اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پروفیسر شیر علی، بہت سستے چھوٹ گئے آپ!!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

بلی کی خود کشی جیک کو غصے سے بے قابو کر دیتی ہے اور وہ ہیڈ نرس پر حملہ کر دیتا ہے۔ ہسپتال کا باقی عملہ ہیڈ نرس کو جیک کی گرفت سے چھڑواتا ہے۔ ہیڈ نرس جیک کو انتقاماً خطرناک مریض ڈکلیئر کروا کر آپریشن کرواتی ہے جس میں جیک کے دماغ کا ایک حصہ نکال دیا جاتا ہے۔ اس آپریشن کو lobectomy کہتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بنوں، علما، بیالوجی، عورت، ڈارون اور معافی نامہ۔ یہ کہانی اب تک سب جان ہی چکے ہیں سو کیا فرق پڑے گا اگر ہم کچھ لکھیں؟

 

چلیے چھوڑیے آپ کو ایک فلم کے متعلق بتاتے ہیں۔ نہیں دیکھی تو فوراً سے پیشتر دیکھ ڈالیے۔ دیکھ چکے ہیں تو ایک بار پھر۔

ہم اس فلم کو ڈاؤن لوڈ کیے بیٹھے ہیں۔ بار بار دیکھتے ہیں، اداس ہو کر پہروں چپ رہتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ عین وقت پر کمند کیوں ٹوٹی؟ شاید کمند کا کام ہی یہ ہے کہ لب بام پہنچنے سے پہلے ہی دھوکہ دے جائے۔

 

اچھا بھئی، پہیلیاں بھجوانا بند۔ فلم کا نام ہے one flew over cuckoo ’s nest۔ اور ہیرو صاحب ہیں جیک نکولسن۔ اپنے معاشقوں کی وجہ سے بدنام زمانہ۔ مگر کیا کریں اداکاری ایسی کرتے ہیں کہ جان نکال لیتے ہیں۔ ہمارے بچوں سے اگر کبھی ملاقات ہو اور بات کرنے کا موقع ملے تو جھٹ بتائیں گے کہ امی تو بس جیک نکولسن کا نام سن کر ہی فلم دیکھنے بھاگتی ہیں۔

فلم ایک ناول پر 1975 میں بنائی گئی جو Ken Kesey کن کیسے نے 1962 میں لکھا۔ ناول میں ذہنی امراض کا ہسپتال دکھایا گیا ہے، جیک نکولسن ذہنی عارضے کا بہانہ بنا کر اس ہسپتال میں پہنچتے ہیں تاکہ جیل مزدوری نہ کرنی پڑے۔ ہسپتال میں مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک ڈاکٹر اور کچھ نرسیں ہیں مگر بنیادی کردار ہیڈ نرس کا ہے جو ولن کے روپ میں سامنے آتی ہے۔

اپنی اتھارٹی سے مریضوں پہ حکم چلانا، حکم عدولی کی صورت میں انہیں سزا دینا، اپنے فقروں سے انہیں ذہنی کچوکے دینا، چھوٹی چھوٹی باتوں پہ گرفت کرنا، آپس میں لڑوانا، مریضوں کے خوف، شرم اور کمزوری کا مذاق اڑا کر انہیں شرمندہ کرنا ایسے طریقے ہیں جن سے ہیڈ نرس وارڈ کی مطلق العنان حاکم بنی ہوئی ہے۔

وارڈ میں پہنچتے ہی نرس کے اس رویے اور مریضوں کی بے بسی کو جیک بھانپ لیتا ہے۔ یہاں اس کے اندر چھپا ہوا ایک ایسا انسان باہر آتا ہے جو کمزور اور بیمار کا ساتھ دیتے ہوئے طاقتور کو چیلنج کرتا ہے۔

ہیڈ نرس اس طاقت کو کسی قیمت پہ کھونا نہیں چاہتی۔ جیک کی کوششوں کو زائل کرنے کے لیے وہ اسے بجلی کے جھٹکے تک لگوا دیتی ہے۔ لیکن جیک اپنی ان کوششوں سے دستبردار نہیں ہوتا جن سے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے زندگی کو محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

جیک انہیں بتاتا ہے کہ ذہنی کمزوری کا مطلب قیدی بننا نہیں اور انہیں نارمل زندگی کی طرف لوٹنے کا حق ہے۔

 

جیک مریضوں کے ساتھ مل کر فرار کا پروگرام بناتا ہے لیکن سب سے کم عمر قیدی کی خود کشی ان کے منصوبے پر پانی پھیر دیتی ہے۔

بلی نام کے قیدی کی خود کشی بھی ہیڈ نرس کی بے رحم دھمکی کا نتیجہ ہے جس میں وہ اسے کہتی ہے کہ میں تمہاری حرکتوں کی اطلاع تمہاری ماں کو دوں گی۔

بلی کی خود کشی جیک کو غصے سے بے قابو کر دیتی ہے اور وہ ہیڈ نرس پر حملہ کر دیتا ہے۔ ہسپتال کا باقی عملہ ہیڈ نرس کو جیک کی گرفت سے چھڑواتا ہے۔ ہیڈ نرس جیک کو انتقاماً خطرناک مریض ڈکلیئر کروا کر آپریشن کرواتی ہے جس میں جیک کے دماغ کا ایک حصہ نکال دیا جاتا ہے۔ اس آپریشن کو lobectomy کہتے ہیں۔

 

دماغ کا فرنٹل لوب frontal lobe سوچ بچار، عقل، یادداشت، ذہانت، جذبات کو کنٹرول کرتا ہے۔ گئے وقتوں میں سیریس ذہنی امراض میں مبتلا مریضوں کا ایک علاج lobectomy تھا۔ فرنٹل لوب نکل جانے کے بعد وہ انسان ہوش و خرد سے بے خبر بس اس قابل رہ جاتا ہے کہ سانس چلتی رہے۔ ایک قسم کی زندہ موت!

فلم میں جیک جو مزاحمت کا استعارہ ہے اور بے چارے مریضوں کو ان کا حق دلوانا چاہتا ہے، خود ہی lobectomy کا شکار ہو جاتا ہے۔

طاقتور حاکم کا کام ہیڈ نرس سے لیا گیا ہے جو اپنی طاقت سے کسی بھی مزاحمت کو کچل سکتی ہے۔
اب آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ ہم نے آپ کو فلم کی کہانی کیوں سنائی؟
ایک ایسا معاشرہ جہاں اگر عورت گینگ ریپ ہو تو کہا جاتا ہے کہ احتجاج ویزا لینے کے لیے ہے۔
ایک ایسا ملک جس میں وزیر صاحب، خواتین ساتھیوں کو کچرا اور ٹریکٹر ٹرالی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔

 

ایک ایسی حکومت، جس کے وزیر اعظم ریپ کی وجوہات میں عورت کے لباس کو سرفہرست رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرد روبوٹ نہیں ہوتے۔

ایک ایسا جلسہ جس میں ایک سینئیر سیاستدان اپنی بیٹی کی موجودگی میں اچھی عورت اور بری عورت کی تشریح کرتا ہے۔

ایک ایسا شہر جہاں کے علما ایک پروفیسر کو سائنس کا سبق پڑھانے اور عورتوں کو برابر کا انسان سمجھنے پر معافی منگواتے ہیں۔

پروفیسر شیر علی صاحب، اصولاً تو آپ کی lobectomy ہونی چاہیے کہ ایسا دماغ کاٹ کر کیوں نہ پھینک دیا جائے جو عورت کو برابر کا انسان سمجھے۔

نہ جانے کس نے آپ پر رحم کھایا ہے اور محض کاغذ کے ٹکڑے پہ ایک دستخط کر کے آپ کی جاں بخشی ہو گئی۔ کیوں نہ آپ کو مبارکباد دوں اور خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے کہوں اور ہدیے کے طور پر اپنے آنسو بھی پیش کروں۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: