، جو خدا بننا چاہتا تھا۔ میں نے اس کا ترجمہ کیا ہے اور کیرٹ کا انداز برقرار رکھا ہے جو گاڑھے ادب جیسا نہیں ہے بلکہ عام بول چال کی طرح ہے۔ اس میں فل اسٹاپس کم ہیں۔ ان کی جگہ بہت سے کومے ہیں۔ بہت سے جملے روزمرہ گفتگو کی طرح اور سے شروع ہوتے ہیں۔ پیراگراف بنے ہوئے نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ ایسی تحریر آپ کو اچھی نہ لگتی ہو۔ لیکن میں نے یہ انداز تبدیل نہیں کیا کیونکہ اس سے کہانی پر فرق نہیں پڑا۔
کیرٹ کے مزید افسانے پڑھنا چاہیں تو گوگل کریں اور ان کی کتابیں ڈھونڈیں۔
۔
بس ڈرائیور، جو خدا بننا چاہتا تھا
۔
یہ کہانی ایک ایسے بس ڈرائیور کی ہے جو دیر سے آنے والوں کے لیے بس کا دروازہ نہیں کھولتا تھا۔ کسی کے لیے بھی نہیں۔ نہ ہائی اسکول کے ان مجبور طلبہ کے لیے جو بس کے ساتھ ساتھ بھاگتے اور اسے بے بسی سے دیکھتے، اور نہ بند گلےکی جیکٹوں والے ان مشتعل لوگوں کے لیے جو بس کے دروازے پر ایسے ہاتھ مارتے تھے جیسے وہ وقت پر آئے ہوں اور ڈرائیور نے کوئی غلطی کردی ہو، اور حتی کہ ان مختصر الوجود بوڑھی عورتوں کے لیے بھی نہیں جو خاکی تھیلوں میں گروسری تھامے اپنے لرزتے ہاتھ ہلا ہلاکر اسے روکنے کی کوشش کرتی تھیں۔ اور ایسا نہیں تھا کہ وہ برا آدمی تھا اس لیے دروازہ نہیں کھولتا تھا، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کسی کا برا نہیں چاہتا تھا، یہ اس کے لیے نظریاتی معاملہ تھا۔ ڈرائیور کا نظریہ یہ تھا کہ فرض کریں وہ ایک ایسے شخص کے لیے دروازہ کھولتا ہے جسے صرف تیس سیکنڈ تاخیر ہوئی ہو، تو اگر وہ دروازہ نہیں کھولے گا تو اس شخص کی زندگی کے پندرہ منٹ ضائع ہوجائیں گے، لیکن سماج کے لیے یہ پھر بھی منصفانہ عمل ہوگا، ورنہ بس میں سوار ہر مسافر کے تیس سیکنڈ ضائع ہوجائیں گے۔ اور فرض کریں بس میں ساٹھ افراد سوار ہوں، جنھوں نے کچھ غلط نہ کیا ہو اور سب وقت پر اسٹاپ پر پہنچے ہوں، تو سب کے مجموعی طور پر تیس منٹ ضائع ہوں گے جو ایک شخص کے پندرہ منٹ سے دوگنا نقصان ہوگا۔ یہ واحد وجہ تھی کہ کیوں اس نے کبھی دروازہ نہیں کھولا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ بس میں سوار مسافروں کو اس وجہ کا ذرا بھی علم نہیں ہوگا اور نہ ان لوگوں کو، جو بس کے ساتھ ساتھ دوڑتے تھے اور اسے رکنے کے اشارے کرتے تھے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ان میں سے بیشتر اسے دل ہی دل میں گالیاں دیتے ہیں، اور ذاتی طور پر اس کے لیے یہ بہت آسان تھا کہ وہ انھیں بس میں سوار ہونے دیتا اور ان کی مسکراہٹیں اور شکریہ وصول کرتا۔
لیکن جب مسکراہٹیں اور شکریہ ایک طرف ہوں اور سماج کی بھلائی دوسری جانب، تو ڈرائیور وہی کرتا تھا جسے درست سمجھتا تھا۔
ڈرائیور کی اس سوچ سے سب سے زیادہ نقصان جسے پہنچنا چاہیے تھا، اس شخص کا نام ایڈی تھا، لیکن اس کہانی کے دوسرے لوگوں کے برعکس اس نے کبھی بس کے پیچھے بھاگنے کی کوشش تک نہیں کی، وہ اتنا کاہل اور لاپرواہ تھا۔ اب سنیں کہ ایڈی اس ریستوران میں نائب باورچی کے عہدے پر فائز تھا جس کا نام اسٹیک اوے تھا۔ اس کے احمق مالک کے دماغ میں اس سے بہتر ذومعنی نام نہیں آسکا تھا۔ اس ریستوران کا کھانا کوئی خاص نہیں تھا لیکن ایڈی واقعی ایک اچھا انسان تھا۔ اتنا اچھا کہ کبھی کبھی جب اس کا کھانا ٹھیک نہیں بنتا تھا تو وہ خود اسے لے کر ٹیبل پر جاتا اور معذرت کرتا۔ ایک ایسی ہی معذرت کے موقع پر اس کی ملاقات خوشی سے ہوئی، یا یوں کہہ لیں کہ خوشی کی ایک جھلک سے، ایک ایسی لڑکی کی صورت میں جو اتنی پیاری تھی کہ اس نے بھنے ہوئے گوشت کا پورا ٹکڑا صرف اس لیے ختم کرنے کی کوشش کی کہ ایڈی کو برا محسوس نہ ہو۔ اور وہ لڑکی اسے اپنا نام یا فون نمبر نہیں بتانا چاہتی تھی، لیکن اتنی پیاری تھی کہ ایڈی نے اگلی شام پانچ بجے ملنے کی خواہش کی تو اس نے رضامندی ظاہر کردی، اس مقام پر جو انھوں نے اتفاق رائے سے طے کی، یعنی کہ ڈولفنیریم میں۔
اب ایڈی کے ساتھ ایک مسئلہ تھا، جس کی وجہ سے وہ زندگی میں ہر چیز کھو بیٹھتا تھا۔ یہ گلے کے غدود کی سوجن یا اس جیسا کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اس نے ایڈی کو بہت نقصان پہنچایا تھا۔ اس بیماری کی وجہ سے وہ ہمیشہ دس منٹ زیادہ دیر تک سوتا رہ جاتا تھا اور کوئی الارم کلاک اس کا کچھ نہیں بگاڑ پاتا تھا۔ اسی لیے ریستوران جاتے ہوئے اسے ہمیشہ دیر ہوجاتی تھی، اور اسے راستے میں ملتا تھا ہمارا بس ڈرائیور، جو ہمیشہ انفرادی سطح کے مثبت جذبات کے بجائے سماج کی بھلائی کو پیش نظر رکھتا تھا۔ سوائے اس ایک موقع کے، جب ایڈی کی خوشی داو پر لگی ہوئی تھی، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی اس کیفیت کو شکست دے گا۔ اور سہہ پہر کے قیلولے کے بجائے جاگے گا اور ٹی وی دیکھے گا۔ بطور احتیاط اس نے ایک نہیں بلکہ تین الارم لگا لیے اور ویک اپ کال کی بھی درخواست کردی۔ لیکن وہ بیماری لاعلاج تھی، اس لیے ایڈی بچوں کا چینل دیکھتے دیکھتے بچوں کی طرح سوگیا۔ جب اربوں کھربوں مرتبہ الارم بجنے کے بعد اس کی آنکھ کھلی تو وہ پسینے میں شرابور تھا اور دس منٹ تاخیر ہوچکی تھی، اس نے لباس بھی نہ بدلا اور گھر سے نکل کر سیدھا بس اسٹاپ کی طرف بھاگا۔ اسے یہ تک یاد نہیں تھا کہ بھاگتے کیسے ہیں اور اس کوشش میں اس کے قدم بار بار لڑکھڑا رہے تھے۔ اس سے پہلے آخری بار وہ اس وقت دوڑا تھا جب اسے معلوم ہوا تھا کہ اس طرح وہ جم کلاس کا دورانیہ کم کرسکتا ہے، اور یہ چھٹی جماعت کی بات ہے، بس فرق یہ تھا کہ ان جم کلاسز کے مقابلے میں اس بار وہ دیوانوں کی طرح دوڑا تھا کیونکہ اسے کچھ کھونے کا خطرہ تھا، اور سینے میں درد اور پھولا ہوا سانس اس کی خوشی میں حائل نہیں ہوسکتا تھا۔ راہ میں کچھ حائل نہیں ہوسکتا تھا، سوائے ہمارے بس ڈرائیور کے، جس نے اسی وقت دروازہ بند کیا تھا اور بس کو آگے بڑھارہا تھا۔ ڈرائیور نے عقبی شیشے میں ایڈی کو دیکھ لیا تھا، لیکن جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں، اس کا ایک نظریہ تھا، ایک عمدہ دلیل والا ںظریہ، جو کسی بھی بات سے زیادہ انصاف سے محبت اور سادہ سے حساب کتاب پر مبنی تھا۔ البتہ ایڈی کو ڈرائیور کے حساب کتاب کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ زندگی میں پہلی بار سچ مچ وہ کسی جگہ وقت پر پہنچنا چاہتا تھا۔ اسی لیے وہ بس کے پیچھے بھاگا، اگرچہ اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اچانک ایڈی کی قسمت پلٹی، اگرچہ آدھی راہ پر۔ بس اسٹاپ سے سو گز دور ٹریفک کا اشارہ تھا۔ اور بس کے پہنچنے سے چند لمحے پہلے وہ سرخ ہوگیا۔ ایڈی کسی طرح دوڑتے دوڑتے بس تک پہنچ گیا اور خود کو ڈرائیور کے دروازے کے سامنے تک گھسیٹ لیا۔ اس نے دروازہ پر ہاتھ نہیں مارا کیونکہ اس میں اتنی قوت نہیں بچی تھی۔ اس نے بس ڈرائیور کو اپنی نم آنکھوں سے دیکھا اور گھٹنوں کے بل گر کے گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ اسی وقت ڈرائیور کو کچھ یاد آیا، ماضی کا وہ وقت کہ جب بس ڈرائیور بننے کی خواہش سے پہلے اسے خدا بننے کی خواہش تھی۔ یہ ایک اداس کردینے والی یاد تھی کیونکہ انجام کار وہ خدا نہیں بن سکا تھا، لیکن اس میں خوش ہونے کا پہلو بھی تھا کیونکہ وہ بس ڈرائیور بننے میں کامیاب ہوگیا تھا، جو اس کی دوسری بڑی خواہش تھی۔ اور اچانک ڈرائیور کو یاد آیا کہ کیسے اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ خدا بنا تو بہت مہربان اور رحیم ہوگا اور اپنی تمام مخلوقات کی دعائیں سنے گا۔ لہذا جب اس نے اپنی ڈرائیور کی بلند نشست سے ایڈی کو دیکھا، جو زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا تھا، تو وہ اسے نظرانداز نہیں کرسکا اور اپنے نظریات اور حساب کتاب کے باوجود اس نے دروازہ کھول دیا، اور ایڈی بس میں چڑھ گیا اور شکریہ تک نہیں کہہ سکا کیونکہ اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔
اچھی بات یہ ہوگی کہ آپ یہاں پڑھنا روک دیں کیونکہ اگرچہ ایڈی وقت پر ڈولفنیریم پہنچ گیا تھا، اس کی خوشی نہیں آسکی، کیونکہ خوشی کا پہلے ہی ایک بوائے فرینڈ تھا۔ بات یہ ہے کہ وہ اتنی پیاری تھی کہ اس دن یہ بات بتا ہی نہیں سکی، چنانچہ اس نے ایڈی کو وہاں کھڑے رہنے دیا۔ ایڈی نے اس بینچ پر بیٹھ کر، جس کا دونوں میں اتفاق ہوا تھا، دو گھنٹے تک انتظار کیا۔ وہاں بیٹھے بیٹھے اس کے ذہن میں زندگی سے متعلق تمام مایوس کن خیالات آئے، اور اسی دوران میں اس نے وہاں سورج کو ڈوبتے دیکھا جو ایک خوبصورت نظارہ تھا، اور پھر اس نے سوچا کہ آج کی بھاگ دوڑ کے بعد اس کے پٹھے کس قدر دکھیں گے۔ واپسی پر وہ گھر جلدی پہنچنے کے لیے بے چین تھا، تو اس نے دور سے بس کو دیکھا، جو اسی وقت اسٹاپ پر پہنچی تھی اور مسافر اتر رہے تھے، اور وہ جانتا تھا کہ اگر اس کے بدن میں دوڑنے کی قوت ہوتی تو بھی کسی صورت وہ اسے نہیں پکڑ سکتا تھا۔ چنانچہ وہ سست قدموں سے چلتا رہا اور ہر قدم پر دس لاکھ تھکے ہوئے پٹھوں کے بارے میں سوچتا رہا، اور جب وہ اسٹاپ پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بس ابھی تک وہیں کھڑی، اس کی منتظر تھی۔ اور اگرچہ مسافر شور مچارہے تھے اور چلنے کو کہہ رہے تھے، لیکن بس ڈرائیور ایڈی کا انتظار کرتا رہا، اور اس نے ایکسلیریٹر پر اس وقت تک پیر نہیں رکھا جب تک ایڈی بس میں بیٹھ نہیں گیا۔ اور جب بس نے چلنا شروع کیا تو ڈرائیور نے عقبی شیشے میں دیکھا اور ایڈی کو آںکھ ماری جس سے یہ سارا قصہ کچھ برداشت کے قابل ہوگیا۔
[ایٹگر کیرٹ، ترجمہ مبشر علی زیدی]
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر