اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ٹوٹا ہوا تارا …(1)۔۔۔||اسلم اعوان

اسلم اعوان سرائیکی وسیب کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتے ہیں ،وہ ایک عرصے سے ملک کے سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

اسلم اعوان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1932ء میں ہندوستان کے شہر حصار میں پیدا ہونے والے الطاف حسن قریشی ہماری صحافتی ثقافت کا درخشندہ ستارہ اور ملکی تاریخ کے ایسے شاہد ہیں جنہوں نے کم و بیش چھ دہائیوں پہ محیط قومی سفرکے نشیب و فراز کو دیکھنے کے علاوہ سیاست کے اُن تمام مرکزی کرداروں کو بھی قریب سے دیکھا اور پرکھا جو شعوری یا لاشعوری طور پہ نوزائیدہ مملکت کے بنانے اور بگاڑنے والے عوامل کا جز رہے ہیں۔ خاص طور پر سقوطِ ڈھاکہ سے پہلے اور بعد کے حالات کی تفہیم میں ان کا صحافتی حصہ قابلِ رشک ہے۔ سانحۂ بنگال کے موضوع پہ انہوں نے گزشتہ چاردہائیوں کے دوران لکھے گئے اپنے مضامین‘ تجزیے‘ رپورٹس‘ اہم شخصیات سے انٹرویوز اور اُس زمانہ کے متحرک کرداروں کے ساتھ مکالمات کو ”مشرقی پاکستان‘ ٹوٹا ہوا تارا‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع کرکے ایک طرف تاریخ کے طالب علموں کو گراں قدر موادفراہم کیا ہے اور دوسری طرف چند بڑے سانحات کے ضمن میں دفاعی معاملات کی بھی وضاحت کی ہے۔ چودہ سو آٹھ صفحات پہ مشتمل اس ضخیم کتاب میں مصنف نے پوری وضاحت کے ساتھ مؤرخین و محققین کے لیے کارآمد مواد فراہم کیا مگر جائزے کا اسلوب دلنشیں ہونے کے باوجود مضامین کی طوالت قاری کے لیے مطالب تک پہنچنے کی راہ میں حائل رہی۔
تقسیمِ ہند خاص طور پر پاکستان کی تخلیق ملکی اور عالمی سطح کے محققین کے لیے ہمیشہ دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔ اس موضوع پہ موہن داس گاندھی‘ جواہر لال نہرو‘ چودھری رحمت علی اور مولانا ابو الکلام آزاد سے لے کر متعدد مغربی محققین تک‘ سبھی طبع آزمائی کر چکے ہیں؛ تاہم کوئی مصنف اس سوال کو زیر بحث نہ لا سکا کہ تقسیم ہند کے وقت مسلمانوں کی مذہبی قیادت‘ سیکولر ہندوستان اور سیکولر لیڈرشپ مذہب کی بنیاد پر ایک الگ ریاست کے قیام پہ کیوں مُصر تھی؟ سقوطِ بنگال پر بھارتی اور بنگالی آفیسرز کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو‘ جنرل اعظم خاں‘ جنرل راؤ فرمان علی اور بریگیڈیئر صدیق سالک کی معروف کتابوں اور حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کو اہمیت کی حامل دستاویز سمجھا جاتا ہے‘ تاہم عام شہری کو متذکرہ بالا موضوعات پہ متضاد مواد کوجانچنے کی کھلے ذہن سے اجازت دینے کے بجائے مخصوص نقطہ نظر کے مطالعہ تک محدود رکھا گیا۔ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ سے قطع نظر‘ہمارے مصنفین نے تقسیم ہند اور سانحہ ٔبنگال کے متنوع حقائق کی تلبیس میں ملکی سلامتی کو تلاش کیا حالانکہ قومی سلامتی سچائی کی اشاعت کے سوا کہیں اور نہیں پائی جاتی۔ مذکورہ بالا ضخیم کتاب کے مواد کا جائزہ لینے سے قبل ملکِ عزیز کے ابتدائی پچیس سال کے مختصر عرصہ میں رونما ہونے والے واقعات کے پیچھے کار فرما عالمی و علاقائی محرکات کی توضیح اور اس عہد کے سماجیات کے علاوہ سیاستدانوں‘ دانشوروں اور صحافیوں کے ذہنی پس منظر کوسمجھنا بھی ضروری ہے‘ کیونکہ تذکرہ بالا کتاب میں شامل مواد دراصل اُسی تصور کا اسیر ہے جو اُس وقت ہمارے اخبارات اور جرائد نے پیش کیا؛ تاہم مرورِ ایام کے ساتھ برطانوی حکومت کے خفیہ تاریخی ریکارڈ کی اشاعت نے کئی حوالوں سے ہمارے تاریخی شعور اور سیاسی تصورات کو دھچکا پہنچاکر کئی مقبول کتابوں کو بیکار کردیا۔ان میں سابق صدر ایوب خان کی ”فرینڈز‘ ناٹ ماسٹر‘‘ اور مجیب الرحمن کی ”Friends and Foes‘‘ کے علاوہ ڈاکٹر صفدر محمود‘ الطاف گوہر‘ قدرت اللہ شہاب‘ صدیق سالک اور جنرل فیض احمد چشتی کی کتابیں شامل ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ تاریخی دستاویزات کے حوالے سے دسمبر 2018ء کی میڈیا رپورٹس کے مطابق جون 1947 میں اُس وقت کے برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی نے لندن میں امریکی سفیر کو بتایا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ بنگال ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونے کے بجائے ایک آزاد ریاست بننے کا انتخاب کرے گا۔امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ تاریخی دستاویزات کے مطابق دوجون 1947 کو برطانیہ میں امریکی سفیرLewis Williams Douglasنے وزیر خارجہ جارج مارشل کو ایک ”ارجنٹ اور ٹاپ سیکرٹ‘‘ ٹیلیگرام بھیجا جس میں کہا گیا تھا کہ اسی دوپہر مسٹر ایٹلی نے انہیں اپنے دفتر بلایا تھا اور تقسیم کے منصوبے کے بارے میں ”پیشگی معلومات‘‘ ان کے ساتھ شیئر کیں۔اگلے دن‘ وائسرائے ماؤنٹ بیٹن نے اس منصوبے کو ہندوستانی عوام تک پہنچایا جبکہ مسٹر ایٹلی نے اسے برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ امریکہ پہلا ملک تھا جسے تقسیم ہند کے بارے میں بریفنگ دی گئی تھی۔مسٹر ایٹلی نے سفیر ڈگلس کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پنجاب اور بنگال کے منتخب نمائندے یہ فیصلہ کریں کہ یہ صوبے کن دو بڑے علاقوں میں شامل ہوں گے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو وہ دونوں صوبے بھارت اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہو جائیں گے۔ مسٹر ایٹلی نے خیال ظاہر کیا کہ بنگال تقسیم کے خلاف فیصلہ کرسکتا ہے ‘اس صورت میں بنگال ایک علیحدہ حکمرانی تشکیل دے سکتا ہے۔ اگرچہ پہلی بار سرسیداحمد خاں نے مسلمانوں میں ہندوئوں سے الگ راہِ عمل اختیار کرنے کی سوچ متعارف کرائی تھی لیکن علامہ اقبال کے تصورِ پاکستان میں ہمیں بنگال کہیں نہیں ملتا۔ حتیٰ کہ چودھری رحمت علی کا کتابچے(Now or never)‘ جس پہ اسلم خٹک اور بیرسٹر عبدالرحیم کے دستخط ثبت تھے‘ میں بھی بنگالستان (بنگال) ‘ عثمانستان (حیدرآباد دکن) اور پاکستان پہ مشتمل تین مسلم ریاستوں کی ڈیمانڈ کی گئی تھی۔امر واقعہ یہ ہے کہ مسلم رہنمائوں کی یہ فکری تقسیم محض اتفاق نہیں تھی بلکہ یہ تمام ذہنی تغیرات انگریز کی مائیکرو لیول کی ہیومین مینجمنٹ کا شاخسانہ تھے؛ چنانچہ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پہ 1945میں جب برطانیہ نے ہندوستان چھوڑنے کا حتمی فیصلہ کر لیا تو برٹش انڈیا میں انگریزوں کی وفادار ہندو اکثریت کی نمائندہ سیاسی قیادت نے تاج بر طانیہ کو اپنے تحفظات پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ برطانوی حکومت اپنے کروڑوں وفادار ہندوئوں کو بھارت پہ ہزار سال تک حکومت کرنے والے مسلمانوں کے رحم و کرم پہ کیوں چھوڑے جا رہی ہے ؟ جس پہ برٹش مقتدرہ نے انہیں یقین دلایا کہ ہندوستان چھوڑنے سے قبل کروڑوں ہندوئوں کو یکجا اور مسلمانوں کو تین حصوں میں منقسم کرنے کے علاوہ انڈیا کے مغربی بارڈر پہ ایسی ریاست کا قیام ممکن بنایا جائے گا جو ایک طرف بھارت کو افغانوں‘ روسیوں اور ایرانیوں کی روایتی یلغار سے بچائے اور دوسری طرف دنیا بھر میں برطانوی مفادات کا تحفظ یقینی بنا سکے۔ اس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ نئی مملکت کو مغربی استعمار کے فوجی اڈوں کے عالمی قوانین کے تحت بنانے کے علاوہ تخلیقِِ بنگلہ دیش بھی تقسیم ہند کے ایجنڈا کا حصہ تھی ۔
تزویراتی لحاظ سے ساحلِ مکران سے گوادرکوسٹ اور گوادر کی بندرگاہ سے لے کر چمن بارڈر تک کی تکون‘ جسے اُس وقت جرمن اور روسی فوجوں کی بحرہند تک رسائی کا واحد راستہ سمجھا جاتا تھا‘ امریکہ و برطانیہ کے لیے کافی اہمیت کی حامل تھی۔ برصغیر چھوڑنے کے باوجود اس تکون پہ اپنا سٹریٹیجک تسلط برقرار رکھنا برطانیہ و امریکہ کے لیے ناگزیر تھا؛ چنانچہ تقسیم ہند کے فوری بعد یہاں مختلف تحریکوں اور آمریتوں کے تال میل سے ایسا سکیورٹی پیراڈئم تشکیل دیا گیا جس نے ایک طرف بھارت کو افغانستان سے ابھرنے والی شورشوں کے شعلوں سے محفوظ بنایا اور دوسری جانب سوویت یونین کی گرم پانیوں کی طرف پیشقدمی روکی۔ تیسری جانب چین کا اقتصادی محاصرہ کرکے اُس کی مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا کی ریاستوں تک رسائی مشکل بنائی گئی۔ آپ تصور کریں اگر آج ہندوستان کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ جڑی ہوتیں تو ہندوستانی مملکت شدت پسندی سے نمٹ سکتی تھی ؟(جاری)

 یہ بھی پڑھیے:

کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان

اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان

پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان

افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان

عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک

اسلم اعوان کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: