مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ارشاد امین۔ تیں بِن سُنج ویڑھے یار فرید وو|| راناابرارخالد

رانا ابرار سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے سینئیر صحافی ہیں ، وہ گزشتہ کئی برس سے وفاقی دارالحکومت اسلام آبادمیں مقیم ہیں اور مختلف اشاعتی اداروں سے وابستہ رہے ہیں، اکانومی کی بیٹ کور کرتے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رانا ابرار خالد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

22 ستمبر 2023 کو اچانک ارشاد امین کا فون آیا کہ پیر کے روز اسلام آباد وارد ہونے والے ہیں انتظام کر کے رکھنا، مجھے اچانک راحت اندوری مرحوم کا وہ شعر یاد آ گیا۔

گلاب، خواب، دوا، زہر، جام کیا کیا ہے
میں آ گیا ہوں بتا انتظام کیا کیا ہے

تیس سال پہلے کی بات ہوگی کہ چند دوستوں کے ہمراہ ’سالانہ دو روزہ خواجہ غلام فرید ادبی، ثقافتی سرائیکی میلہ‘ مہرے والا شرکت کے لئے گیا تو پھوپھی زاد رانا محمد اسلم نے واپسی پر فون کر کے پوچھا کہ اس مرتبہ میلہ کیسا رہا۔ رانا اسلم بلوچستان پولیس میں ملازمت کرتے تھے، ہر سال چھٹی لے کر آتے اور ہم اکٹھے ’سالانہ دو روزہ خواجہ غلام فرید ادبی، ثقافتی سرائیکی میلہ‘ میں شرکت کے لئے مہرے والا جایا کرتے تھے اور دو ہفتے بعد ڈیرہ غازی خان کی پتھر بازار میں جاکر میلے کی کیسٹیں بنوا کر لاتے تھے، مگر اس مرتبہ رانا اسلم کو چھٹی نہ مل پائی تھی۔ میلے کا حال تو آپ کو معلوم ہے کہ مخمور قلندری کی زبان میں ہی بیان کیا جاسکتا ہے۔

سئیں شاہ عیسیٰ دی نگری ہے
میڈے مرشد پاک دا میلہ ہے
سئیں کیول رام دا میلہ ہے
کہیں کافر کوٹ دا میلہ ہے
کوئی میلہ ہے
اساں من دی تریہہ مِسماوݨ لیوں
آئے ہاسے سئیں دے درشن تے
ساڈے درشن تھئے
اکھ تریہہ وسمائی
روح تازی تھئی
کوئی میلہ ہے

میلے کا حال مکمل ہوا تو رانا اسلم نے پوچھا، ایک بات بتاؤ کہ وہ مونچھوں والا بندہ میلے میں آیا تھا اور ملاقات ہوئی تھی؟ میں نے کہا، ہاں وہ میلے میں تو تھا لیکن میری کوئی ذاتی ملاقات نہیں ہو سکی۔ رانا محمد اسلم کی مونچھوں والے جوان سے مراد ارشاد امین تھے۔ یہ بات صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے مرشد ارشاد امین کو جوانی میں دیکھا ہو، ان سے ملے ہوں اور گفتگو کی ہو۔ کیونکہ صرف میرا کزن رانا اسلم ہی نہیں بلکہ کئی اور لوگ بھی ہر سال صرف ارشاد امین کو دیکھنے اور سننے کے لئے ’خواجہ غلام فرید ادبی، ثقافتی سرائیکی میلہ مہرے والا ‘ جایا کرتے تھے۔ حالانکہ ارشاد امین سٹیج پر نہ تو کوئی تقریر نہیں کرتے اور نہ ہی وہ شاعر تھے کہ اپنی شاعری سنا کر میلہ لوٹ لیتے، مگر وہ ساڑھے چھ فٹ کا گھنی مونچھوں والا بلند قامت، چوڑے سینے اور دمکتے چہرے والا آدمی بیس پچیس ہزار کے مجمعے میں بھی دور سے نمایاں ہوتا تھا۔ پھر جس طرح وہ منتظم سرائیکی میلہ عاشق بزدار کی وساخ پہ اپنی دانشورانہ باتوں کی بدولت محفل کی جان بنتا تھا اپنی مثال آپ ہے۔

مثال تو بننا ہی تھا کیونکہ سرائیکی قومی شاعر خواجہ غلام فرید کی جنم بھومی چاچڑاں شریف کا پندرہ سولہ سالہ بیروزگار نوجوان جو ہفت روزہ اور پندرہ روزہ ترقی پسند میگزینز میں شائع ہونے والے کالم و مضامین پڑھنے کا اس حد تک رسیا تھا کہ جب کراچی سے چاچڑاں شریف آنے والے یہ میگزین خریدنے کے لئے اس کی جیب جواب دینے لگی تو اس نے اپنا بُک سٹال لگا لیا۔ اسلام آباد کے اور نیٹ ہوٹل کے کمرے میں جہاں سرائیکی دانشور خادم حسین بھی براجمان تھے، ارشاد امین نے (ترنگ میں ) بتایا کہ ”چاچڑاں شریف میں صرف ایک ہی بک سٹال تھا اور اس کا مالک جماعت اسلامی والا تھا۔ لہٰذا اس کے بک سٹال پر کراچی سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اور پندرہ روزہ ترقی پسند میگزین تو آتے لیکن وہ ’ہم جیسوں‘ سے ادھار قطعاً نہیں کرتا تھا۔ بیروزگاری تھی، لہٰذا پیسے جمع کر کے ایک میگزین خریدتے اور ایک ہی رات میں پڑھ کر جب واپس کرنے جاتے تو بُک سٹال کا مالک اچانک بھڑک جاتا اور کافی منت ترلا کرنے کے بعد بُک سٹال کا مالک وہی میگزین آدھی قیمت میں خرید کر کسی اور کو پوری قیمت پر فروخت کر دیتا تھا“ ۔

بالآخر ارشاد امین نے ایک سال تک لٹنے کے بعد یہ حل نکالا کہ اپنے ایک رشتہ دار سے پیسے ادھار لے کر چاچڑاں شریف میں دوسرا بُک سٹال لگا لیا اور رعایتی قیمت پر اخبارات و ترقی پسند میگزین فروخت کرنے لگے۔ نتیجتاً جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے آدمی کا بُک سٹال ویران ہو گیا کیونکہ ارشاد امین نے اپنے بُک سٹال کے ساتھ ہی لکڑی کے دو بنچ بھی ڈال دیے، یوں شہر کے پڑھے لکھے لوگ علی الصبح اخبار پڑھنے کے لئے وہاں پہنچ جاتے اور چائے بھی چلتی رہتی۔ مگر اس پر ہی بس نہیں ہوئی، بلکہ چھ ماہ کے اندر ارشاد امین نے کراچی سے شائع ہونے والے ایک اخبار کی نمائندگی لے لی اور ساتھ ہی ترقی پسند میگزینز کو خطوط بھی لکھنے شروع کر دیے، جو ایڈیٹر کی ڈاک میں شائع ہوتے تھے۔ درحقیقت ارشاد امین کا یہ صحافت کی دنیا میں پہلا قدم تھا۔ اس کے بعد تو سلسلہ چل نکلا، ایک کے بعد دوسرے اخبار کی نمائندگی اور ترقی پسند رسائل میں ارشاد امین کے مضامین بھی شائع ہونے لگے تھے۔

ارشاد امین کراچی جاتے تو جبیس ہوٹل میں رہنا پسند کرتے اور انور سن رائے سے ملاقات ضرور کرتے تھے، یہ الگ بات کہ کراچی میں ان کی میزبانی برادرم شاہد جتوئی (سینئر صحافی، موجودہ انفارمیشن کمشنر، سندھ) اور سرائیکی عوامی سنگت کرتی تھی۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے (کراچی میں ) بی ڈی ایم اجلاس کے دوران راقم کو بھی ایک مرتبہ جبیس ہوٹل میں ارشاد امین کی محفل میں شرکت نصیب ہوئی، جہاں شاہد جتوئی حسب سابق اخبار کے لئے کالم لکھنے میں مگن رہے جبکہ ہم یعنی میں اور راشد عزیز بھٹہ، ارشاد امین کے علم و فضل سے فیضیاب ہوتے رہے۔ پی ایف یو جے کے سیکرٹری جنرل کے امیدوار (سینئر صحافی) ناصر زیدی بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کچھ دیر کے لئے تشریف لائے تاہم جلد ہی دیگر ڈیلیگیٹس سے ملنے چلے گئے، جبکہ آخر میں لہور کے صحافی دوست نواز طاہر نے اپنے مخصوص انداز میں مشہور پنجابی فوک ’جگا‘ سنایا۔

جگے ماریا لائلپور ڈاکہ
تے تاراں کھڑک گیاں۔ وے جگے آ

بلاشبہ ارشاد امین کی زندگی سعودی عرب، لہور اور سرائیکی وسیب میں گزارے گئے مختلف ادوار میں منقسم ہو گئی تھی، تاہم ارشاد امین کا ایک اہم کارنامہ ملتان سے سرائیکی زبان میں ’روزانہ سُجاک‘ کا اجرا تھا جو کمپیوٹر کمپوزنگ اور ڈیزائننگ کے ذریعے شائع ہونے والا پہلا سرائیکی روزنامہ تھا۔ گو یہ اخبار کچھ اپنوں کی مہم جویانہ طبیعت کی بدولت زیادہ عرصہ نل چل سکا، لیکن راقم کی صحافت کا آغاز اسی اخبار کے ذریعے ہی ہوا تھا۔

1994 میں ارشاد امین بطور خاص ’سالانہ دو روزہ خواجہ فرید سرائیکی ادبی، ثقافتی میلہ‘ میں شرکت کے لئے مہرے والا (ضلع راجن پور) پہنچے تھے جہاں انہوں نے ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں کمپیوٹر کمپوزنگ و ڈیزائننگ کے ساتھ ’روزانہ سجاک‘ نکالنے کا اعلان کیا اور راقم نے اسی وقت ٹھان لی تھی کہ اس اخبار کے لئے کام کرنا ہے۔ اس طرح میں راجن پور کے لئے روزانہ سُجاک کا ڈسٹرکٹ رپورٹر مقرر ہو گیا تھا۔ مگر یہ اخبار جیسا کہ میں نے بتایا کہ چند ماہ کے اندر کچھ اپنوں کی مہربانیوں کی بدولت شدید مالی مشکلات کا شکار ہو کر بند ہو گیا۔

ارشاد امین نے اس کے بعد لہور میں سرائیکی پبلیکیشنز کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا، جس نے اسمٰعیل احمدانی مرحوم کا صدارتی ایوارڈ یافتہ ناول ’چھولیاں‘ اور دیوان فرید شائع کیا۔ اس کے ساتھ ہی ارشاد امین ہفت روزہ ’ہم شہری‘ اور ایف ایم 103 کے ساتھ وابستہ ہو گئے جبکہ زندگی کے آخری سالوں میں سہ ماہی جریدہ ’پارت‘ شائع کرنا شروع کیا تھا۔ اگست 2023 میں راقم کا لہور جانا ہوا تو ارشاد امین نے بتایا کہ ’پارت‘ کا نیا شمارہ شائع کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہوں، ساتھ ہی پارت کے لئے مضمون لکھنے کی تاکید بھی کی۔

ارشاد امین جہاں ایک جید صحافی، کمٹڈ کامریڈ اور سرائیکی قوم پرست تھے وہیں ان کی پاکستان پیپلز پارٹی اور شہید ذوالفقار علی بھٹو سے محبت اپنی مثال آپ تھی۔ ہفت روزہ طلوعِ میں شائع ہونے والا ان کا سائیں جی ایم سید سے انٹرویو آج بھی صحافت کا ایسا شاہکار ہے جو مجھ جیسے صحافت کے طالبعلموں کے لئے مشعل راہ ہے۔ مگر یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (لہور) کے ہاسٹل کا واقعہ ارشاد امین کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں سرائیکی شعر و ادب کی محفل جاری تھی کہ اچانک جناب رسول بخش پلیجو تشریف لے آئے۔

معروف سرائیکی فوک سنگر موہن بھگت اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے کہ دوستوں نے فرمائش کی کہ موسیقی میں وقفہ کرتے ہیں اور پلیجو صاحب کی باتیں سنتے ہیں۔ یوں جناب رسول بخش پلیجو اپنے مخصوص انداز میں شروع ہوئے کہ اچانک انہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بھٹو خاندان کو گالی نکالی، پھر تو۔ ۔ ۔ گالی کا آنا تھا کہ ارشاد امین نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور پلیٹ اٹھا کر پلیجو صاحب کو دے ماری اور شدید غصے میں کھڑے ہو گئے، پلیٹ کے نمک پارے اور مونگ پھلی دانے کہیں گئے اور گلاس کہیں الٹے پڑے تھے۔ دوستوں نے بمشکل ارشاد امین کو روکا اور پلیجو صاحب کو بحفاظت نکال کے لے گئے۔ بعد میں ایک نجی محفل میں ارشاد امین نے راقم کے استفسار پر بتایا کہ ”میں پلیٹ اُکا کے ماری ہائی“

ارشاد امین نے فون پر بتایا کہ اسلام آباد میں ان کا قیام اکادمی ادبیات کے رائیٹرز ہاؤس میں ہو گا جبکہ شفقت اللہ (سینئر صحافی) اور اردو کے اعلیٰ پائے کے شاعر و صحافی خالد منصور بھی ہمراہ ہوں گے ۔ پیر کو ارشاد امین نے فون پر اسلام آباد پہنچنے کی اطلاع کی اور بندوبست کی تاکید بھی کی جبکہ سینئر صحافی وجاہت مسعود کی معروف نظم کا مصرعہ سنا کر تشکیک کا اظہار بھی کر دیا۔ (اج ساڈا ڈیوڈ چھٹی تے ہے ) ۔

شومئی قسمت کہ مجھے شدید نزلے نے گھیر رکھا تھا جبکہ چیسٹ انفیکشن بھی تھی۔ خدانخواستہ کہیں کرونا نہ چمٹ گیا ہو، اس لیے تین دن گھر پہ رہا تاہم فون پر ارشاد امین سے مکمل رابطہ رہا اور بندوبست بھی ہو گیا تھا۔ تیسرے دن ارشاد امین کا فون آیا کہ ہم ایک کار والے دوست کے ہمراہ لہور کے لئے روانہ ہو گئے ہیں اور اگلے مہینے دوبارہ آئیں گے، ابھی ہمارا اسلام آباد کا مشن مکمل نہیں ہوا۔ دو روز بعد سیکرٹری انفارمیشن/ایم ڈی پی ٹی وی ظہور احمد سے ملاقات ہوئی تو بتایا کہ ان کا مشن مکمل ہو گیا ہے۔ تقریباً ایک ماہ بعد فیسبک پر ارشاد امین کی فیسبک پر پوسٹ ”میڈے ملتان میکوں ول یاد کیتے، شئیت ڈھیرمُد اُتھائیں گزریساں“ ، دیکھ کے اطمینان ہو گیا کہ ان کی اسلام آباد یاترا سپھل ہو گئی۔ کیونکہ پی ٹی وی ملتان سے ان کے پروگرام کی منظوری ہو گئی تھی اور جلد ہی ارشاد امین اپنا پروگرام شروع کرنے والے تھے۔ مگر 5 نومبر 2023 کو سرائیکی رہنما اسمٰعیل ڈاہر ایڈووکیٹ کا فون آیا انہوں نے استفسار کیا کہ ارشاد امین صیب کے بارے میں افواہ چل رہی ہے کسی سے تصدیق کر کے بتائیں۔ میں نے فوراً ارشاد امین کے موبائل نمبر پہ کال کی تو سرائیکی دانشور منصور کریم سیال کے بیٹے نے اٹینڈ کی، جس پر دل بیٹھ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ نعش ہسپتال سے لہور روانگی کا انتظام کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی یادوں کا ایک دریا بہہ نکلا، ہر یاد گھوم پھر کے لہور جا کے رکتی، جہاں ارشاد امین کی بیوہ اور بیٹی ان کے جسد خاکی کے انتظار میں تھیں۔

نفسیات بھی عجیب چیز ہے، جب لہور جانا ہوتا تو درجنوں واقف کاروں اور صحافی ساتھیوں کے وہاں ہونے کے باوجود لاشعور میں ایک ہی بات ہوتی تھی کہ لہور پہنچیں گے تو ارشاد امین سے ملاقات ہوگی، پریس کلب کے پچھلے لان میں بیٹھیں گے۔ اب وہاں کون ہو گا، اب وہاں کون ہے، جس کو ملنے خاطر لہور جاؤں گا!

%d bloggers like this: