اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! پانچویں قسط!!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ناول میں پروفیسر سہیل قیوم کے گورنمنٹ کالج چھوڑ دینے کے بعد بھی اس سے بار بار ٹکراتا ہے اور ہر بار قیوم کو کسی نہ کسی گمراہ کن فلسفے اور تھیوری یا دوسرے الفاظ میں مصنفہ کے تھیسس کا کوئی نیا رخ متعارف کراتا ہے۔ کبھی حرام و حلال، کبھی پاگل پن کا جینیاتی عنصر، کبھی یوگا تنترا، اور کبھی پراسرار بابوں کے ڈیروں میں روحانیت کی تلاش۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوتھی عورت، روشن؛
راوی قیوم (یعنی مصنفہ) کی زبانی۔

 

”موتیا رنگت ہلکا زرد لباس پھیکے پھیکے ہونٹ اور بہت خوبصورت ہاتھ۔ پیلی موم کا بت، پلکیں رخساروں سے پیوست۔ سخت پردے میں پلی، ماموں زاد، چچا زاد، پھوپھی زاد بھائیوں سے بھی ملنے کی اجازت نہیں، آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتی“

اندرون شہر لاہور کی رہائشی، معمولی تعلیم۔ لیکن محلے کے لڑکے پر مر مٹی، گھر والوں اور بھائیوں نے لڑکے سے وہی کیا جو نام نہاد غیرت مند کرتے ہیں۔ لڑکا مار کھا کے بیرون ملک چلا گیا لیکن روشن کی کوکھ میں اپنی یاد چھوڑ گیا۔ روشن نے گھر کے دباؤ پر شادی کر لی اور پہلی رات ہی شوہر پر کوکھ کا راز کھول دیا۔

 

پانچویں عورت۔ بھابھی؛
راوی قیوم ( یعنی مصنفہ) کی زبانی۔

” بھابھی صولت کم گو کم آمیز اور تیوری دار عورت تھی۔ اسے خوش گپی، خوش گفتاری اور ہنسوڑ بازی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ چھوٹی سی عمر میں اس کے چہرے پر مردنی کا ایک غلاف چڑھ گیا تھا۔ پھل بہری جیسے سفید چہرے پر براؤن تتلیوں جیسی چھائیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ان کے چہرے کی بجائے ان کے بازو اور پاؤں زیادہ جاذب نظر تھے۔ ان کے ساتھ رہنے میں سب سے بڑی سہولت یہ تھی کہ وہ کام کی بات کرنے کے بعد جھٹ سے روپوش ہو جاتی تھیں۔ ہم دونوں کی گفتگو میں ہر دس قدم کے بعد خود بخود بریک لگ جاتی اس لئے ہم نے رفتہ رفتہ ایک دوسرے سے ضروری باتیں کرنا بھی چھوڑ دیں۔ یہ عورت اگر اس قدر سنجیدہ نہ ہوتی تو مزے دار ہو سکتی تھی لیکن پتہ نہیں کیوں وہ بہت کم کوٹھے پر آتی تھیں“ ۔

چھٹی عورت۔ قیوم کی ماں ؛
راوی قیوم ( یعنی مصنفہ) کی زبانی۔

 

” ماں کی موجودگی میں حویلی کے آنگن میں ہر سمے میلے کی سی کیفیت رہتی۔ دو آ رہی ہیں دو جا رہی ہیں وہ جہاں بیٹھی وہی جگہ آباد ہو گئی اور کچھ نہیں تو اس چارپائی تلے چیونٹیاں ہی رستہ بنا لیتیں۔ ماں کے کیے ہوئے کام ہر جگہ اس کی گواہی دیتے۔ کہیں چارہ کٹا ہوا ملتا کہیں نارنگیوں کے چھلکے سوکھنے کے لئے پڑے ہوتے سوتی کپڑوں کی رنگین کترنیں مکئی کے خالی تکے، گنوں کے چھلکے، بادام کی تازہ کھلی۔ ماں تھی تو آنگن آباد تھا، گاؤں زندہ تھا۔ باپ کا گھرانا بڑی شان والا تھا۔ چندرا میں ہماری حویلی سارے علاقے میں مشہور تھی۔ ابا کا سارا خاندان فیوڈل تھا اس لئے ماں کا میکہ گمنام رہا۔ وہ حویلی اور خاندان کے اندر ابا کی رعایت سے بڑی چودھرائن تھی۔ بیمار ہونے کے بعد اس کی خواہش تھی کہ وہ میکے گھر میں جا کر مرے۔ باپ کو ماں کی اس آرزو پر منطقی طور پر کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن ساری بات غیرت کی تھی ہمارے گھر کی کوئی بھی بڑی سیانی اپنے میکے گھر میں فوت نہیں ہوئی تھی“ ۔

