اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محبت کی زبان کیا ہے؟!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چرند ، پرند ، انسان سب کی اپنی اپنی زبانیں ہیں، محبت کی زبان کیا ہے؟ محبت کی زبان مشترکہ ہے۔ کہتے ہیں کہ ہنر مند ، کاریگر اور فنکار نہیں بولتا ، اس کا فن بولتا ہے ۔ اس کے باوجود ہنر مندوں کاریگروں اور فنکاروں کی اپنی ایک زبان ہے۔ عظیم ماہر لسانیات پروفیسر شوکت مغل نے زبان پر کام کیا اور ان ہنر مندوں کی زبان کو بھی محفوظ کیا جو پیشے ہی معدوم ہو گئے۔ پروفیسر شوکت مغل کا لسانیات پر تحقیقی کام ابھی جاری تھا کہ بے رحم موت نے مہلت نہ دی ، اب ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کے تشنہ کام کو کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ میرے سامنے ان کی کتاب اصطلاحات پیشہ وران ہے۔ اس میں دو سو سے زائد دستکاروں ،پیشہ وروں اور ہنر مندوں کے اصطلاحی الفاظ سرائیکی زبان میں اردو ترجمے کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں۔ 992 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایک بہت بڑا علمی خزانہ ہے ۔ اس میں 200 پیشہ جات کے ساتھ ساتھ تقریباً سات سو کے قریب سب یا ضمنی پیشہ جات کا ذکر موجود ہے اور یہ کام ابھی آگے جاری تھا ۔ خصوصاً سات جلدوں پر مشتمل جامع سرائیکی لغت ،یہ کام شاید انفرادی طور پر نہ ہو سکے، نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کو اس کام کی تکمیل کیلئے خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ وسیب کا مرکزی شہر ملتان صدیوں سے ہنر مندوں کا گہوارا چلا آ رہا ہے ۔ پروفیسر شوکت مغل نے لکھا کہ ہندوستان کے تاج محل کی تعمیر میں ملتان کے کاریگروں نے اپنی ہنر کے جوہر دکھائے تو ہندی زبان میں کہاوت شامل ہوئی ’’ آگرہ اگر، دلی مگر ، ملتان سب کا پِدر ‘‘ مگر افسوس کہ ان ہنر مندوں کو احترام دینے کی بجائے جاہل جاگیرداروں نے ان کو کمی و کسبی کا نام دے دیا۔ حالانکہ ’’ کمی کسبی‘‘ نہ کوئی ذات ہے نہ قومیت ،،کام کرنے والا کمی ہے اور کسب کرنیوالا یعنی ہنر مند کسبی ہے ،دونوں قابل احترام اور لائق صد تعظیم ہیں البتہ جس کی سوچ میں کمی ہو گی وہ دوسروں کو کمی سمجھے گا ۔ کام کرنیوالے ہنر مندوں کو کمی کہنے کا مرض عموماً جاگیرداروںخصوصاً حملہ آور اور ان کی اولادوں میں زیادہ ہوتا ہے، اوروہ جہالتیں بکھیرتے رہتے ہیں یہ تو ان کی بات ہوئی، لیکن کوئی پڑھا لکھا، دانشور، صاحب بصیرت ، سیاستدان یا کالم نویس کسی انسان کو اس کی غربت یا اس کے پیشے کے اعتبار سے کمی کہہ کر پکارے تو صرف افسوس ہی نہیںصدمہ ہوتا ہے ۔ بد قسمتی سے ذات پات کا تصور پوری دنیا میں ہے۔ سرکارؐ کی تشریف آوری کے وقت عرب میں چند قبیلے مثلاً بنو امیہ ، بنو ہاشم ، بنو قریش ، بنو اسد ، بنو حمج ، بنو نول ،بنو تمیم ، بنو عبدار ، بنو عدی اور بنو مخذوم وغیرہ اپنی عدی طاقت کے بل بوتے احساس تفاخر میں مبتلا تھے، باقی کیلئے یہ تھا کہ وہ اپنی قومیت بدل کر کسی طاقتور قبیلے کا حصہ بنیں یا پھر کمی اور شودر بن کر رہیں ۔ سرکار دو عالمؐ نے اس روش کو سخت نا پسند فرمایا اور عظمت کا معیار کردار کو قرار دیا ۔ آپؐ نے عرب معاشرت میں حقیر کہلانے والے بلال حبشی ؓ کو عظمت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ ہمارے دوست عبد الشہزاد بہاولپوری نے اس موضوع پر اپنی تحقیقات میں درست لکھا ہے کہ کوئی بھی مذہب انسان کو پیشے کے اعتبار سے کمی نہیںبناتا ، انہوں نے بجا لکھا کہ اردو لغات میں میراثی کے معانی جابجا غلط لکھے ہوئے ہیں ۔ حالانکہ میراثی کا لفظ میراث سے ماخوذ ہے ۔ وسیب میں ایک لفظ ’’ ڈاڈے حال ‘‘ بولا جاتا ہے ، یہ ’’ ڈاڈے حال ‘‘ شجرہ نسب پڑھنے والے اور میراث کا علم رکھنے والے لوگ ہیں ۔ ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ ہمیں تیسرے دادے کے نام اور اس کی قبر کے نشان کا علم نہیں جبکہ ’’ ڈاڈے حال ‘‘ کو کم از کم سات پشتوں کا علم ہوتا تھا اور ’’ ڈاڈے حال ‘‘ تسلیم ہی اُسے کیا جاتا تھا جو کم از کم سات پشتوں کا علم رکھے ۔ ڈاڈے حال کو اردو میں میراثی کہا جاتا ہے مگر معاشرتی جبر نے میراثی کو کمی بنا دیا ۔پہلے وقتوں میں میراث اور وراثتوں کے معاملات میں میراثی یا ’’ ڈاڈے حال ‘‘ کی گواہی کو معتبر سمجھا جاتا تھا۔ رشتہ داری کے معاملات میں بھی ان کی ملائی گئی کڑیوں کو اہمیت حاصل تھی۔ 1865 ء کی ایک تحریر Settlement Report میں لکھا ہے کہ میراثی ذات نہیں بلکہ شجرہ انساب رکھنے والے لوگ ہیں ، جائیداد کے معاملات میں بطور گواہ پیش ہوتے ہیں، خود بے زمین ہو کر دوسروں کی زمینوں کا تحفظ کرتے ہیں ،گھر میں صبح شام غربت کا ماتم ہو تب بھی دوسروں کی ہر خوشی میں رنگ بکھیرتے ہیں۔ یہ دُرست ہے کہ اپنے نام کے آگے پیچھے لمبے چوڑے القابات لکھنا تو علمی اعتبار سے غلط ہو سکتا ہے لیکن رزق حلال کیلئے پیشے مثلاً پولی ، موچی ، حجام، مداری ،بھانڈ ، ڈوم ، جوگی ، ناتھ ، بہروپئے ، کھتری ، کمہار ، ترکھان ، دھوبی ، تیلی ، بھنگی ، کٹانہ ، چوڑھا، لوہار ، سنارا ، درزی ، قصائی، کیہل شیخ ، خوجہ ، میراثی وغیرہ قطعی طور پر غلط نہیں ، یہ نسبتیں ہیں بالکل اس طرح جیسا کہ برہمن ، مہابرہمن ، قاضی، مولوی ، چشتی ، صابری ، اویسی ، نقشبندی ، سہروردی ، قادری ،گیلانی ، بخاری ،علوی ،حسنی ، حسینی ، شیخ ، انصاری ، پیر ، پیرزادہ وغیرہ بھی ذاتیں نہیں بلکہ مذہبی نسبتیں ہیں ،لیکن نسبت میں بھی اعلیٰ ادنیٰ کا پیمانہ ذاتی عمل ہے، مہاتما گاندھی نے کمی کے حوالے سے کہا تھا کہ عملی طور پر ایک خاکروب کا بادشاہ سے مرتبہ اس لئے زیادہ ہے کہ بادشاہ گندگی پھیلاتا ہے اورخاکروب صاف کرتا ہے ۔ انسان کو اپنی سوچ بدلنا انسان کو انسان جاننا ہوگا، انسان کی بڑائی کا معیار اس کے علم ، ہنر اور کردار کے طور پر ماننا ہوگا ۔ ابوجہل بھی ان پڑھ نہ تھا ، فرعون اور قارون کے پاس دولت کی کمی نہ تھی ، کوئی بھی شخص اپنے مال و زر ، عہدے ، مرتبے ، بنگلوں اور اراضیات یا مربع جات سے بڑا نہیں ہوتا بلکہ انسان اپنی سوچ سے بڑا ہوتا ہے ۔ ہنر مند، پیشہ ور اور فن کار کمی نہیں بلکہ کمی وہ ہے جس کی سوچ میں کمی ہے ۔ انسانیت کے لئے سرکارؐ کے پیغام کو عام کرنا ہوگا اور جہالت کے بت پاش پاش کرنا ہونگے ورنہ دنیا میں آسودگی نہیں آ سکے گی ۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: