مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’بلوچ لانگ مارچ کا اسلام آباد میں ’’پُرجوش استقبال‘‘۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام تربت تا اسلام آباد لانگ مارچ کے شرکا کی اسلام آباد سے باہر پنجاب اور اسلام آباد پولیس نے جو ’’پرجوش میزبانی‘‘ فرمائی اس پر 25 کروڑ لوگوں کو ایک آوازمیں مطالبہ کرنا چاہیے کہ اس ’’میزبانی‘‘کے فرائض ادا کرنے والے پولیس اہلکاروں کو تمغہ شجاعت اور شلوار قمیص و کوٹ میں ملبوس نیم موٹے شخص کو جو خواتین اور بچوں پر لاٹھی کی مضبوطی آزمارہا تھا، ہلال پاکستان دیا جانا چاہیے۔

بلوچ لانگ مارچ تربت سے شروع ہوا۔ یہ بلوچستان میں غائب کئے جانے والے افراد کے ساتھ نعشوں کی صورت میں ملنے والوں کے ورثا کا احتجاجی لانگ مارچ تھا۔

حالیہ لانگ مارچ کے آغاز کو آپ تربت سے تعلق رکھنے والے بیس بائیس برس کے بالاج بلوچ ولد مولا بخش کے قتل کا ردعمل بھی کہہ سکتے ہیں۔

بیس بائیس سالہ بالاج بلوچ کو 31 اکتوبر کی شب پولیس اور سی ٹی ڈی نے اس کے گھر سے گرفتار کیا (گرفتاری کے عمل کے دوران سرکاری اہلکاروں کے طرزعمل بارے ورثا جو کہتے ہیں اسے سن کر کسی بھی صاحب خاندان کا سر شرم سے جھک جانا فطری امر ہے) چند دنوں بعد بالاج بلوچ کو ماردیا گیا۔

سی ٹی ڈی کا دعویٰ ہے کہ وہ دہشت گرد تھا اسے اس کے ساتھیوں کے ٹھکانے کی نشاندہی کے لئے لے جایا جارہا تھا ساتھیوں اور پولیس کے درمیان ہونے والی فائرنگ میں وہ اپنے ساتھیوں کی گولیاں لگنے سے جاں بحق ہوگیا۔

اس وقوعہ میں 4 افراد جاں بحق ہوئے جو سی ٹی ڈی کے بقول دہشت گرد تھے۔ ’’معجزہ‘‘ یہ ہوا کہ ’’گھمسان‘‘ کی "گولی بازی” میں سی ٹی ڈی اور پولیس والوں کو خراش تک نہیں آئی بلکہ سرکاری گاڑیوں پر تو ’’چھینٹ ‘‘ بھی نہیں پڑی۔

تقریباً نصف صدی سے اخبارات میں قلم مزدوری کرتے ہوئے ہم نے اس طرح کی سینکڑوں کہانیاں پڑھیں اورشائع کیں جن میں پولیس گرفتار ’’ملزم یا ملزموں‘‘ کوساتھیوں یا مال و گولہ بارود کی نشاندہی کے لئے لے کر جاتی ہے اور ملزم یا ملزمان کے گھات لگائے ساتھی پولیس پر فائرنگ کردیتے ہیں جس سے نشاندہی کے لئے لے جائے گئے شخص یا اشخاص کی موت ہوجاتی ہے۔

’’پولیس کے دامن پر کوئی داغ نہ گاڑیوں پر چھینٹ‘‘۔

یہ طریقہ بھارت میں بہت مقبول ہے۔ جھاڑ کھنڈ کی ریاست اس میں دوسرے اور بھارتی پنجاب پہلے نمبر پر ہے۔

بالاج بلوچ کے ورثا سی ٹی ڈی کے موقف کو مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے عدالتی تحقیقات کے مطالبہ پر پہلے مقامی سطح پر احتجاج کیا پھر متعدد مارے اور اغوا کئے جانے والے افراد کے ورثا نے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا فیصلہ کیا۔ لانگ مارچ کی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے سنبھالی۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ دستیاب معلومات کے مطابق 2006ء میں پانچویں جماعت کی طالبہ تھیں جب ان کے والد جوکہ واپڈا میں ملازم تھے اغوا کرلئے گئے۔ دو ہزار گیارہ میں ان کی مسخ شدہ نعش ملی۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ پانچ بہن بھائی ہیں۔

چار بہنوں کا اکلوتا بھائی 2016ء میں اغوا ہوا، تاحال اس کے بارے میں کوئی اچھی بری خبر نہیں ہے۔ لانگ مارچ کے دوسرے شرکا میں سے ہر شخص کی اپنی ایک دکھ بھری داستان ہے۔

لاپتہ بلوچوں کے ورثا کا یہ لانگ مارچ ضلع ڈیرہ غازی خان کی حدود سے سرائیکی وسیب میں داخل ہوا تھا ۔ اس میں بزرگ و نوجوان خواتین، شیر خوار بچوں کے ساتھ پانچ سے سات سال کی عمر کے بچے بچیاں، کچھ نوجوان اور بڑی تعداد میں بزرگ بھی شامل ہیں۔

یہ قافلہ گزشتہ سے پیوستہ شب جب اسلام آباد کی حدود میں داخل ہونے لگا تو پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا، آنسو گیس پھینکی اور لانگ مارچ کے شرکا پر واٹر کینن کے ذریعے پانی بھی پھینکا۔

اسلام آباد پولیس کا موقف ہے کہ لانگ مارچ کے شرکا کو این نائن پارک اور ایچ نائن پارک میں احتجاجی دھرنے اور اجتماع کرنے کی پیشکی کی گئی مگر وہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد جانے پر بضد تھے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ’’یہ لوگ پریس کلب کے باہر موجود اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ریڈ زون میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتے تھے‘‘۔

لاٹھی چارج، واٹر کینن کے استعمال اور آنسو گیس پھیکنے جانے بارے پولیس کا دعویٰ ہے کہ ’’لانگ مارچ کے شرکاء نے ہم پر پتھرائو کیا اور اہلکاروں پر ڈنڈے برسائے جس کے جواب میں سیلف ڈیفنس کا حق استعمال کیا گیا‘‘۔

ان دعوئوں کو اس دعوے سے ملاکر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پولیس کے مطابق اس نے 283 افراد کو گرفتار کیا ان میں ایک خاتون بھی شامل ہے جبکہ پولیس کی گاڑیوں میں گرفتار کی جانے والی خواتین کی تصاویر ہی نہیں بلکہ خواتین کیلئے قائم پولیس سٹیشن کی حوالات کی وہ ویڈیو بھی پولیس کے موقف کی تردید کرتی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس سٹیشن کی حوالات بلوچ زادیوں سے بھری ہوئی ہے۔

بلوچ لانگ مارچ کے شرکا کے ساتھ یہ ’’حسن سلوک اور اعلیٰ برتائو والی میزبانی‘‘ کیوں’ اس کا حکم کس نے دیا اور ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟

پرامن خواتین بچے اور بزرگ احتجاج کے سوا کیا کرسکتے تھے اپنے لانگ مارچ کے آغاز سے اسلام آباد پہنچنے تک سینکڑوں کلو میٹر کے سفر میں انہوں نے کہیں ایک گملہ کیا پتہ بھی نہیں توڑا۔ جہاں پڑائو ڈالا وہاں لانگ مارچ کا مقصد اور بلوچستان کی صورتحال کے حوالے سے تصویر کا دوسرا رخ لوگوں کے سامنے رکھا۔

کیا یہ کنا درست نہ ہوگا کہ اگر مقتول بالاج بلوچ کے ورثا اور ہم خیال شہریوں کا اس واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کرانے کا مطالبہ تسلیم کرلیا جاتا تو اس لانگ مارچ کی نوبت ہی نہ آتی۔

ہمارے ریاستی نابغے دنیا بھر کے مقبوضہ جات کے لوگوں کے انسانی و سیاسی حقوق پر روزانہ کی بنیاد پر اقوام کی برادری کو لمبے لمبے بھاشن دیتے ہیں مگر خود اپنی فیڈریشن میں آباد لوگوں کی بات سنتے ہیں نہ انہیں پرامن احتجاج کا حق دینے پر تیار ہیں ۔

بلوچستان کی صورتحال پر ریاست کے موقف سے کبھی بھی اتفاق نہیں کرپایا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں حقائق کے مقابلہ میں سستی جذباتیت سے عبارت پروپیگنڈہ زیادہ ہے۔

مثلاً بلوچ ایشو پر ریاستی موقف کے ہمنوا ایک دوست نے گزشتہ شب مجھے کہا ’’مجھے افسوس ہوا کہ آپ نے علیحدگی پسندوں کی حمایت کی ان لوگوں کو درست کہا جنہوں نے پرچم نذر آتش کئے۔

جواباً عرض کیا کہ "بٹوارے سے بنی ریاست کے غیرفطری وجود کے باوجود میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ جو اور جیسا ہے اسے مساوات، انصاف، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور عوام کے حق حکمرانی سے قائم رکھ کر مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے ” ۔

اب بھی یہی رائے ہے۔

گزشتہ ادوار میں جب جب کالعدم ٹی ٹی پی اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے مذاکراتوں کا ڈول ڈالا گیا تب تب ہم نے ان سطور میں عرض کیا اس طرح کی وسعت قلبی کا مظاہرہ ناراض بلوچوں کے لئے بھی کیجئے۔

کیا کالعدم پنجابی طالبان کے امیر عصمت اللہ معاویہ اوراس کے ساتھیوں کو ’’قومی دھارے‘‘ میں نہیں لایا گیا۔

تحریک انصاف کے دورمیں کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے کابل مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لئے ٹی ٹی پی کے 103 ایسے افراد کو صدارتی حکم پر رہا نہیں کیا گیا جن میں زیادہ تر لوگ سزا یافتہ تھے؟

ناراض بلوچوں کو مذاکرات کی میزپر لابیٹھانے کے لئے اگر مسخ شدہ نعشوں کے کاروبار اور اغوا کئے جانے کا سلسلہ بند کرکے اب تک کے تمام مغویوں کو منظرعام پر لے آیا جائے تو اس میں غلط کیا ہوگا؟

بار دیگر عرض ہے ریاستوں کا وجود مساوات، انصاف، عوام کے حق حکمرانی اور شخصی فہم پر عدم پابندی کے ساتھ وسائل پر مقامی آبادی کے اولین حق کو تسلیم کرنے سے ہی قائم رہتا ہے۔ اسلام آباد میں پولیس نے بلوچ لانگ مارچ کے مردوزن شرکا کے ساتھ جو سلوک کیا وہ شرمناک عمل ہی کہلائے گا۔

قانون نافذ کرنے والے محکمے مسلسل دروغ گوئی کی وجہ سے پہلے ہی اپنی ساکھ تباہ کرچکے ہیں۔ عورتوں، بچوں اور بزرگوں پر تشدد سے اقوام کی برادری میں ساکھ (جوکہ ہے نہیں) متاثر ہوئی۔

سینکڑوں میل کا سفر کرکے فیڈریشن کے دارالحکومت آنے والوں کی بات سنی جانی چاہیے تھی۔

مقامی نقاب پوش افراد کی جانب سے تشدد کے مظاہرے کا الزام بہت ہی بھونڈا ہے۔ بالفرض اسے درست مان لیاجائے تو جن خبریوں کو یہ پتہ تھا کہ مقامی نقاب پوش یہ سب کررہے ہیں انہوں نے اب تک مبینہ مقامی نقاب پوشوں کو تحویل میں لینے کے لئے کیا گیا۔

پولیس نے گزشتہ سے پیوستہ شب اسلام آباد کے مختلف تھانوں کے باہر زبردستی پکڑی گئی بسیں پہنچادی تھیں تاکہ طاقت کے بل بوتے پر لانگ مارچ کے شرکاء کو زبردستی واپس کوئٹہ بھجوادیا جائے۔

نگران وزیراعظم کی بنائی وزراء کمیٹی پریس کانفرنس میں دعویٰ کررہی تھی کہ تمام گرفتار شدگان رہا کردیئے گئے ہیں جبکہ سینکڑوں خواتین اور مرد رات گئے تک حوالاتوں میں بند تھے۔ حرف آخر یہ ہے کہ اسلام آباد میں بلوچ لانگ مارچ کے شرکا کے ساتھ جو ہوا وہ اچھا نہیں ہے اس سے دوریاں مزید بڑھیں گی۔ مناسب یہی ہے کہ ان کی بات سنی جائے تسلی بخش جواب دیا جائے۔

بعض سنگین واقعات کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ تسلیم کیا جائے۔ مسنگ پرسن کو منظرعام پر لایا جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بلوچستان کے وسائل پر بلوچوں کا حق تسلیم کیا جائے لاڈلے سرداروں کی باریاں لگوانے کی مینجمنٹ کی بجائے عوام کو اپنی قیادت کے انتخاب کا حق دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: