حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(قسط نمبر 6)
سفر حیات اور بالخصوص قلم مزدوری کے اب تک کے ماہ و سال کے مشاہدات و تجربات بڑے دلچسپ ہیں۔ ایک صاحب تھے غلام شبیر خان لاشاری، سال 2005ء میں وہ ہمارے محبوب دوست اور بلوچ لالہ عمر علی خان بلوچ (مرحوم) کا تعارفی خط لے کر ملاقات کے لئے تشریف لائے۔
بلوچ لالہ نے اپنے خط میں دیگر باتوں کے ساتھ دو باتیں لکھیں پہلی یہ کہ لاشاری کا لاہور سے روزنامہ شائع کرنے کا پروگرام ہے، تمہیں اور ارشاد احمد امین کو ہر صورت میں اس سے تعاون بھی کرنا ہے اور اخبار کی اشاعت کی ادارتی ذمہ داریاں بھی سنبھالنی ہیں۔ ان دنوں میں روزنامہ ’’پاکستان‘‘ لاہور سے الگ ہونے کے بعد ایک بار پھر ’’مشرق‘‘ پشاور کے لئے کالم لکھنے کی مزدوری کررہا تھا ۔
لاشاری سے فون پر بات ہوئی وقت ملاقات طے کرکے ارشاد امین کو اطلاع دی تو انہوں نے بتایا کہ اسی حوالے سے آج صبح ہی عمر علی خان بلوچ کا ٹیلیفون آیا تھا۔ اس سے اگلی سپہر ارشاد امین اور لاشاری دونوں میرے گھر آگئے میں ان دنوں اعوان ٹائون سے ملحقہ مرغزار آفیسرز کالونی میں مقیم تھا۔ اخبار شائع کرنے کا مقصد کیا ہے۔ بجٹ اور دوسرے معاملات کے ساتھ اخبار کی پالیسی پر تفصیل سے بات ہوئی۔
جواب ملا پالیسی بنانا آپ کا کام ہے میں ایک اچھا اور معیاری اخبار شائع کرنا چاہتا ہوں۔ اس ملاقات میں ہی معلوم ہوا کہ موصوف نے ہمارےایک اور دوست اے ایم شکوری کے برادر عزیز سے روزنامہ ’’خلقت انٹرنیشنل‘‘ لاہور کا ڈیکلریشن خرید کر اپنے نام ٹرانسفر کروالیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہال روڈ کے قریب پٹیالہ گرائونڈ کی ایک عمارت میں ایک ہال کرائے پر لے لیا ہے۔ طے ہوا کہ میں اگلے روز پارٹیشن کرنے والے ٹھیکیدار سے متعلقہ مقام پر ملاقات کروں گا اور ضرورت کے مطابق پارٹیشن بنانے کےلئے کہہ دوں گا۔
ہماری بات چیت جاری تھی کہ عمر علی خان بلوچ کا ٹیلیفون آگیا کہنے لگے تم اور ارشاد امین ملتان آجائو یہاں بیٹھ کر باقی معاملات طے کرلیتے ہیں۔ دفتری ضروریات کے لئے اگلے روز پارٹیشن بنانے کی ہدایت کردی یہاں ایک بات گلے پڑگئی۔ لاشاری کہنے لگے آپ کالم وغیرہ لکھ کر یہیں دفتر میں آجایا کریں اپنی نگرانی میں کام کرائیں تاکہ ضرورت کے مطابق اور بروقت کام مکمل ہو ۔
اگلے چند دنوں میں، میں پروگرام کے مطابق ملتان چلا گیا۔ دوسرے دن عمر علی خان بلوچ کے ہاں ناشتے پر اکٹھا ہونا تھا۔ ارشاد امین کسی وجہ سے ملتان نہ آئے۔ لاشاری ، میں اور اعجاز خاور ناشتے کی میز پر موجود تھے۔ عمر علی خان بلوچ کی میزبانی یوں کہہ لیجئے موجودگی میں تنخواہ وغیرہ کے معاملات طے کرنے تھے۔ وہ بھی ہوگئے۔
مہینے بھر میں دفتری پارٹیشن اور ضروری اشیاء کی تنصیب ہوئی ہفتہ دس دن میں مختلف سیکشنوں کےلئے کارکن ساتھیوں کی بھرتی مکمل ہونے کے بعد اخبار کی اشاعت کے لئے پریکٹس شروع کردی گئی۔ اخبار کی اشاعت شروع ہوگئی تو لاشاری نے ایک نوجوان کو سٹور کیپر کے طور پر رکھ لیا یہ ان کے گھریلو ملازمہ کا صاحبزادہ تھا۔
سٹور کیپر تو وہ تھا ہی اس سے زیادہ ذمہ داری دفتر میں کام کرنے والے احباب کی رپورٹ مالک کو پیش کرنا تھی۔ کون کب آیا کتنے مہمان ملنے آئے کون کیا کھاتا اور پیتا ہے۔ ابتدائی دو اڑھائی ماہ (اخبار کی اشاعت کے بعد) اچھے گزرے پھر سٹور کیپر کی رپورٹوں پر کارکنوں کو نکالنے کے سلسلے کا آغاز ہوگیا تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہونے لگی۔
ساتھیوں کی ناراضگی کا سامنا مجھے بطور ایڈیٹر اور ارشاد امین کو سی این ای کے طور پر کرنا پڑتا تھا۔ صبح لگ بھگ دس ساڑھے دس بجے سے رات ڈیڑھ دو بجے تک مسلسل پانچ چھ ماہ کام کرنے کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے بیماری دل نے آن دبوچا۔ ہارٹ اٹیک اتنا شدید تھا کہ میرے نہ صرف جبڑے میں کچھ فرق پڑگیا بلکہ دانت بھی ٹیڑھے ہوگئے۔
ساتھیوں کی محنت رنگ لائی اخبار کی سرکولیشن 1500کے قریب ہوگئی۔ اسی عرصے میں چیف ایڈیٹر غلام شبیر خان لاشاری کے دفتر میں ’’محفلیں‘‘ شروع ہوگئیں ایک صاحب جو شوبز کے لئے رپورٹر رکھے گئے وہ تیسرے درجہ کی سٹیج و فلمی اداکاروں کو لے آتے چیف ایڈیٹر کے کمرے میں ’’محفلیں ‘‘ جمتیں ، ارشاد امین اور میں اس صورتحال سے تنگ تھے ایک دن ہم دونوں نے لاشاری سے کہا، یار ہمارے پاس ماسوائے سماجی احترام اور پیشہ ورانہ ساکھ کے اور کچھ نہیں آپ کے کمرے میں سجنے والی محفلوں کی شہر میں جو دھوم مچی ہوئی ہے اس سے ہماری نیک نامی متاثر ہوتی ہے۔
’’محفلیں‘‘ بند تو نہ ہوئیں البتہ ان کا وقت تبدیل ہوگیا اب یہ کارکنوں کے چلے جانے کے بعد رات ایک ڈیڑھ بجے شروع ہوتیں اور صبح کے قریب تھمتیں۔ غلام شبیر لاشاری بنیادی طورپر پراپرٹی ڈیلر تھے۔ لاہور اور اسلام آباد میں مری روڈ پر بارہ کہو سے آگے کسی جگہ زمین لے رکھی تھی جہاں کالونی بنارہے تھے۔ ایک دن کہنے لگے کہ اخبار کے نمائندگان کو ہی ان کے شہروں میں میرے پراپرٹی کے ادارے کا سیل مین مقرر کردیں۔ میرا اور ارشاد امین کا جواب نفی میں تھا۔ اعجاز خاور البتہ اس تجویز پر بہت پرجوش دیکھائی دیا۔
اس شام ارشاد امین اور میں کھانا کھانے کےلئے پریس کلب چلے گئے جہاں ہم دونوں نے تفصیل کے ساتھ صورتحال پر مشورہ کرنے کے بعد طے کیا کہ ہم لاشاری کو ایک نوٹس دیتے ہیں کہ پچھلے پانچ ماہ کی تنخواہیں ادا کی جائیں۔ یہ کہ ہم پراپرٹی ڈیلری کے لئے نمائندوں کو نہیں کہہ سکتے۔
دفتر میں جاسوسی وغیرہ کا سلسلہ بند کیا جائے۔ نکال دیئے گئے ساتھیوں کے واجبات ادا کئے جائیں احتجاجی تحریر ارشاد امین نے لکھی جس کی ایک کاپی ہم نے اپنے مشترکہ دوست اور لاشاری سے متعارف کروانے والے برادرم عمر علی خان بلوچ کو ٹی سی ایس کرے ذریعے بھجوادی۔
دو تین دن بعد عمر علی خان بلوچ ملتان سے لاہور آئے میرے گھر پر تفصیلی نشست ہوئی تحریری طور پر طے پایا کہ آئندہ ہر ایک تنخواہ کے ساتھ سابقہ تنخواہوں کی ایک تنخواہ بھی دی جائے گی۔ دفتر سے نکالے گئے ساتھیوں کے بقایا جات ایک ماہ کے اندر ادا کردیئے جائیں گے۔
بدقسمتی سے اس فیصلہ ساز ملاقات کے دو تین روز بعد مجھے ہارٹ اٹیک ہوگیا۔ ارشاد امین نے دفتر میں جمنے والی ایک ’’محفل‘‘ پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دفتر آنا چھوڑدیا۔ شوبز رپورٹر اور اعجاز خاور نے سارے معاملات سنبھال لینے کے ’’عزم‘‘ کے ساتھ لاشاری کو مٹھی میں لے لیا۔
ہارٹ اٹیک کے کوئی پندرہ دن بعد میں ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود دفتر پہنچ گیا۔ ڈاکٹرز کہہ رہے تھے کہ کم و یبش تین ماہ سیڑھیاں چڑھنے سے گریز کیا جائے۔ اہل خانہ بھی دفتر جانے پر راضی نہیں تھے مگر مزدور مزدوری نہ کرے تو کیا کرے واجبات کے حق داروں کے ساتھ دیگر ساتھی بھی گھر آکر صورتحال پر روتے دھوتے اسی وجہ سے دفتر جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
ارشاد امین سے بات کی انہیں واپس آنے کے لئے کہا تو وہ بولے میں حتمی فیصلہ کرچکا ہوں عمر علی خان بلوچ کو بھی اطلاع دے دی ہے۔
دفتر کے ماحول میں عجیب کھچائو تھا۔ لاشاری میری واپسی پر چند دن تو آتا رہا پھر دفتر کی بجائے سٹور کیپر اور چند لوگوں سے دفتر کے باہر ملنے لگا۔ دس پندرہ دن بعد ایک شام ا عجاز خاور نے مجھے لاشاری کی طرف سے فراغت نامہ تھماتے ہوئے کہا آپ کل سے دفتر نہ آئیں۔
چھ سات ماہ کی تنخواہوں کا تقاضہ کرنے پر بتایا گیا کہ میں اور لاشاری ایک دو دن میں آپ کے گھر آتے ہی بیٹھ کر حساب کرلیں گے۔ میں نے کہا حساب کیسا میری طرف کوئی ایڈوانس نہیں بلکہ وعدہ کے باوجود مجھے ہسپتال میں پیسے نہیں بھجوائے گئے۔ ایک اہلیہ نے قرض لیا اور دوسری نے ہنگامی طور پر ایک پلاٹ فروخت کیا جو مجبوری میں اصل قیمت سے کم پر فروخت ہوا۔ لمبی بحث کےبعد سمجھ میں آگیا کہ میں ا گلی صبح کے ایڈیٹر سے بات کررہا ہوں۔
سامان سمیٹا کتابیں اٹھائیں اور دفتر سے روانہ ہو۔ اس حال میں کہ ایک دو ساتھی نیچے تک چھوڑنے آئے جن سے برسوں سے دوستی تھی وہ اشاروں سے ساتھیوں کو میرے ہمراہ نیچے تک جانے سے منع کرتے رہے۔ لاشاری اور اعجاز خاور ایک دو دن میں کیا کبھی بھی حساب کرنے کے لئے نہیں آئے۔
فون کرنے پر جواب نہ ملتا تنگ آکر اسے قانونی نوٹس بھجوادیا۔ مجھے عمر علی خان بلوچ کا ٹیلیفون آیا کہنے لگے قانونی کارروائی نہ کروں مسئلہ حل ہوجائے گا لیکن الحمدللہ مسئلہ حل نہ ہوا۔
البتہ پیچھے دفتر رہ جانے والوں کی موجیں لگ گئیں اب بند کمرے کی محفلیں کھلم کھلا ہونے لگیں پھر ایک دوست نے بتایا کہ اعجاز خاور کی ایڈیٹری بھی گئی اور تنخواہیں بھی۔ کچھ عرصہ بعد سنا کہ بلڈنگ کے مالک نے لاشاری کو نوٹس بھجوادیا ہے کہ ہال اخبار نکالنے کے لئے کرائے پر لیا گیا تھا لیکن مجرے شروع کرادیئے گئے ہیں اس لئے ہال خالی کردیا جائے۔
روزنامہ ’’خلقت انٹرنیشنل‘‘ کے کارکنان کے واجبات ڈوب گئے۔ بلڈنگ کے مالک نے تو دفتری سامان پر قبضہ کرکے کچھ وصولی کرلی البتہ دوستوں کی پشت پر وار کرنے والے بھی شہر میں خوب خوار ہوئے۔ (جاری ہے)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر