مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لاڈلہ پلس کون۔۔۔۔؟ || آفتاب احمد گورائیہ

میاں صاحب نے ثابت کیا ہے کہ نہ میثاق جمہوریت میاں صاحب کا کچھ بگاڑ سکا اور نہ پیپلزپارٹی جیسی جمہوریت پسند اور آئین پسند جماعت کی صحبت میاں صاحب میں کوئی تبدیلی لا سکی۔

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہنگائی کا شور تو ہم بچپن سے سنتے چلے آئے ہیں، جن زمانوں کو آج ہم سستا یا اچھا زمانہ کہہ کر یاد کرتے ہیں اس زمانے میں بھی مہنگائی کی شکایت کی جاتی تھی

مسلم لیگ نواز کے قائد میاں نواز شریف کی اکیس اکتوبر کو چار سالہ خودساختہ جلاوطنی کے بعد وطن واپسی کے ساتھ ہی سیاسی حلقوں میں یہ بحث شروع ہو چکی ہے کہ اگلے انتخابات کے لئے لاڈلے کی سلیکشن ہو چکی ہے۔ نون لیگ اور اس کے حامی میڈیا کی جانب سے بھی مسلسل یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف کو اگلا وزیراعظم بنائے جانے کا فیصلہ ہو چکا ہے اور میاں صاحب طاقتور حلقوں کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد ہی وطن واپس آئے ہیں۔ میاں صاحب کی جانب سے جنرل باجوہ، جنرل فیض اور ثاقب نثار وغیرہ کے خلاف ایک بار پھر خاموشی اختیار کر لئے جانے سے بھی ڈیل کا تاثر مزید گہرا ہو جاتا ہے۔ میاں نواز شریف کی مقتدرہ کے ساتھ ڈیل کے تاثر کو میاں صاحب کی واپسی کے بعد ملنے والے پروٹوکول اور سہولت کاری سے بھی تقویت ملتی ہے، میاں صاحب کی لندن سے روانگی کے وقت پاکستان کے ہائی کمشنر کی جانب سے بذات خود ایئرپورٹ تشریف لا کر میاں صاحب سے ملاقات کرنے سے جو سہولت کاری کھلم کھلا نظر آنی شروع ہوئی پاکستان پہنچنے کے بعد اس میں مزید تیزی اس طرح نظر آئی جب عمران خان کی طرح میاں صاحب کو بھی تابڑ توڑ ضمانتیں ملنے لگیں اور بائیو میٹرک کرنے والا عملہ اپنے ساز و سامان سمیت اسلام آباد ائر پورٹ پہنچ گیا۔ وزیراعظم کے پروٹوکول سمیت نگران حکومتوں کی جانب سے نون لیگ اور میاں صاحب کی مسلسل سہولت کاری سے یہ جاننا اب کوئی بہت بڑی راکٹ سائنس نہیں رہی کہ نیا لاڈلہ کون ہے؟

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لئے اور میاں صاحب کو راستے سے ہٹانے کے لئے اداروں کی جانب سے بالکل اسی طرح کی سہولت کاری کی گئی جیسے ماضی میں میاں صاحب کو اقتدار میں لانے کے لئے پیپلزپارٹی کے خلاف سہولت کاری کی جاتی رہی اور پیپلزپارٹی کو دیوار سے لگایا جاتا رہا۔ میاں صاحب کو جس دن سے اقتدار سے نکالا گیا اس دن سے میاں صاحب ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے رہے ہیں اور یہ پوچھتے رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟ اس سارے عرصے کے دوران میاں صاحب یہ بھی کہتے رہے کہ اب میں نظریاتی ہو گیا ہوں جبکہ نون لیگ والے میاں صاحب کو نظریاتی لیڈر بنا کر پیش بھی کرتے رہے اور کہا جاتا رہا کہ میاں صاحب جیسا اینٹی اسٹیبلشمنٹ لیڈر تو کبھی پیدا ہی نہیں ہوا۔ غیرجانبدار حلقے آج یہ سوال پوچھنے میں بالکل حق بجانب ہیں کہ جو سہولت کاری عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لئے کی گئی اور میاں صاحب اس پر احتجاج کرتے تھے اور سوال اٹھاتے تھے آج ویسی ہی سہولت کاری خود میاں صاحب کے لئے کی جا رہی ہے تو اسے درست کیسے کہا جا سکتا ہے؟ جب عمران خان کو درجنوں کے حساب سے ضمانتیں دی جاتی تھیں تو اگر وہ غلط تھا تو جس طرح آج بھونڈے طریقے سے میاں صاحب کی سزائیں معطل کی جا رہی ہیں اس عمل کو بھی درست قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ حد تویہ ہے کہ نگران حکومت جس کا واحد کام الیکشن کروانے تک روزمرہ کے حکومتی امور کی سرانجام دہی ہے وہ عدلیہ کا کردار ادا کرتے ہوئے میاں صاحب کی سزائیں معطل کرنے میں مصروف ہے۔ میاں صاحب کو یقینا سوچنا چاہیئے کہ ان کو اس سہولت کاری سے وقتی فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن میاں صاحب کی سیاست اور ووٹ کو عزت دو والے بیانئیے کا اس سے دیوالیہ نکل جائے گا۔

میاں صاحب کی مقتدرہ کے ساتھ موجودہ ڈیل جہاں ان کے اپنے موقف کی سراسر نفی ہے وہاں میثاق جمہوریت کی بھی سراسر خلاف ورزی ہے۔ میاں صاحب نے اپنے ووٹ کو عزت دو والے بیانئیے سے یو ٹرن لے کر ثابت کیا ہے کہ تین چار دہائیوں کی سیاست، تین دفعہ سہولت کاری سے وزیراعظم بننے اور پھر اسی سہولت سے اقتدار سے بے دخل کر دئیے جانے اور میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے کے باوجود میاں صاحب نے کچھ نہیں سیکھا اور میاں صاحب آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں انیس سو پچاسی میں کھڑے تھےاور آج بھی انہی خفیہ قوتوں یا خلائی مخلوق کے زور پر اقتدار میں آنا چاہتے ہیں جن سے پچھلے پانچ چھ سالوں میں وہ یہ سوال کرتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا؟ میاں صاحب ایک بار پھر اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پر بضد ہیں جو بیماری کا باعث ہے۔

میاں صاحب نے ثابت کیا ہے کہ نہ میثاق جمہوریت میاں صاحب کا کچھ بگاڑ سکا اور نہ پیپلزپارٹی جیسی جمہوریت پسند اور آئین پسند جماعت کی صحبت میاں صاحب میں کوئی تبدیلی لا سکی۔ پیر صاحب پگاڑا مرحوم کے مطابق میاں صاحب اور نون لیگ والوں کا آج بھی یہی وطیرہ ہے کہ مشکل میں ہو تو پاوں پکڑ لو اور مشکل سے نکلو تو گلا پکڑ لو۔ پیپلزپارٹی نے میاں صاحب کو جمہوری اقدار سکھانے کی بہت کوشش کی، موصوف تھوڑی دیر کے لئے جمہوری بن بھی جاتے ہیں، تھوڑا سا انقلابی ٹچ بھی دے لیتے ہیں لیکن جونہی ڈیل کےذریعے اقتدار نظر آنے لگے تو پھر اقتدار کے حصول کے لئے دوبارہ انیس سو پچاسی میں واپس لوٹ جاتے ہیں۔

اس وقت عالم یہ ہے کہ وہی سارے ہتھکنڈے میاں صاحب کے لئے استعمال کئے جا رہے ہیں جو دو ہزار اٹھارہ میں عمران خان کے لئےاستعمال کئے گئے تھے۔ میاں صاحب کے واپس آتے ہی نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھل چکے ہیں۔ اخبارات کے پورے پورے فرنٹ پیج خریدے جا رہے ہیں۔ گیلپ کے نام نہاد سروے جو پہلے عمران خان کی ریکارڈ توڑ مقبولیت ظاہر کر رہے تھے اب میاں صاحب کو پاپولر ترین لیڈر ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ بہت سارے صحافی حضرات جو پچھلے کچھ عرصے سے خود کو غیر جانبدار ظاہر کر رہے تھے، ان کی پھولی ہوئی جیبیں ان کے قلم اور زبان پر حاوی ہو چکی ہیں۔ ان کو بھی اب نواز شریف کی شکل میں ایک مسیحا نظر آنا شروع ہو چکا ہے۔ یہ کہا جانا کہ میاں صاحب کو وزیراعظم بنائے جانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے ان صحافیوں کو انتخابات سے پہلے ہی میاں صاحب کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کر لئے جانے میں کچھ بھی غلط نظر نہیں آ رہا اور وہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ کیا ہوا اگر میاں صاحب کے لئے یہ سہولت کاری کی جا رہی ہے، میاں صاحب کو نکالا بھی تو ایسے ہی گیا تھا۔ یہ خبریں بھی زبان زدِ عام ہیں کہ ٹی وی چینلز پر میاں صاحب کے خلاف کوئی بھی خبر چلانے پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کی جا چکی ہے۔

میاں صاحب کی مجوزہ ڈیل کے باوجود زمینی حقائق ن لیگ کے لئے بالکل بھی موافق نہیں ہیں۔ عوام عمران حکومت کی نالائقی اور نااہلی بھول چکے ہیں اور موجودہ مہنگائی، بجلی کے بلوں اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کا ذمہ دار اسحاق ڈار کی معاشی پالیسیوں کو قرار دیتے ہیں۔ نون لیگ کے خلاف عوامی نفرت کی جو لہر اس وقت موجود ہے اس سے نون لیگ کو آنے والے انتخابات میں بہت زیادہ نقصان پہنچنے کا خدشہ موجود ہے۔ دروغ بر گردن راوی سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ میاں صاحب کا مطالبہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم ختم کرنے کے لئے ماضی کی طرح دو تہائی یا کم از کم سادہ اکثریت عطا کی جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ن لیگ کو دو تہائی یا سادہ اکثریت تو دور کی بات سنگل لارجسٹ پارٹی بنوانے کے لئے بھی بہت بڑی الیکشن انجنئیرنگ کی ضرورت پڑے گی جو آج کے دور میں اور ملک کی موجودہ صورتحال میں شاید ممکن نہ ہو۔ اگرچہ کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے اور درست خیال ہے کہ ہمارے ملک میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ وزن رکھتی ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال ایک اور متنازعہ انتخابات اور ایک مزید سلیکٹڈ وزیراعظم کی شائد متحمل نہ ہو سکے۔

اسے پاکستان کی سیاست کا المیہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ میاں صاحب جیسا سیاسی رہنما جو پہلے بھی تین دفعہ ملک کا وزیراعظم رہ چکا ہے ایک بار پھر وزیراعظم کی کرسی تک پہنچنے کے لئے غیر جمہوری قوتوں سے ہاتھ ملا کر وزیراعظم بننا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے اگر خفیہ ہاتھ کسی کو سہولت کاری سے اقتدار کے ایوانوں میں لے کر آتے ہیں تو ان کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے جسے سلیکٹڈ وزیراعظم کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے۔ میاں صاحب کو ملنے والی مجوزہ ڈیل کے پس پردہ بھی یقینا ایسا ایجنڈہ موجود ہے جسے عوام کا کوئی نمائندہ وزیراعظم تو جوتے کی نوک پر رکھے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ میاں صاحب کی ڈیل کے مطابق ان کی سزائیں ختم کرکے ان کو انتخابات لڑنے کے لئے اہل قرار دے دیا جائے گا لیکن اس کے عوض اٹھارویں ترمیم کا خاتمہ، فارن افئیرز اور سی پیک سمیت بڑے بڑے منصوبوں کا کنٹرول اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کر دیا جائے گا۔ دیکھا جائے تو یہ وہی ایجنڈا ہے جو پراجیکٹ عمران خان کو بھی دیا گیا اور اب وہی نا تکمیل شدہ ایجنڈا پراجیکٹ نواز شریف کے حوالے کر دیا گیا ہے اور میاں صاحب نہایت تابعداری سے اس ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کام کریں گے کیونکہ میاں صاحب کو اب اپنی بیٹی مریم نواز کے لئے راہ ہموار کرکے اپنا تاج بالاآخر مریم نواز کے سر پر رکھنا ہے۔

نہایت بدقسمتی کی بات ہے کہ پچھتر برس سے زائد کا عرصہ گزر جانے بعد بھی پاکستان کے عوام کا حقیقی جمہوریت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ آج بھی پاکستان کے عوام اس انتظار میں ہیں کہ کیا کبھی پاکستان کی سیاست سے لاڈلہ کلچر ختم ہو سکے گا اور منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں عوام کی نمائیندہ حکومت کا قیام عمل میں آ سکے گا؟ سول بالادستی بھی عوام کی نمائیندہ حکومت ہی ممکن بنا سکتی ہے کیونکہ لاڈلے یا سلیکٹڈ وزیراعظم عوام کی بجائے ان خفیہ قوتوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور انہی کو جوابدہ ہوتے ہیں جو ان کو اقتدار میں لے کر آتے ہیں۔ جب تک کچھ سیاسی جماعتیں اقتدار کے لئے مقتدرہ کو اپنا کندھا پیش کرتی رہیں گی اس وقت تک الیکشن انجنئیرنگ بھی ہوتی رہے گی، سلیکٹڈ وزیراعظم بھی آتے رہیں گے اور کل کے معتوب آج کے لاڈلے اور آج کے لاڈلے کل کے معتوب بنتے رہیں گے۔

Twitter: @GorayaAftab

پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

آفتاب احمد گورائیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: