مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

“سندھ دشمن لاڈلہ۔۔۔||عزیز سنگھور

اور وہ اپنی سرزمین کے نظاروں سے لطف اندوز ہوکر شہادت قبول کرینگے۔ اس کی خواہش کے مطابق انگریز فوج نے انہیں کراچی کے علاقے ڈالمیاں کی پہاڑی چوٹی پر پھانسی دی۔ ڈالمیاں سے آج بھی کراچی کا پورا منظر نظر آتا ہے۔

عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حق دو تحریک بلوچستان نے مطالبات تسلیم نہ ہونے کے خلاف مسلح مزاحمت کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ پرامن تحریک کو مزاحمتی تحریک میں تبدیل کرنے

بحریہ ٹاؤن کے سربراہ و بانی ملک ریاض بے لگام گھوڑے کی طرح سندھ کی زمینوں پر قابض ہیں۔

ہزاروں ایکڑ اراضی کو اونے پونے داموں لے چکا ہے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے آنکھیں بند کرکے سرکاری اور مقامی سندھی اور بلوچوں کی اراضی ملک ریاض کی جھولی میں ڈال دی۔ انڈیجینیس لوگوں کی جانب سے مزاحمت کرنے پر سرکاری مشینری استعمال کی گئی۔

جعلی اینکاؤنٹر اسپیشلسٹ راشی پولیس افسران کا استعمال کیا گیا۔ مقامی لوگوں کو اغوا کیا گیا۔ گن پوائنٹ پر مقامی لوگوں سے ان کی جدی پشتی اراضی کے دستاویزات پر دستخط کروائے گئے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد نگران حکومت نے بحریہ ٹاؤن کی فائلیں کھولنا شروع کردیں۔

اور عدالتیں بھی سرگرم ہوگئیں۔2019 کو بحریہ ٹاؤن کی طرف سے زمین کی خریداری میں 460 ارب روپے کی بدعنوانی کا انکشاف ہوا۔

اس بدعنوانی کا معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا تھا۔ جس پر سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو 460 ارب روپے قسط وار سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔ جس کے بعد اب تک صرف 65 ارب روپے کی رقم جمع کروائی گئی۔

باقی 395 ارب روپے جمع کروانے سے انکاری ہے۔ رقم کی عدم ادائیگی پر ایک مرتبہ پھر یعنی 18 اکتوبر 2023 کو سپریم کورٹ نے یہ کیس دوبارہ کھول دیا۔

جبکہ دوسری جانب کراچی میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) نے بحریہ ٹاؤن کے چیک باؤنس ہونے پر ملک ریاض اور اس کے بیٹے علی ریاض ملک کے خلاف مقدمہ بھی درج کروا دیا۔

یہ رقم (چیک) کی دائیگی ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے منظور شدہ لے آؤٹ پلان پر این او سی کیلئے دی گئی۔ انیس کروڑ پچیس لاکھ سے زائد مالیت کے تینوں چیک باؤنس نکلے۔

ایس بی سی اے کی جانب سے بحریہ ٹاؤن میں جائیداد کی خرید و فروخت اور اشتہاری مہم روکنے کے احکامات بھی جاری کر دیے گئے۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق بحریہ ٹاؤن کراچی کیخلاف حقائق چھپانے اور غلط بیانی کرنے پر تحقیقات کی گئیں۔
دراصل یہ خاندانی فراڈیا ہے۔ آخر کار یہ فراڈیا کس کا لاڈلہ ہے؟ جو نہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کا احترام کرتا ہے۔

اور نہ ہی کسی حکومت کو گھاس ڈالتا ہے۔

سیاسی حکومتوں کو اپنی جیب میں ڈالتا ہے۔ کسی کو جوابدہ نہیں ہے۔

انڈیجینیس رائٹس الائنس کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ملک ریاض کو پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا آشیرباد حاصل ہے۔ اس سندھ دشمن لاڈلے کو مکمل چھوٹ دی گئی ہے۔

پیپلز پارٹی کو سندھ کے عوام کا مینڈیٹ بھی چاہیئے اور ان کی جدی پشتی اراضی بھی ،

یہ کونسی سیاست ہے جو پیپلز پارٹی کراچی کے قدیم بسنے والے لوگوں کے ساتھ کررہی ہے ۔
سندھ دھرتی لاوارث نہیں ہے۔ ابھی بھی اس کے سپوت زندہ ہیں۔ ماضی میں بھی بحریہ ٹاؤن کی بدمعاشیوں کا مقابلہ کیا گیا اب بھی کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔

واضح رہے کہ 6 جون 2021 کو گڈاپ سٹی پولیس نے بحریہ ٹائون پر حملے ، ہنگامہ آرائی ، جلائو گھیرائو اور توڑ پھوڑ کے الزام میں 125 سے زائد سیاسی کارکنوں اور رہنمائوں کے خلاف مقدمات 11 مقدمات درج کئے تھے۔

سندھی قوم پرست تنظیموں سندھ یونائٹیڈ پارٹی ، سندھ ترقی پسند پارٹی ، جئے سندھ محاذ ، جئے سندھ قوم پرست پارٹی ، قومی عوامی تحریک و دیگر قوم پرست تنظیموں نے بحریہ ٹاؤن کی بدمعاشیوں کے خلاف احتجاج کیا ۔

پرامن احتجاج کو روکنے پر ہنگامہ آرائی اور تشدد میں تبدیل ہوگیا۔

یہ احتجاج کراچی کی قدیم سندھی اور بلوچ آبادیوں کو مسمار کرنے کے خلاف تھا۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ضلع ملیر کے قدیم بستیوں کو ہٹانے کے لئے سندھ پولیس کا استعمال کیا گیا۔

مقامی افراد کی زرعی اراضی کوزبردستی بلڈرمافیاز کے حوالے کیا گیا۔ چراگاہوں پرقبضہ کیا گیا۔
بحریہ ٹاؤن کراچی کی انتظامیہ نے سندھ حکومت کی مدد سے کاٹھور کے قدیمی علاقے نورمحمد گبول گوٹھ اور عبداللہ گبول گوٹھ پر چڑھائی کردی تھی۔

احتجاج کرنے پر خواتین اوربچوں پر شیلنگ اورفائرنگ کی گئی۔

لوگوں کو ان کی جدی پشتی اراضی سے بزوربے دخل کیا گیا۔

انڈیجینیس رائٹس الائنس کے مطابق ملیر اور گڈاپ کے مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضے کے عمل میں ملک ریاض کو سندھ حکومت کی آشیرباد حاصل رہی۔

بحریہ ٹاؤن نے ان قدیم آبادیوں کا جینا حرام کردیا۔

سندھ پولیس کی معاونت سے گاؤں کے رہائشیوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اوران کے خلاف جھوٹے اور مجرمانہ دفعات کے مقدمے دائر کیے گئے۔
بحریہ ٹاؤن کے سربراہ و بانی ملک ریاض ہیں۔

انہیں ایشیا کا بل گیٹس بھی کہا جاتا ہے۔

وہ کبھی ایک گنگلا کلرک ہوا کرتے تھے۔

دھوتی پہننے والا شخص ملک ریاض اب کھرب پتی بن چکے ہیں اور ان کی دولت کمانے کا سفر جاری ہے۔

انہوں نے اپنے بزنس کے ذریعے ایک ایمپائر قائم کیا ہے۔

انڈیجینیس رائٹس الائنس کے رہنماؤں نے پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری پر یہ الزام لگایا کہ وہ مبینہ طور پر ملک ریاض کا بزنس پارٹنر ہے جس کی وجہ سے سندھ حکومت بحریہ ٹاؤن کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ زمینوں پر قبضہ کرنے کے لئے سندھ پولیس کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مزاحمت کرنے پر شیلنگ اور فائرنگ کی جاتی۔

لوگوں کے خلاف مقدمات بنائے جاتے ۔
سرکاری طورپر بحریہ ٹاؤن کراچی 46 ہزار ایکڑ اراضی پرمشتمل ہے۔

لیکن بحریہ ٹاؤن نے 60 ہزار سے زائد اراضی غیر قانونی طور پر گھیر لی ہے۔ تاریخی قبرستان ’مور مرادی‘ بھی بحریہ ٹاؤن کی زد میں آگئی۔ منفرد طرز تعمیر کا حامل یہ صدیوں پرانا قبرستان، جو کھیرتھر نیشنل پارک میں واقع ہے۔یہ پورا خطہ تاریخی اور ماحولیاتی اہمیت کا حامل ہے۔

پہاڑوں اوردرختوں کو کاٹا جارہا ہے۔

جس سے فطرت، جنگلی حیات اور ماحولیات شدید متاثر ہورہے ہیں

یہ عمل نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
موجودہ وقت میں یہ ہاؤسنگ اسکیم آبادی کے لحاظ سے فی الحال فیزیبل اسکیم نہیں ہے۔

کیونکہ کراچی شہر سے کافی دور واقع ہے۔ موجودہ دور میں یہاں لوگوں کو لاکر بسانا ممکن کام نہیں ہے۔

اب تک اس ہاؤسنگ اسکیم کو مصنوعی آکسیجن دی جاتی رہی ہے۔ 2015 سے اب تک صرف دس ہزار نفوس رہائش پذیر ہیں۔

حالانکہ اس اسکیم میں لاکھوں لوگوں کی گنجائش ہے۔

باقی اسکیم خالی پڑی ہے۔

اس اسکیم کو مکمل آباد ہونے کے لئے تیس سال کے عرصے کا وقت درکار ہے۔

موجودہ دور میں یہ اسکیم مکمل فلاپ ہوچکی ہے۔
یہ پورا علاقہ کسی زمانے میں بلوچستان کا حصہ تھا۔

مبارک ولیج سے لے کر گھگھر پھاٹک تک بلوچ ریاست تھی۔

جسے موجودہ کراچی کہتے ہیں۔

1797ء میں خان آف قلات کے بیٹے اور حیدرآباد ریاست کے سربراہ میر تالپور کی بیٹی کی شادی ہوگئی۔

خان آف قلات نے کراچی کو اپنے بیٹے کے جہیز میں دیدیا۔

جس کے نتیجے1797ء میں کراچی، ریاست حیدرآباد (موجودہ صوبہ سندھ) میں شامل ہوا۔

اس زمانے میں ریاست حیدرآباد کے سربراہ تالپور تھے۔ تالپور، ہوت بلوچ قبیلہ کا ذیلی شاخ ہے۔

واضح رہے کہ بلوچ رسم و رواج میں جہیز لڑکے والے دیتے ہیں لڑکی والے نہیں ۔

اور اس زمانے میں جہیز پیسے کی نہیں بلکہ زمین، سونا اور مال مویشی کی شکل میں ہوتا تھا۔

سندھ دھرتی میں شامل ہونے کے بعد کراچی کے بلوچوں پر مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں نے مظالم ڈھائے۔

جب یہاں انگریز آئے تو بلوچوں نے بلوچ سرزمیں کی دفاع کے لئے مزاحمت کی۔

جس کی پاداش میں میر چاکر نوتک کلمتی کو 19 ویں صدی میں کراچی کی پہلی فوجی عدالت سے سزائے موت دی گئی۔ انہوں نے انگریزوں کی غلامی برداشت نہیں کی اور مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔

پھانسی سے قبل میر چاکر نوتک کلمتی سے ان کی آخری خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے انگریز سامراج کو کہا کہ ان کوپھانسی ایسی جگہ پر دی جائے جہاں سے انہیں اپنی سرزمین (کراچی) کے ساحل و کنارے اور کھیت و کھلیان نظر آئیں۔

اور وہ اپنی سرزمین کے نظاروں سے لطف اندوز ہوکر شہادت قبول کرینگے۔ اس کی خواہش کے مطابق انگریز فوج نے انہیں کراچی کے علاقے ڈالمیاں کی پہاڑی چوٹی پر پھانسی دی۔ ڈالمیاں سے آج بھی کراچی کا پورا منظر نظر آتا ہے۔

یہ پہاڑی علاقہ ہے۔

ڈالمیاں میں آج بھی بلوچ آباد ہیں جو موجودہ دور میں بھی سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق سے محروم ہیں۔

وہ ریڈ انڈین کے طورپر زندگی بسر کررہے ہیں۔
کلمتی قبیلہ ہوت بلوچ کا ذیلی شاخ ہے اور اسی طرح زرداری بھی ہوت بلوچ کا ذیلی شاخ ہے لیکن آج افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایک ہوت بلوچ (میر نوتک کلمتی) نے اپنی سرزمین بچانے کے لئے شہادت قبول کرلی جبکہ ایک ہوت بلوچ ( آصف علی زرداری) اپنی سرزمین کو اونے پونے داموں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے بلڈر کے حوالے کردیا۔

یہ بھی پڑھیے:

مسنگ سٹی۔۔۔عزیز سنگھور

گوادر پنجرے میں۔۔۔عزیز سنگھور

لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور

کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ

عزیز سنگھور کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: