اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہمیں بہت کچھ ڈیلیٹ کرنا سیکھنا پڑے گا۔۔۔||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں نہ صرف فرد، بلکہ بطور سماج اور قوم بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے اپ ڈیٹ کورس کی شدید ضرورت ہے جودنیا کے بہت سے مہذب ممالک میں رائج ہے ، مگر ہم اس سے کوسوں دور ہیں۔ ابھی اوپر جو لکھا، اس کی بہت سی جہتیں ، سطحیں اور پرتیں ہیں۔زندگی کے کئی شعبوں میں اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ میں صرف دو تین حوالوں سے بات کروں گا۔ ہمیں ابھی تک پتہ ہی نہیں چلا کہ دنیا بھر میں شائستگی اور طرزکلام کے حوالے سے بعض باتیں متروک (آئوٹ آف ڈیٹ)ہوچکی ہیں، اب انہیں کہنا غیر شائستگی بلکہ ایک لحاظ سے جرم سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی کی نسل ، قومیت، رنگ ، جسامت ، حلیہ کے حوالے سے کوئی منفی جملہ خواہ مزاح کے انداز میں کہا گیا ہو، اب وہ انسانی شعور اور تہذیب کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ ہم اس سب سے ابھی بے خبر ہیں۔ ہمارے سٹیج ڈرامے دیکھ لیں، اس میں بیشتر جگتیں پھکڑ پن کے علاوہ نسل پرستانہ، مختلف کمیونیٹیز کی تذلیل اور باڈی شیمنگ پر مبنی ہیں۔ ان بے چاروں کو کسی نے سمجھایا ہی نہیں کہ یہ سب پچیس تیس سال پہلے تک چل جاتا تھا، اب دنیا ان سب سے اوپر اٹھ گئی ہے۔ اپنی جگتوں میں آپ لوگ بھی کچھ تخلیقت اور شائستگی لے آئو۔ یہ لوگ ابھی تک انہی فضولیات اور ایک دوسرے کی ماں بہن کا مذاق اڑا کر لوگوں کو ہنسانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ جدید رجحانات اور آگہی کے پیش نظر دنیا بھر میں بہت سی اصطلاحات تبدیل کی جا چکی ہیں کہ ان سے نسل پرستی (Racism)کی بو آتی ہے۔ کرکٹ ہی کو دیکھ لیں، اس میں ایک دلچسپ اصطلاح چائنا مین گیند کی تھی۔ لیفٹ آرم سپنر روایتی طور پر لیگ بریک بائولنگ ہی کراتے تھے کیونکہ وہ عموماً فنگر سپنر ہوتے ۔ ایک آدھ کھبا سپنر ایسا آجاتا جو کسی طرح لیگ بریک کے ساتھ آف بریک گیند بھی کرا لیتا۔ یہ ایک عجیب وغریب اور بہت مختلف بات تھی۔ اس عجوبہ گیند کو چائنامین کا نام دیا گیا تھا۔ جس طرح رائیٹ آف لیگ سپنر جب آف بریک کراتا تو اسے گگلی کہتے ۔ اب باقاعدہ طور پر چائنامین کی اصطلاح ترک کی جا چکی ہے کہ اس میں چینی آبادی کے لئے طنز کا خفی پہلو موجود تھا۔ اب چائنامین گیند کو رانگ آن (Wrong-on)کہا جا تا ہے ، گگلی کے لئے بھی اب کمنٹیٹر یہی اصطلاح برتتے ہیں۔ آسٹریلین نے ایسا کرنا شروع کیا اور اب ہر جگہ یہی کہا جاتا ہے۔ چند سال پہلے آسٹریلین کھلاڑی اینڈریو سائمنڈ کو بھارتی سپنر ہربھجن سنگھ نے کچھ ایسا کہہ دیا جو سننے میں منکی یعنی بندر لگا۔ سائمنڈ اور آسٹریلین ٹیم نے اس پر باقاعدہ شکایت کر دی، ہربھجن بڑی مشکل میں پڑ گیا۔ اتفاق سے سچن ٹنڈولکر بھی وہاں قریب فیلڈنگ کر رہا تھا، ٹنڈولکر نے ہربھجن کے حق میں گواہی دی تب میچ ریفری نے ہربھجن کو سخت سزا نہیں دی۔اگر ثابت ہوجاتا تو جرمانہ اور پابندی لگ جاتی۔ پاکستان کے سرفراز احمد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، مگر وہ بچ نہ سکے۔ جنوبی افریقہ کے ساتھ میچ میں ان کا ایک کھلاڑی بیٹنگ کرتے ہوئے بار بچ جاتا اور آئوٹ نہیں ہو رہا تھا۔ سرفراز نے مذاق میں اونچی آواز میں کہا ،’’ او کالیے تو آج اپنی امی سے کیا پڑھوا کر آیا ہے۔‘‘ ظاہر ہے یہ بات سرفراز نے اس کھلاڑی کی تذلیل کے لئے نہیں کہی تھی کہ اسے تو اردو سمجھ ہی نہیں آتی، بس شوخی میں یہ جملہ کہہ ڈالا۔ سٹمپس میں لگے مائیک کی وجہ سے یہ جملہ سپورٹس چینلز پر نشر ہوگیا۔ رمیز راجہ تب کمنٹری کر رہے تھے، ان سے ساتھی کمنٹیٹر نے ترجمہ کرنے کا کہا تو رمیز راجہ ٹال گئے۔ بات مگر پھیل گئی، کئی پاکستانی سابق کرکٹرز نے ایسا کہنے پر سرفراز پر تنقید بھی کی۔ سرفراز نے معذرت کا بیان جاری کر دیا، مگر آئی سی سی نے سخت نوٹس لیا اور کئی میچز کی پابندی لگ گئی ۔ ابھی حال ہی میں انگلینڈ کی یارک شائر کائونٹی میں ایک جنوبی ایشیائی نژاد کرکٹر نے الزام لگایا کہ جب وہ کائونٹی کی ٹیم میں کھیل رہا تھا تو ٹیم مینجمنٹ، سینئر کھلاڑی اس کا مذاق اڑاتے اور ایشین ہونے پر تضحیک کرتے۔ بات اتنی بڑھی کہ باقاعدہ انکوائری کرائی گئی، کائونٹی کے اعلیٰ ذمہ داران کو استعفے دینے پڑے اور انگلش کائونٹی بورڈ نے لاکھوں پائونڈ کا جرمانہ بھی یارک شائر کائونٹی پر عائد کر دیا۔ یہ نئے سٹینڈرڈز ہیں۔ جو فضولیات، بے احتیاطی ماضی میں ہوتی رہی، اب ان سب سے گریز کیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں راشد لطیف کا ویڈیو بلاگ سن رہا تھا، وہ ڈاکٹر نعمان نیاز کے ساتھ مل کر پروگرام کرتے ہیں۔ نعمان نیاز نے روٹین میں لفظ ’’گورے‘‘ استعمال کیا، جیسا کہ ہمارے ہاں انگریزوں کے لئے عام طور سے کہا جاتا ہے۔راشد لطیف نے انہیں فوری ٹوکا اور کہا کہ ایسا نہ کہیں ، یہ لفظ اب نسل پرستی (ریسزم ) میں آجاتا ہے۔ ہمارے پرانے کامیڈی پروگراموں میں جی بھر کر مختلف قوموں کے لہجے کا مذاق اڑایا جاتا رہا ہے۔ پی ٹی وی پر بھی بہت بار ایسا ہوا۔ میں نے بے شمار بار دیکھا کہ پختون لہجے ، سندھی لہجے کا مذاق اڑایا جاتا ، کبھی پنجابی لہجے پر بھی طنز کیا جاتا۔یہ سب فضول اور زیادتی کے مترادف تھا۔ ہر علاقے، قوم کے لوگوں کا مخصوص لہجہ ہوتا ہے، ایسا ہونے میں ان کا کوئی قصور نہیں اور نہ ہی یہ ان کی نااہلی ہے۔ اگر سندھی ، پختون، سرائیکی ، پوٹھوہاری یا بلوچ خطے کا کوئی شخص اپنے مخصوص تلفظ اور لہجے کے ساتھ اردو بولنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اس کی خوبی اور کمال ہے ، اس بنیاد پر اس کا مذاق کیسے اڑایا جا سکتا ہے؟ پشتو کی تذکیر وتانیٹ(مذکر مونث)اردو سے بہت مختلف ہے۔ اسی وجہ سے پٹھان اردو بولتے ہوئے مذکر مونث میں گڑبڑ کر جاتے ہیں، اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ پہلے اس لفظ کو پشتو میں سوچتے اور پھر اردو میں ترجمہ کرتے ہیں۔ فطری طور پر پشتو مذکر مونث الفاظ کو وہ اردو جامہ پہناتے ہوئے غلطی کر جائیں گے۔ جیسے گوبھی اردو میں مونث ہے، پکتی ہے، پشتو میں گوبھی مذکر ہے، وہاں گوبھی پکتا ہے۔ پشتونوں کی اردو کا مذاق اڑانے کے بجائے اس تناظر میں ان کی بات کو سمجھیں۔اسی طرح دیگر قوموں کا معاملہ بھی ہے۔اگر دلی ، لکھنو سے تعلق رکھنے والے کسی اردو سپیکنگ شخص کو خالص پنجابی لہجے کا لفظ بولنے کا کہا جائے یا پشتو، سرائیکی، سندھی ، بلوچی زبان کا کوئی ایسا لفظ تو ظاہر ہے وہ نہیں بول سکے گا۔ لہجوں کی بنیاد پر کسی کا مذاق اڑانا بھی پرانا اور متروک فیشن ہوگیا ہے۔ رنگ، نسل ، جسامت اور فطری مسئلے (بھینگے پن، نابینا ہونایا کسی بھی قسم کی معذروی )کی بنا پر مذاق اڑانا تو نہ صرف ناقابل برداشت بلکہ قابل جرم بھی ہوچکا۔ ہمارے ہاں جزوی معذور(لنگڑے، ٹنڈے)لوگوں کا جی بھر کر مذاق اڑایا جاتا ہے بلکہ نام نہاد فوک وزڈم کے کئی محاورے بھی موجود ہیںجسے فخریہ بیان کر دیا جاتا ہے جیسے لنگڑے کی ایک رگ ایکسٹرا (وادھو)ہے وغیرہ۔ یہ سب افسوسناک اور شرمناک ہے۔ اس کالم اور ان تمام باتوں کا پس منظر دو واقعات بنے ہیں۔ پہلا عبدالرزاق کا بھارتی اداکارہ ایشوریہ رائے کے حوالے سے ایک نہایت نامناسب جملہ کہنا۔ عبدالرزاق نے اس پر معذرت کر لی، مگر جو نقصان ہونا تھا ، وہ ہوچکا۔ دوسرا واقعہ سابق کرکٹر اورکمنٹیٹر رمیز راجہ کے حوالے سے ہے۔ ایک کامیڈی شو میں وہ موجود تھے، ان کے قریب بیٹھی ایک فنکارہ نے عامیانہ سا لطیفہ سنایا جس میں ویوین رچرڈاور بھارتی اداکارہ نینا گپتا کا ذکر کرتے ہوئے ایک نسل پرستانہ جملہ کہا گیا۔ رمیز راجہ بے اختیار ہنس پڑے اور تالیاں بجانے لگے۔ یہ کلپ وائرل ہوا تو ویوین رچرڈکی بیٹی مسابہ جو معروف بھارتی فیشن ڈیزائنر ہے، اس نے ٹوئٹر ایکس پر اپنے ٹوئٹس میں رمیز راجہ کی خوب خبر لی اور کہا کہ جس بات پر آپ ہنسے، دنیا تیس سال پہلے ایسی باتوں پر ہنسنا چھوڑ چکی ہے۔ رمیز راجہ کو محاورے کے مطابق سوشل میڈیا پربے بھائو کی پڑیں ۔ان سے کوئی جواب نہیں بن پایا۔ بات دراصل وہی ہے کہ ہمیں بطور قوم اور سماج بہت کچھ سمجھنے، سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ابھی تک پتہ ہی نہیں چلا کہ دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی، انسانی شعور جہاں غلامی اور اسطرح کی دیگر قبیح رسمیں ترک کر چکا ہے، اب وہاں نسل پرستانہ جملوں، گھٹیا ذاتی حملوں، باڈی شیمنگ، ذات برادری کی توہین وغیرہ کی بھی گنجائش نہیں رہی۔ افسوس کہ ہمارے اساتذہ کو سب سے زیادہ یہ سب سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بچے کی ان حوالوں سے جس قدر تذلیل سکول میں ہوتی ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہم بچپن سے ، اپنے گھروں، تعلیمی اداروں ، گلی محلے ، دفاتر اور زندگی کے ہر شعبے میں یہ غلط چیزیں سیکھتے اور اپنا جز بنا لیتے ہیں۔ ان سے الگ ہونے ، ان منفی چیزوں کو ڈیلیٹ کرنے میں ہمیں خاصی محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے مگر یہ احساس تو دلایا جانا چاہیے کہ ہم کیا کیا غلط کر رہے ہیں؟آغاز یہیں سے ہوگا۔

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: