اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کرکٹ : کیاہم اپنی غلطیوں کو درست کر پائیں گے؟۔۔۔||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ورلڈ کپ کے لئے پاکستانی ٹیم کا باضابطہ اعلان ابھی نہیں ہوا،تاہم کچھ خبریں چھن چھن کر باہر آنا شروع ہوگئی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ورلڈ کپ کے لئے ون ڈے ٹیم کی نائب کپتانی سے شاداب خان کو ہٹایا جا رہا ہے ۔ان کی جگہ شائد شاہین شاہ آفریدی کو یہ ذمہ داری دی جائے۔ اسی طرح یہ بھی شنید ہے کہ اسامہ میر، فہیم اشرف اور متبادل وکٹ کیپر محمد حارث کو بھی تبدیل کر دیا جائے گا۔ وسیم جونیئر کی جگہ بھی حسن علی کو لانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ ایک اہم خبر البتہ لیگ بریک مسٹری سپنر ابرار احمد کی شمولیت کے حوالے سے ہے۔ ابرار احمد دیگر لیگ سپنر کی طرح کلائی سے لیگ بریک نہیں کراتے بلکہ وہ انگلیوں کا استعمال کرتے ہیں، اسی وجہ سے ان کی گگلی کو سمجھنا خاصا مشکل ہے، وہ کیرم گیند بھی کراتے ہیں۔ نوجوان ابرار احمد نے ڈومیسٹک کرکٹ میں پہلے وائٹ بال کرکٹ یعنی ٹی ٹوئنٹی، ون ڈے ہی میں پرفارمنس دی تھی اور پھر وہ ریڈ بال یعنی طویل دورانئے کی کرکٹ کی طرف آئے۔ انہیں ٹیسٹ میچ کھلایا گیا اور پہلے ہی میچ میں ابرار نے بارہ وکٹیں لے لیں۔ ابراراحمد اس وقت پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کے ریگولر سپن بائولر ہیں۔ بدقسمتی سے ابرار کو وائٹ بال کرکٹ کھلائی ہی نہیں گئی، نجانے کیوں ؟ میرے جیسے لوگ پچھلے سال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں ایک اچھے مسٹری سپنر کی ضرورت ہے ۔ خاص کر ون ڈے میں ایسا سپنر چاہیے جو اپنی وارئٹی سے مخالف بلے بازوں کو پریشان کر سکے اور درمیانی اوورز میں وکٹیں لے سکے۔ ابراراحمد اس کے لئے بہترین چوائس تھے۔ افسوس کہ پاکستانی کرکٹ میں مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے لانگ ٹرم پالیسی کا کوئی تصور نہیں۔ ڈنگ ٹپائو سٹائل پر کام ہوتا ہے، سیریز ٹو سیریز۔ اب یہی دیکھ لیں کہ اگر ایشیا کپ پاکستان جیت جاتا یا ہم فائنل کھیلتے اور اچھے مقابلہ کے بعد ہار جاتے۔ تب ٹیم سرخرو ہو کر واپس آتی اور سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ورلڈ کپ کے لئے ٹیم میں کوئی تبدیلی کی جاتی، حالانکہ ٹیم میں موجود کمزوریاں تو تب بھی رہتیں ناں۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہار جیت الگ چیز ہے، بیلنس ٹیم ہونا دوسری بات۔سلیکٹرز اور مینجمنٹ کا فرض ہے کہ وہ ہر اعتبار سے اچھی بیلنس ٹیم بنائے۔ سوال یہی ہے کہ جو باتیں ہم جیسے عام شائقین کرکٹ کو سمجھ آ رہی ہیں، وہ آخر اتنے بڑے کھلاڑی اور فل ٹائم کوچ، سلیکٹرز وغیرہ کیوں نہیں سمجھ سکتے ۔ اب انضمام الحق کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کا سالانہ معاوضہ کئی کروڑ میں ہے۔ سابق چیف سلیکٹر محمد وسیم بھی بھاری معاوضہ لیتے رہے ہوں گے۔ پاکستان نے ماضی میں دو سال تک ثقلین مشتاق کو کرکٹ اکیڈمی کا ہیڈ بنایا، اس سے پہلے مشتاق احمد کو بھی اکیڈمی میں ذمہ داری دی گئی۔ کئی برسوں تک پاکستان کے یہ دونوں شہرہ آفاق سپنر نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے کرتا دھرتا رہے۔ ان سے سوال پوچھنا چاہیے کہ آپ اتنے بڑے سپنر رہے ہیں، جب موقعہ ملا تو ملک کے لئے ایک اچھا نوجوان سپنر کیوں نہیں تیار کر سکے؟ ثقلین مشتاق کو مختلف شہروں میں کیمپ لگا کر اچھے نوجوان سپنر ڈھونڈنے چاہیے تھے۔ ایسے جو نیچرل لیگ سپنر، آف سپنر ہوں یا لیفٹ آرم چائنا مین مسٹری بائولر ہوں۔ جن کے پاس نیچرل ورائٹی ہواور وہ غیرمعمولی صلاحیت کے حامل ہوں۔ ایسے نوجوانوں کو اکیڈمی میں لا کر چھ آٹھ ماہ میں تربیت دے کر ڈومیسٹک سرکٹ میں شامل کرتے، انہیں شاہینز یا اے ٹیم میں ڈالتے اور تجربہ دلاتے۔ اگرپچھلے چار پانچ برسوں میں یہ کام ہوا ہوتا توآج پاکستان کو اچھے سپنر ڈھونڈنے میں اتنی دقت نہ ہوتی۔ چلیں آپ کے پاس دستیاب وسائل میں کوئی خاص بائولر نہیں۔ شاداب خان ٹی ٹوئنٹی میں یہ کام چلا رہا ہے، مگر یہ بھی دیکھیں کہ شاداب کو اب انجریز ہو رہی ہیں۔ کسی بھی وقت وہ انجرڈ ہو کر کسی بڑے ٹورنامنٹ سے باہر ہوسکتا ہے۔ ہمارے پاس بیک اپ میں اچھا بائولر ہونا چاہیے تھا ۔ ہم نے تیاری ہی نہیں کی۔ اب اسی ابرار احمد کو دیکھ لیں۔ اسے اگر نیوزی لینڈ کے خلاف پانچ ون ڈے کھلائے جاتے، افغانستان کے خلاف تین ون ڈے یہ کھیلتا اور ایشیا کپ کے تین چار میچز کھیل لیتا تو ورلڈ کپ میں یہ بارہ تیرہ میچز کے تجربے اور اعتماد کے ساتھ جاتا۔اب یہ ورلڈ کپ میں ڈیبیو کرے تو ٹیم مینجمنٹ اور بورڈ کے لئے کتنی شرم کی بات ہے؟ ہم مسلسل اسامہ میر کو کھلاتے رہے۔ وہ برا بائولر نہیں مگر وہ غیر معمولی بھی نہیں۔ اوسط درجے کا لیگ سپنر ہے، جس کے پاس گگلی نہیں، جس کا فلپر بھی اتنا موثر نہیں۔ کم وبیش یہی حال کھبے سپنر کا ہے۔ ہم پچھلے کئی برسوں سے عماد وسیم اور نواز کے ساتھ ہی الجھے ہوئے ہیں۔نواز ہماری پہلی ترجیح ہے،مگر محمد نواز کی بائولنگ میں وہ جادو اب نہیں اور نہ ہی بیٹنگ میں وہ رنز کر پا رہے ہیں۔ ہمارے پاس مگر لیفٹ آرم سپن بائولنگ میں آپشن ہی نہیں۔ عماد وسیم ٹی ٹوئنٹی میں نئی گیند سے ابتدائی اوور کرا لیتا ہے، مگر ون ڈے میں وہ دس اوورکرانے والا سپنر نہیں اور کرا بھی لے تو زیادہ ٹرن نہ کرا سکنے کی وجہ سے وکٹیں نہیں لے سکتا۔ ہم نے متبادل آپشنزتلاش ہی نہیں کیں، جو ہیں انہیں ٹرائی نہیں کیا۔چار سال پہلے سے پتہ ہے کہ ورلڈ کپ آ رہا ہے اور وہ انڈیا میں ہونا ہے جہاں سپنرز کو مدد ملے گی۔ ہمیں پچھلے دو برسوں میں ملک کے اندر ون ڈے ٹورنامنٹ زیادہ کرانے چاہئے تھے ، سخت مسابقت والی کرکٹ جس میں اچھے سپن بائولر سامنے آتے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اب فاسٹ بائولرز ہی کو دیکھ لیں۔ مسلسل ایک سال سے ہم اپنے تینوں فاسٹ بائولرز کو کھلائے جا رہے ہیں۔ شاہین شاہ ، نسیم شاہ اور حارث رئوف ۔ سخت گرمی ہو یا حبس آلود مرطوب موسم ، ہم ہر میچ انہیں کھلا دیتے ہیں۔ اوپر یہ یہ تینوں شہزادے پیسے کمانے کے ایسے شوقین بلکہ لالچی ہیں کہ کوئی بھی ٹی ٹوئنٹی لیگ مس کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ نتیجہ مسلسل اور متواتر کرکٹ کھیلنے سے انجریز ہورہی ہیں جو کہ فطری ہے۔ نسیم شاہ مسلسل کرکٹ کھیل رہا ہے۔ اسے سری لنکا لے گئے اور ٹیسٹ میچز کھلائے ۔ اس کے بعد موصوف سری لنکن لیگ کھیلنے پڑ گئے۔ ان کی ٹیم باہر ہوگئی ،ورنہ وہ آخری میچز تک کھیلتے۔ اس کے بعد اسے سری لنکا ہی میں افغانستان کے خلاف میچز کھلائے گئے۔ پھر ایشیا کپ میں ہر جگہ اسے کھلایا گیا۔ حتیٰ کہ نیپال تک کے خلاف ہم نے اپنے ان فاسٹ بائولرز کو کھلایا۔ کہیں پر تو دلیری دکھا دو۔ ملتان جیسی گرمی میں اپنے فاسٹ بائولرز کو کیوں جھونک رہے ہو؟ورلڈ کپ سر پر ہے۔ انہی بدتدبیریوں کی وجہ سے یہ حال ہے کہ ورلڈ کپ میں نسیم شاہ باہر ہوچکا، حارث رئوف کے فٹ ہونے کی دعائیں ہو رہی ہیں۔ شاہین شاہ کا بھی کچھ پتہ نہیں ، کسی میچ میں ڈائیو لگائے اور پھر خدانخواستہ انجرڈ ہوجائے۔ اصولی طور پر فاسٹ بائولرز کو پی ایس ایل کے علاوہ صرف ایک لیگ میں کھیلنے کی اجازت ہونی چاہیے ۔ ایسا نہیں ہورہا۔ احسان اللہ جیسا سپیڈ سٹار آیا تھا، وہ بھی سنا ہے کہ انجرڈ ہے۔اتنے مہنگے فاسٹ بائولنگ کوچ آخر کیوں لائے جاتے ہیں؟ اس لئے کہ وہ بائولر کا ورک لوڈ مینیج کر سکیں اور انہیں گائیڈ کریں۔ ہمارے معاملہ میں ایسا کیوں نہیں ہوا؟ آخری بات رہ گئی کہ حسن علی کو شامل کرنے کی دوبارہ باتیں کیوں ہو رہی ہیں؟ بابر اعظم کا دوست ہونے کے ناتے یا اس لئے کہ دو سال پہلے جو ورلڈ کپ اس نے کھیلا تھا، اسے ہرانے میں پورا حصہ ڈالا تھا؟حسن علی کی حالیہ فارم کیا ہے؟ اس نے پچھلے دو ماہ میں زیادہ تر ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے ، وہ بھی اوسط کارکردگی کے ساتھ۔ زمان خان کو تو یقینی ساتھ رکھنا چاہیے ، نیا بائولر اگر لینا ہے تو ارشد اقبال وغیرہ کا سوچیں جس نے ایمرجنگ ایشیا کپ میں پرفارم کیا۔ بیٹنگ میں بہت کچھ طے ہے اور اسے بدلنے کی زیادہ ضرورت نہیں، البتہ صائم ایوب کی کیریبین لیگ میں جو غیرمعمولی فارم چل رہی ہے، اس کے پیش نظر اگرآئوٹ آف فارم فخر زماں کی جگہ صائم ایوب کو شامل کرنے کا بولڈ فیصلہ کر لیا جائے تو کیا ہی بات ہے۔ صائم ایوب پاکستانی اوپننگ میں وہ جارحیت اور اٹیک شامل کر سکتا ہے، جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ ہم اپنی ناقص پلاننگ کے باعث ورلڈ کپ کے لئے بہت اچھی اور مضبوط ٹیم نہیں بنا پائے۔ یہ آخری موقعہ ہے، اس میں اگر عقلمندانہ فیصلے کر لئے گئے تو ممکن ہے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم اپنی عمدہ کارکردگی سے بہت سوں کو حیران کر دے ۔

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: