اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نواز، زرداری کیلئے بلوچستان کیوں اہم ہے ؟||شاہد رند

بلوچ پشتون قوم پرست جماعتیں اس الیکشن میں اپنی وجود کے بقاء کی جنگ لڑتی نظر آرہی ہیں ایسے صورتحال میں نیشنل پارٹی بی این پی مینگل پی کے میپ یا اے این پی اگر پانچ سے زائد نشستیں فی جماعت لیتیں ہیں تو یہ انکی بڑی کامیابی تصور ہوگی۔

شاہدرند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں انتخابات آٹھ فروری کوہونگے یا نہیں یہ بحث ابھی اسلام آباد میں جاری ہے۔ ہر گزرتے دن اور رات میں چائے کے ڈھابوں کی نئی شکل کافی شاپس میں میرے جیسے چند افراد اس مباحثے میں مصروف ہیں جسکا واضح نتیجہ کسی کے پاس نہیں ہے تاہم چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی واضح ہدایت پر راقم اپنی معلومات تحریر کرنے سے قاصر ہے لیکن رواں ہفتے الیکشن کمیشن اگر چند گزارشات لیکر سپریم کورٹ جانے کی تیاری میں ہے۔ اب انتخابات جب کبھی بھی ہوں الیکشن شیدول کے اعلان سے قبل انتخابی میدان سج چکا ہے اسلام آباد میں ہر زبان پر یہ بات موجود خوشی سے یا غصے سے موجود ہے کہ ن لیگ مرکز میں حکومت بنارہی ہے کیا یہ بات درست ہے اس پر رائے زنی سے پہلے اس بار کی وکٹری اسٹینڈ پر بظاہر جاتی ن لیگ نے سب صوبوں کو چھوڑ کر پہلی چڑھائی بلوچستان میں کی۔ میاں محمد نواز شریف اکیس اکتوبرکی آمد کے بعد جاتی امراء سے نکلے تو پہلی سیاسی پیش قدمی بلوچستان میں کی۔ سب نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ کیا بلوچستان کی سولہ یا سترہ قومی اسمبلی کی نشستیں اتنی اہم ہوگئی ہیں کہ میاں صاحب تخت لاہو،ر وادی مہران اور خیبر کو چھوڑ کر بولان اور کوہ سلیمان کے پہاڑوں کے اوپر سے اڑتے ہوئے کوئٹہ پہنچے ہیں۔ معاملہ قومی اسمبلی کی نشستوں کا نہیں پاکستان کی معیشت کا بیل آئوٹ پیکج اس وقت بلوچستان ہے اور حکومت بنانے کے فوری بعد میاں نواز شریف اور انکی جماعت کا پہلا چیلنج ہی معیشت کی بہتری ہوگا تو ایسے میں بلوچستان میں اپنا وزیر اعلٰی ہونا ناگزیر ہے۔ جعفر مندوخیل ن لیگ بلوچستان کے صدر ضرور ہیں لیکن کیا وہ ن لیگ کیلئے یہ معرکہ سر کرسکتے تھے کہ بلوچستان میں ن لیگ کا وزیر اعلٰی لیکر آئیں تو جواب میں نفی میں تھا میاں صاحب کے بنیادی اتحادی بلوچ اور پشتون قوم پرست ڈاکٹر عبدالمالک اور محمود خان اچکزئی کی جماعتیں اس وقت اس پوزیشن میں نہیں کہ دو ہزار تیرہ کا احسان اتار سکیں تو ایسے میں بھلا ہو بی اے پی کا جو اندرونی انتشار سے دو چار تھی۔ یہاں چار اراکین کی پہلی نقب مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری نے لگائی اور ظہور بلیدی ،عارف محمد حسنی ،سلیم کھوسہ و دیگر کو اپنا ہمنوا بنالیا یہاں تک کہ معاملہ جام کمال تک پہنچ چکا تھا تاہم چند ناگزیر وجوحات نے جام کمال کو پیش قدمی سے روکا۔اس میں میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے پیپلزپارٹی کی ابتدائی کامیابی کے بعد جس حکمت عملی پر کام شروع کیا اس میں پہلی ملاقات جام کمال کے گروپ سے ہوئی اور جیسے ہی یہ ظاہر ہوا کہ جام کمال اور ن میں قربتیں بڑھی رہی ہیں تو کچھ انکی محبت میں اور کچھ انکے خلاف ن لیگ کی جانب دوڑ پڑے، نہ کوئی بندہ رہانہ بندہ نواز۔ اور پھر چشم فلک نے دیکھا میاں محمد نواز شریف کیمروں اور مقامی میڈیا کو جھل دیکر کر بی اے پی سمیت دیگر جماعتوں کے دس سے زائد الیکٹیبلز اور دیگر تیس افراد کو ن لیگ میں شامل کرچکے تھے جن میں سابق وزیر اعلی بلوچستان جام کمال نواب جنگیز مری قابل زکر تھے اگر نگراں حکومت کے معاملات آڑے نہ ہوتے تو موجودہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی بھی ن لیگ کی صفوں میں شامل ہوچکے ہوتے اس شمولیت کے بعد میاں نواز شریف نے بلوچستان میں اتحادیوں سے ملنا تھا تاہم اتحادیوں کو علیحدہ ملنے کے بجائے ایک مشترکہ ملاقات سے میاں نواز شریف نے راقم کے ایک تاثر کو غلط ثابت کیا کہ اب بھی میاں نواز شریف ڈاکٹر مالک کیلئے بڑا نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اب میر حاصل خان بزنجو مرحوم کے نہ ہونے کا نقصان کہیں یا میاں صاحب کی مستقبل کی پیش بندی بظاہر نیشنل پارٹی یا پی کے میپ اپنی کارکردگی پر جب اسمبلی کی ایوانوں میں پہنچیں گی تو پھر ممکنہ اتحادی ضرور ہونگی لیکن کیا دو ہزار تیرہ کا معاملہ دوبارہ دہرایا جائیگا اس پر ابھی رائے زنی کرنا قبل از وقت ہے لیکن اکیس اکتوبر کے بعد جیسا پروٹوکول میاں نواز شریف کو ملا وہاں انکے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی رائے عامہ ہموار ہوئی ،وہیں اتنی اہم شمولیتوں نے بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت بننے کا ایک تا ثرقائم کردیا ۔اب اس حکومت کی سربراہی کس کے پاس ہوگی اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل اس رد عمل کو دیکھنا ضروری ہے جو پاکستان پیپلزپارٹی نے ان شمولیتوں کے بعد دیا ۔پیپلزپارٹی پر پچھلے چند دنوں میں بلوچستان سے دو آفتیں ٹوٹیں ایک سیاسی آفت ن لیگ کو ملنے والے الیکٹیبلز تھے تو دوسری آفت مفاہمت کے بادشاہ کے ایک کاروباری فرنٹ مین کو قدوس بزنجو دور میں ملنے والی چاغی کی ایک اہم مائن کی لیز کی منسوخی تھی جسکے بعد آصف زرداری نے بلوچستان میں سیاسی اکھاڑہ لگانے کیلئے تیس نومبر کو پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس کا جلسہ کوئٹہ میں کرنے اور بلاول بھٹو زرداری کے جلسے میں شریک ہونے کا اعلان کردیا ۔چند روز قبل ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو کے بعد پیدا صورتحال میں اب آصف علی زرداری خود بھی ڈیمیج کنٹرول کرنے کوئٹہ پہنچنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مفاہمت کے بادشاہ نے تاش کے پتوں کی طرح ایک ایسا سیاسی کھیل سجانے کی تیاری کی ہے یا تو بلوچستان میں حکومت انکے بغیر نہیں بنے گی اور اگر بن گئی تو پیپلزپارٹی مضبوط اپوزیشن کے طور پر ن لیگ اور اتحادیوں کیلئے درد سر بنے رہے گی ان دو بڑی جماعتوں کے درمیان جے یو آئی ف بلوچستان میں بڑی مستحکم پوزیشن میں ہے اور اسکی دس سے گیارہ صوبائی اسمبلی کی نشستیں اس سے ایک کم یا ایک زیادہ تیار موجود ہیں بلکہ اس بار پشتون علاقوں کیساتھ بلوچ علاقوں میں بھی جے یو آئی اچھے نتائج دے سکتی ہے۔ بلوچ پشتون قوم پرست جماعتیں اس الیکشن میں اپنی وجود کے بقاء کی جنگ لڑتی نظر آرہی ہیں ایسے صورتحال میں نیشنل پارٹی بی این پی مینگل پی کے میپ یا اے این پی اگر پانچ سے زائد نشستیں فی جماعت لیتیں ہیں تو یہ انکی بڑی کامیابی تصور ہوگی۔(جاری ہے)

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے:

بلوچستان عدم اعتماد کی کہانی۔۔۔شاہد رند

گوادر کی ریت یا سونا اور بلوچی قول۔۔۔شاہد رند

پنوں کی سرزمین اور پانچ کلو میٹر کا ویژن۔۔۔شاہد رند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ 92 نیوز

%d bloggers like this: