رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالکل کہیں گے کہ لوگوں کا تو کام ہی کہنا ہوتا ہے۔ فلمی دنیا کے عاشقوں کے لیے لوگ جو بولیاں بولیں‘ آوازے کسیں‘ ان پرکوئی اثر نہیں پڑتا۔ سماج میں حقیقی زندگی کی بات الگ ہے کہ کوئی اس سے کٹ کر نہ زندگی ڈھنگ سے گزار سکتا ہے اور نہ اس کے بنیادی تقاضوں سے سرتابی کی گنجائش ہے۔ سیاست‘ خصوصاً جہاںجمہوریت ہے اور اس کے نام پر حکومتیں بنتی ہیں اور رات کے اندھیروں میں اندھے فیصلے کرنے کے بجائے عین جمہوری اور قانونی طریقوں سے گھر رخصت کیا جاتا ہے‘ لوگ اس کی بنیادکی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی عوام کے نام پر حکومت بنائے اور اپنی جائزیت کو ان کی تائید سے جوڑے اور یہ کہے کہ لوگ جو کہتے ہیں وہ کہتے رہیں‘ حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
وفاق اور پنجاب میں حکومت سازی ہو یا سندھ‘ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں نئی سیاسی ترتیب‘ اس بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں اور آئندہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں ان کے بارے میں کون سی زبان استعمال کریں گے‘ اس کا اندازہ انتخابات کے دوسرے دن سب کو ہو گیا تھا۔ دیہات میںمویشی چوری کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں‘ اُس شام کی آخری ساعتوں سے لے کر اگلے دن کی شام تک اور پھر اس کے بعد بھی تواتر سے جو ہوتا رہا‘ وہ گزشتہ صدی میں ہونے والے انتخابات کی دھاندلیوں کی طرح پوشیدہ نہ تھا۔ باتیں تو حسبِ معمول نتائج کے ترسیلی نظام کے بیٹھ جانے سے شروع ہوئیں کہ کون جیت رہا تھا۔ ایک دم جس طرح جواریوں کو دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہو تو وہ اپنی بساط لپیٹ لیتے ہیں‘ اسی طرح ”انتظار فرمائیے‘‘ کی پٹی لگا کر مداریوں کی طرح ہاتھ کی صفائی دکھا دی گئی۔
وہ دن‘ رات اور آج کا دن‘ باتوںکا طوفان ہے جو باہر تو بہت زیادہ ہے اور اس کی تندہی میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے مگر ایوانوں کے اندر خصوصاً پنجاب اسمبلی میں نعرے لگائے جا رہے ہیں‘ ان کی زبان اور اندازِ بیان انتخابات کے بارے میں چوری کی کہاوتوں سے اتفاقیہ مشابہت رکھتے ہیں۔ ہم تو سیاسی اکابرین کے کردار‘ ماضی‘ زر و دولت اور امانت داری کے بارے میں ہمیشہ اچھی رائے رکھتے رہے ہیں کہ انہوں نے عوام‘ ملک اور قوم کی خدمت اور اجتماعی مفادات کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کے علاوہ نہ کبھی کچھ سوچا ہے اور نہ کیا ہے۔ انہیں تو پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا جنون ہے۔ یقین ہے کہ کئی دہائیاں اور کئی باریاں لینے کے بعد انہیں اور ان کی اُبھرتی ہوئی نئی نسل کو 30‘ 40سال اگر عنایت ہو گئے تو پاکستان ایشیا کی بڑی معیشتوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جائے گا۔ ابتدا آنے والے دنوں میں غریب لوگوں کو ماہِ رمضان کے دوران حسبِ سابق لائنوں میں کھڑا کرکے مفت آٹے کی بوریاں تقسیم کرنے سے ہو گی۔ اس میں غریبوں کو کچھ ملے یا نہ ملے‘ اور بہت سوںکا بھلا ضرور ہو جاتا ہے۔ خیر پیٹ میں کچھ ہو گا تو لوگ کام کاج‘ تعلیم‘ سائنس اور ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کا سوچ سکیں گے۔ ہماری رائے ہمیشہ کی طرح عوامی رائے کے برعکس رہے گی کہ پاکستان کے تمام آئینی ادارے‘ بڑے ایوان سے لے کر صوبوں کی اعلیٰ وزارتوں‘ کابینہ اور وزیراعظم کے شاہی محل تک صرف دو سیاسی گھرانوں تک محدود رہیں۔ کیا اس میں کسی کو شک ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ملک کو بحرانوں سے نکالا اور دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے دن رات محنت کی۔ شکی مزاج لوگوں سے تو گزارش ہے کہ ہماری اس خوش فہمی کو نظر انداز کردیں اور اگر ایسا کرنے میں کوئی دشواری ہو‘ دل نہ مانے اور طبیعت ضدی ہو تو ثبوت کے لیے سولہ ماہی اتحادی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لے لیں کہ کیسے سالوں میں جو قانون سازیاںنہ ہو سکیں‘ لوگوں کو انصاف نہ مل سکا‘ وہ پی ڈی ایم حکومت میں دنوں میں ہو گیا۔ ایک شہری جو علاج معالجے اور پُراسرار بیماریوں میں بڑی دیر تک مبتلا رہنے کے بعد عوام کے پُرزور اصرار پر واپس تشریف لائے تو ان کی سزا معطلی کے کاغذات ہوائی اڈے پر بنوائے گئے‘ مہریں لگائی گئیں اور تمام قانونی اور آئینی تقاضوں کو مہارت سے پورا کیا گیا۔
لوگ کچھ اور کہتے ہیں اور جو ان کے ساتھ ہاتھ ہوا ہے‘ انتخابات اور اس کے اگلے دن مرتب ہونے والے نتائج کی روشنی میں جو حکومتیں وفاق‘ پنجاب اور سندھ میں بنیں گی‘ وہ باتیں کرتے رہیں گے۔ حکمران سیاسی گھرانوں کو اس بارے میں کوئی فکر کیوں ہو گی کہ ان کی بات ہو گئی ہے۔ یہ فقرہ بھی سینکڑوں ایسے جملوں کی طرح‘ جو برقی رو پر دن رات جھکڑوں کی طرح چلتے رہتے ہیں‘ ایک نیا تحفہ ہے۔ دکھ کی بات ہے کہ حضرت عالی کی بات نہ ہو سکی‘ حالانکہ ان کی سیاست کی ڈبی پر یہ نہیں لکھا ہوا کہ ”اس تاریخ کے بعد استعمال نہ کریں‘‘۔ ان کی سیاست کا رنگ تو دائمی ہے۔ انہیں دکھ ہے کہ جاتی امرا کو‘ جماعتی منشور ‘پاکستان کو نواز دو‘ کے عین مطابق نواز دیا گیا ہے تو وہ کیوں بابرکت سیاسی خزانوں سے اس شام خالی ہاتھ لوٹے۔ ایک جلسے میں نہیں‘ کئی جلسوں میں وہ برملا اعلان کرتے تھے کہ پی ٹی آئی حکومتوں کو گرانے کی مہم کا آغاز انہوں نے کیا تھا۔ یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘ پہلا دھرنا بھی اسلام آباد میں انہوں نے دیا تھا اور 2018ء کے انتخابات کے نتائج ابھی آرہے تھے کہ جیتنے والوں کے خلاف محاذ کھول دیا تھا۔ حضرت عالی کی سیاست ختم ہوئی اور نہ ان کی افادیت‘ وہ ہمارے موروثی سیاسی گھرانوں کی سیاست میں صفِ اول میں کھڑے ہیں۔
باتوں کا شور شرابا نہ صرف ملک کے اندر ہے بلکہ باہر کی دنیا میں جو کچھ اخباروں کے اداریوں میں لکھا گیا ہے‘ اور جو مذاکرے ان کے ٹیلی ویژن چینلوں پر ہوئے ہیں‘ وہ آپ یہاں نہیں دیکھ سکتے۔ سرکاری سطح پر ہر اس ملک اور تنظیم نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی کہ جو ہمیں قرضہ دیتے ہیں‘ جن کی منڈیوں میں ہم ٹیکسٹائل کی مصنوعات فروخت کرتے ہیں‘ کیونکہ برآمدات کے لیے صرف یہی صنعت رہ گئی ہے۔ ان کے سفارتی آداب کی زبان میں بھی بہت تلخی نظر آتی ہے۔ سوال ہمارے حکمرانوںکا پیچھا کریں گے۔ یہاں تو ہر کوئی‘ کوئی بھی بات کہنے اور لکھنے سے پہلے کئی بار سوچتا ہے کہ کسی کی ہتکِ عزت تو نہیں ہوگئی‘ مگر باہر ایسا کچھ نہیں ہے۔ بہرحال ہم عوام کی طرح نہ پریشان ہیں اور نہ ہمیں کوئی افسوس ہے کہ ووٹ تو انہوں نے معتوب آزاد امیدواروں کو دیا ہے‘ خیر سے حکومتیں موروثی اور ان کے گماشتے بنا رہے ہیں۔ ہم تو درویش ہیں۔ کسی کونے میں بیٹھ کر کتابوں کے ذخیرے سے کوئی غیر سیاسی‘ غیر روایتی اور فطرت سے قربت رکھنے کی تحریریں تلاش کرکے دل بہلائیں گے۔ پریشانی اب ملک کے بارے میں یا عوام کے بارے میں بھی نہیں کہ وہ جانیں اور ان کی قسمت کے ستارے۔ البتہ ایک بات کا یقین ہے کہ اب اس بدلے ہوئے معاشرے اور ان بے رحم برقی رو پر چلتی باتوں کے سیلاب کو روکنے کی کوئی ایجاد ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ یاد آیا کہ ”بند کردو‘‘ کے جو معاشی نقصانات ہیں اور پھر دنیا میں جو خبریں گردش کرتی رہتی ہیں اور اپنی حدیں پھلانگ کر اچانک اپنے ہاں نمودار ہو جاتی ہیں‘ ان کے اثرات کیسے زائل ہوں گے۔ لیکن پھر ایسے کاموں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر