دسمبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مفروروں اور اشتہاریوں کی باتیں۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میاں نوازشریف کی وطن واپسی میں بس ایک دن باقی ہے۔ انہوں نے 21 اکتوبر کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترنا ہے ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ان کی حفاظتی ضمانت کے لئے درخواست دائر ہونے کے بعد اس کی ابتدائی سماعت ہوچکی۔ یہ سطور لکھنے کے وقت سماعت کا دوسرا مرحلہ جاری ہے۔ سیاست کا میدان گرم ہے۔

ایک سابق رکن قومی اسھمبلی اسدالرحمن نے میاں نوازشریف کے استقبال کے لئے جانے والوں کو جنت کی بشارت دی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں حفاظتی ضمانت کے لئے درخواست دائر ہونے کے بعد بنچ کی تشکیل اور سماعت پر اعتراض کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ اس طرح کی بلکہ اس سے بڑھ کر سہولتیں عمران خان کو عدالتیں دیتی رہیں۔ 9-9 بجے تک ججوں نے درخواست دہندہ کا انتظار بھی اسی ملک کی عدالتوں میں کیا۔

سماعت کرنے والے بنچ کا کورٹ روم چھوٹا ہے کے اعتراض پر کارروائی روک کر بڑے کورٹ روم میں بنچ کی منتقلی ریکارڈ پر ہے۔ پولیس ریمانڈ کے دوران ملزم کی سپریم کورٹ طلبی کے بعد اسے عدالتی مہمان بنایا گیا۔

ایک ایک دن میں چھ چھ آٹھ آٹھ مقدمات میں ضمانت لی گئی۔ یہ سب اسی ملک کی عدالتوں میں ہوا۔ یہ بھی ہوا کہ ’’کرش‘‘ کے لئے ہم خیال بنچ نے دستور نویسی شروع کردی۔ یہ بھی ہوا کہ کیس کوئی اور سماعت ہورہا تھا مگر بنچ کے ارکان نے چیف جسٹس سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے نوٹس لینے کی سفارش کی پھر نوٹس لیا گیا اور یہ بھی ہوا کہ خیبر پختونخوا کے معاملے کو پنجاب سے الگ کردیا گیا، کیوں؟

اس سوال کا جواب بہت سادہ ہے وہ یہ کہ بندیال کی مرضی یہی تھی۔

نوازشریف عدالتی مفرور ہے، بالکل ہے لیکن اس عدالتی مفرور کی ملک واپسی اور حفاظتی ضمانت کی درخواست پر شور مچاتے اور گالیاں دینے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس ملک میں دو ایسی شخصیات بھی وزیراعظم بنیں کہ جب وہ حلف اٹھارہی تھیں اس وقت وہ عدالتی مفرور تھیں۔ میر جبل خان ظفر اللہ جمالی بلوچستان ہائیکورٹ کے مفرور تھے۔ عمران خان 2014ء کے اپنے دھرنے میں ریڈیو پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملوں کے مقدمے میں عدالت کے اشتہاری تھے ۔

میر جبل خان ظفر اللہ جمالی کی ’’خوبی‘‘ یہ رہی کہ انہوں نے وزیراعظم بن کر مفروری والے مقدمے میں ضمانت نہ کروائی۔ عمران خان نے اپنے نامزد صدر عارف علوی کے ہمراہ (علوی بھی اشتہاری تھے) حلف اٹھانے کے بعد عدالت سے ضمانتیں کرائیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ عمران اور علوی کے خلاف سیاسی مقدمات تھے، درست، لیکن مقدمات تو تھے نا اور وقوعے بھی ہوئے تھے

نوازشریف عدالتی مفرور ہیں۔ وہ ملک سے باہر علاج کے لئے گئے تھے ان کے لئے بنائے گئے میڈیکل بورڈ کی رپورٹس کی پہلے پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے تائید کی پھر وزیراعظم کے حکم پر بنی ایک رکنی کمیٹی جو وزیراعظم کے مشیر صحت ڈاکٹر فیصل (یہ صاحب شوکت خانم ہسپتال کے ملازم ہیں) نے بھی تائید کی کہ طبی رپورٹ درست ہے۔

حکومت پاکستان کی جانب سے نوازشریف کے بیرون ملک علاج کے لئے جانے پر عدم اعتراض کے بعد ہی لاہور ہائیکورٹ نے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔ ان سطور میں مسلسل عرض کرتا رہا ہوں کہ میاں نوازشریف کے وکلاء نے عدالت کو جو انڈرٹیکنگ دی تھی اس کے حساب سے انہیں ہر ہفتے اپنی تازہ میڈیکل رپورٹ عدالت اور پنجاب حکومت کو مہیا کرنا تھی۔ اس پر درست انداز میں عمل نہیں ہوا۔ تب پنجاب حکومت نے تحریری طور پر عدالت کو آگاہ کردیا تھا۔

نوازشریف ڈیل کرکے واپس آرہے ہیں۔ 2018ء میں ایک ڈیل کے تحت ہی نوازشریف کو انتخابی عمل سے باہر رکھ کر باجوہ اینڈ کمپنی اپنا صادق و امین کرش اقتدار میں لائی تھی۔

اس سکیورٹی اسٹیٹ کی 75سالہ تاریخ میں صرف ایک شخص ذوالفقار علی بھٹو سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر کے اقتدار میں نہیں آیا تھا بلکہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے بغاوت کے خطرے کا جی ایچ کیو میں ’’عملی نمونہ‘‘ دیکھ کر اسے مجبوری میں اقتدار منتقل کیا تھا

2013ء کے انتخابات میں خیبر پختونخوا میں اے این پی، پیپلزپارٹی کا راستہ بند کرنے کےلئے طالبان کس نے کھلے چھوڑے اور اس طالبان گردی کا فائدہ کس کو پہنچایا گیا؟

ساعت بھر کے لئے رکئے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ عمران خان اور اس کی جماعت کو بزور قوت انتخابی عمل سے باہر نہیں رکھنا چاہیے۔ تمام جماعتوں اور ان کے قائدین کو انتخابی سیاسی عمل میں مساوی شرکت کے مواقع فراہم کئے جانے چاہئیں۔

یہ دستوری، اخلاقی اور سیاسی اقدار کی روشنی میں الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کا فرض ہے۔

اس کے ساتھ عمرانخان اور اس کی جماعت کو شکر گزار بھی ہونا چاہیے کہ ان کی سیاست کے خلاف کوئی طالبان کو نہیں برت رہا جبکہ ان کی سیاست کے لئے انکے سرپرستوں نے طالبان کو برتا اور یہ سب نے دیکھا۔

خیر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ میاں نوازشریف کل بروز ہفتہ 21 اکتوبر کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر اتریں گے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت، عدالتیں اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں سے کوئی بھی قانون سے تجاوز نہیں کرے گا۔ میاں صاحب کے معاملے میں قانون جو کہتا ہے اس پر عمل ہونا چاہیے۔ میری دانست میں اصل مسئلہ مقدمات میں سزا کے بعد حکومت اور عدالت کی اجازت سے (ان اجازتوں کو سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی حاصل تھی) ملک سے باہر علاج کرانے گئے۔ انہوں نے علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی شرائط پر من وعن عمل نہیں کیا۔ حساب کتاب کے مطابق تقریباً چار سال سے عدالتی مفرور تھے۔

ان کے دائمی وارنٹ موجود ہیں امکان یہی ہے کہ وارنٹ معطل کردیئے جائیں گے۔ اس عدالت فیصلے پر فاتحہ خوانی کی صدائیں سنائی دیں گی۔ حالانکہ اس ملک کے پورے نظام پر فاتحہ خوانی کی ضرورت ہے۔

باردیگ عرض ہے جس طرح 2018ءکے انتخابی عمل سے نوازشریف کو دور رکھ کر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے نتائج حاصل کئے تھے اس کا تجربہ اب نہ ہی کیا جائے تو اچھا ہوگا۔ عمران خان اور ان کی جماعت سمیت سب کو کھلا میدان دینے کی ضرورت ہے۔

مناسب یہی ہے کہ عمران خان کے زیرسماعت مقدمات کے فیصلے نگران دور میں نہ ہوں۔معاملہ مستقبل کی حکومت پر چھوڑدیا جائے۔ نگران دور میں مقدمات کے فیصلے اگر ہوئے تو یہ تاثر پختہ ہوگا کہ ایک تو نوازشریف ڈیل کے تحت آئے ہیں دوسرا ماضی کی طرح اب بھی پسندوناپسند مقدم ہے۔

اس پسندوناپسند کے کھیل میں نظام، جمہوریت، سیاسی عمل اور سماجی اقدار کو گہرے گھائو لگے۔ مزید گھائو لگانے کی بجائے مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔

ایک بار پھر ساعت بھر کے لئے رکئے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سطور لکھتے ہوئے اطلاع ملی ہے کہ ’’اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ کیس میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے وارنٹ گرفتاری کو معطل کردیا ہے جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کی 24 اکتوبر تک کیلئے حفاظتی ضمانت منظور کرلی ہے ‘‘

صحافت و سیاسیات کے ایک طالب علم کے طور پر میری رائے یہی ہے کہ اس ملک کے قیام سے لے کر 2018ء تک ایک بھی الیکشن ایسا نہیں جس میں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے کھلی یا اندرونی مداخلت نہ کی ہو یہاں تک کہ 2013ء کے انتخابی عمل میں کچھ جماعتوں اے این پی، ایم کیو ایم اور پی پی پی کا راستہ روکنے کے لئے غیرریاستی ایکٹروں (عسکری گروپوں) تک کو استعمال کیا گیا۔

2018ء میں کھلی مداخلت کی گئی اور عسکری گروپوں سے لوگوں کو دھمکیاں دلوانے کے ساتھ خود ریاستی محکموں کے افسران لوگوں کو ٹیلیفون اور ملاقاتوں میں دھمکاتے رہے۔

ہم آج جہاں کھڑے ہیں یہ قابل فخر اور قابل ذکر مقام ہرگز نہیں۔ سکیورٹی اسٹیٹ پہلے سے زیادہ طاقتور ہوگئی ہے۔

اس پر ستم وہ قانون سازی ہے جو پی ڈی ایم و اتحادیوں نے اقتدار کے آخری 10 دنوں میں کی جس سے نگران حکومت منتخب حکومت سے بھی زیادہ طاقتور بنادی گئی۔ یہ قانون سازی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش پر کی گئی ہے تو اب قانون سازی کرنے والے رودالو عورتوں کی طرح بین کر کے لوگوں کو گمراہ کیوں کررہے ہیں۔

کالم کے آخری حصے میں پڑھنے والوں کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کو کامل حق ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت اور شخصیت کے لئے سیاسی ہمدردی اور محبت رکھیں جس کو چاہیں انتخابی عمل میں ووٹ دیں۔ بس ایک مہربانی کیجئے سیاسی اختلافات میں نفرتوں کا زہر نہ بھریں اور سیاسی مخالفین کی خواتین کے سروں سے چادریں و دوپٹے نہ نوچیں۔ خواتین کے احترام کے معاملے میں انڈس ویلی کی قدیم روایات کو بہرصورت مدنظر رکھیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author