آفتاب ؛

کچھ اپنی اور کچھ راوی کی زبانی۔ راوی: امریکی فلموں کا چڑھتا سورج آہستہ آہستہ۔ موسیقی اور لے کے ساتھ۔ روشن کرتا ہوا۔ گرمی پھیلاتا ہوا۔ سکس ملین ڈالر مین۔

 

خود اپنی زبانی: ”میرا نام آفتاب بٹ ہے، پچھلے سال میں یونین کا صدر تھا، بی اے میں میرے سبجیکٹ سائیکالوجی اور سوشیالوجی تھے۔ میں اگر خود پسندی اور فلموں کا شوقین نہ ہوتا تو شاید بی اے میں ٹاپ کرتا۔ لیکن مجھے فرسٹ نہ آنے کا کچھ خاص افسوس بھی نہیں کیوں کہ جو لڑکی پنجاب میں فرسٹ آئی ہے، وہ مجھ سے نوٹس لے کر پڑھتی رہی تھی۔ ویسے میری ریپیوٹ والدین کے خوف اور اللہ کے فضل سے اچھی ہے۔ “

راوی: آفتاب کو دراصل ایک ٹاپک پر دسترس تھی۔ وہ کالج کے باقی لڑکوں کی طرح ٹائم اور نیوز ویک کی باتیں نہیں کرتا تھا۔ اسے پروفیسرز سے کوئی شکایت اور مستقبل و کیریئر کی کوئی فکر نہیں تھی۔

آفتاب کی عادت ہمیں بعد میں پتہ چلی کہ جہاں مسکراہٹ سے کام چل جاتا وہاں وہ ایک لفظ بھی ضائع نہ کرتا۔ جہاں لفظ سے عندیہ پورا ہو جاتا وہاں وہ جملے کو استعمال نہ کرتا۔ جہاں مختصر بات کافی ہوتی وہاں وہ لمبی بحث میں نہ پڑتا۔ وہ عموماً پوائنٹس میں بات کرنے کا عادی تھا۔

 

آفتاب جسم کے لحاظ سے بالکل یونانی تھا۔ آفتاب پھول تھا، گورا چٹا کشمیری جس کی شربتی آنکھیں، براؤن بال اور کاٹھی بڑی چوڑی چکلی تھی۔ اس میں قد سے لے کر رنگ تک، باتوں سے لے کر خاموشی تک، عادتوں سے لے کر جبلی سرشت تک وہ سب کچھ تھا جس سے لڑکیاں پیار کرتی ہیں۔ وہ شکلاً اتنا معصوم اور بھولا تھا کہ اسے دیکھ کر ہر لڑکی میں ایک ماں بیدار ہو جاتی۔ لڑکیوں کے سامنے اس بلا کا خاموش رہتا کہ سب کا جی محبوبہ کی طرح اسے گدگدانے کو چاہتا۔ ذرا سی طبیعت کے خلاف بات ہو جاتی تو اس کی شکل مجروح ہو جاتی۔ شربتی آنکھیں نم ناک نظر آتیں۔ وہ قالین فروشوں کا ایسا لاڈلا بیٹا تھا جس کی گھٹی میں پریم رچنا تھی۔ وہ اس قدر سیر چشم سیر دل آدمی تھا کہ نہ اسے دولت کی بھوک تھی نہ محبت کی، نہ وہ شہرت کی تلاش میں تھا اور نہ ہی ترقی کی۔ وہ ان تمام نعمتوں میں ایسے رہتا تھا جیسے مچھلی جل میں رہتی ہے۔ اس کے لیے یہ سب کچھ سورج کی طرح ضروری اور سورج ہی کی طرح غیر اہم تھا۔ اس نے کبھی کسی کلاس میں پروفیسر سے بحث نہیں کی تھی، بس نما نما مسکراتا رہتا۔ وہ نہ تو کبھی لڑکیوں کو لفٹ دیتا، نہ متاثر کرنے کی کوشش کرتا۔ اس سے عادتا اًور سرشتاً ایسی حرکتیں سر زد ہوتی رہتی تھیں جن سے لڑکیاں پیار کرتی تھیں۔ آفتاب کے پاس ہمیشہ اتنے پیسے رہتے تھے جس سے وہ کسی بھی ظاہری بھوک کو شانت کر دیتا اور کچھ اس لاپرواہی سے کہ لڑکیاں سمجھ جاتیں کہ بغیر شرمندہ کیے اور خاموشی اور رضا سے وہ ان کی اور اشتہا مٹانے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ آفتاب کو اپنے آپ سے پیار نہیں تھا بس اسے زندہ رہنے کی عادت تھی۔ پرندوں کی طرح اور وہ سمجھتا تھا کہ کسی کے پاس کوئی معقول وجہ بھی نہیں ہے کہ وہ کیوں زندہ نہ رہے؟ اگر کسی کے پاس ایسی وجہ ہوتی اور وہ آفتاب کو بتا دیتا تو یقیناً آفتاب اپنی زندگی ختم بھی کر دیتا۔ آفتاب کا الٹا سیدھا ایک تھا، اس لیے کھاتے وقت، باتیں کرتے ہوئے، چلتے وقت، بیٹھتے سمے اور سوتے ہوئے کبھی اپنی ذات کی کڑکی میں گرفتار نظر نہیں آیا۔

پروفیسر سہیل ؛

راوی قیوم (یعنی مصنفہ) کی زبانی۔ ”وہ ایسا چھپا ہوا کاغذ نہیں تھا جس پر مزید کچھ لکھا نہ جا سکے۔ وہ تو سلیٹ کی مانند تھا، لکھا، مٹایا اور پھر لکھ لیا۔ وہ مختلف اور عجیب تھا، بچے کی طرح سادہ کسی گنوار کی طرح متحیر اور کسی مسخرے کی طرح ہنسوڑ۔ وہ ہم سے بمشکل پانچ چھ سال بڑا تھا لیکن اس کے پاس ایسا ہنٹر موجود تھا جو شیروں کو سدھارنے والے استعمال کرتے ہیں۔ اسے کبھی کورس پڑھانا نہ آیا لیکن وہ ذہنوں کا جوڈو کھیلنا جانتا تھا۔ نظریات کی کشتی کرانا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ اپنے شاگردوں کی کھوپڑیاں کھولنا اور خالی پا کر انہیں جوں کی توں بند کر دینا اسے جی سے پسند تھا۔ سلی ہوئی زبانیں آزاد کرا کر طوطے کی طرح باتیں کرانا اور ریڈیو کی مُسلسل زبان بولنے والوں کو چپ کرانے کا فن بھی صرف اسے آتا تھا۔ خوب آزادی برتتا اور ہر طرح کی آزادی دیتا۔ کوئی بات کبھی اسے شاک نہ کر سکی۔ سوشیالوجی کے ساتھ ساتھ اسے دنیا کا ہر سبجیکٹ آتا تھا اسی لئے اس کی موجودگی میں فضا تعلیمی تصنع سے ہمیشہ پاک رہتی اور طالب علم ایک دوسرے کے تشخص میں زیادہ غلطیاں نہ کرتے“

 

ناول میں پروفیسر سہیل قیوم کے گورنمنٹ کالج چھوڑ دینے کے بعد بھی اس سے بار بار ٹکراتا ہے اور ہر بار قیوم کو کسی نہ کسی گمراہ کن فلسفے اور تھیوری یا دوسرے الفاظ میں مصنفہ کے تھیسس کا کوئی نیا رخ متعارف کراتا ہے۔ کبھی حرام و حلال، کبھی پاگل پن کا جینیاتی عنصر، کبھی یوگا تنترا، اور کبھی پراسرار بابوں کے ڈیروں میں روحانیت کی تلاش۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: