ہمیں آیتہ اللہ خمینی کے تنگ گلی کے دو کمروں کے بہت ہی چھوٹے سے گھر سے گاڑی لا کر تہران بلکہ ایران کے سب بڑے گھر سعد آباد پیلس کے سامنے اتار دیتی ہے۔ میں کئی شاہی محلات دیکھ چکا ہوں۔ میں چالیس پہلے اپنے پیارے دوست اور بھائی انجم لاشاری کے ہمراہ ڈیرہ نواب صاحب ضلع بہاول پور میں صادق گڑھ پیلس گیا تھا اور وہاں امیر آف بہاول پور سے ملاقات بھی کی تھی۔ میں 32 سال قبل سعودی دارالحکومت ریاض گیا تھا اور وہاں قصر یمامہ دیکھا تھا اور شاہ فہد بن عبدالعزیز سے ملاقات کی تھی۔ میں نے انہی دنوں میں ریاض میں ولیعہد (بعد میں بادشاہ) عبداللہ بن عبدالعزیز کے محل میں اُن سے نہ صرف ملاقات کی تھی بلکہ ان کے ساتھ کھانا بھی کھایا تھا۔ عین انہی ایام میں ،میں دو سعودی شہزادوں پرنس سلطان بن عبدالعزیز اور پرنس نائف بن عبدالعزیر کے کھانے کی دعوتوں میں شرکت کی تھی۔ میں نے 24 سال پہلےلندن میں ٹاور ہل کے شاہی محل میں غداروں کا دروازہ ، شاہی رہائش گاہیں، شاہی ہتھیار، شاہی تخت و تاج اور ایک تاج میں جڑا شہرۂ آفاق ہیرا کوہِ نور دیکھا تھا۔ انہی دنوں بکنگھم پیلس سے بگھی پر ملکہ ایلزبتھ کو باہر نکلتے دیکھا ۔ میں نے 20 سال پہلے بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں گاڑی پر شاہی محل کے گرد چکر لگایا تھا۔ میں نے انہی ایام میں پیرس میں لوئی بادشاہوں کے زیراستعمال رہنے والا محل شتو دی ورسائی دیکھا۔ میں نے دبئی، پاکستان افغانستان ، سری لنکا اور بعض دیگر ملکوں کے حکمرانوں کی سرکاری رہائش گاہوں کو بھی دیکھا ہے۔ مگر مجھے قصر یمامہ اور شتو دی ورسائی کی طرح قبائلی ، جاگیردارانہ اور غلامانہ اقتدار کا رعب اور دہشت قائم کرنے والا یہ محل سعد آباد پیلس لگا جو سابق شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کا شاہی محل تھا۔ میں مرعوب تو اُس وقت بھی ہوا تھا جب 37 سال قبل لاہور میں پنجاب کے سابق سرائیکی وزیراعلی میںاں ممتاز دولتانہ نے کہا تھا کہ شملہ پہاڑی کے قریب میرے گھر کے دروازے تک آجائیں وہاں سے گاڑی آ کر گھر کے اندر لے آئے گی۔ اب اس گھر میں ایک رہائشی سوسائٹی بن چکی ہے۔
کاخ ِ سعد آباد سے ہمیں انقلابِ روس کے رومانس میں مبتلا اپنے علامہ ڈاکٹر اقبال کی مشہور نظم میں فرشتوں کیلئے خدا کا فرمان یاد آ رہا ہے۔
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو
میں اور منظر نقوی صاحب کاخِ سعد آباد کے مرکزی دروازے کے باہر ایک بنچ پر بیٹھ کر داخلے کیلئے استقبالیہ پر کھڑے علی فاطمی کی اپنی طرف آمد کا انتظار کرتے ہیں۔
کاخِ سعد آباد ایک محل نہیں بلکہ محلات کا ایک کمپلکس ہے جس میں کئی محلات ہیں۔ امریکی صدر کا گھر وہائٹ ہاؤس 18 ایکڑ اراضی پر بنا ہوا ہے۔ جاپانی بادشاہ کا ٹوکیو کا شاہی محل 280 ایکٹر اراضی پر مشمل ہے۔برطانیہ کا بکنگھم پیلس 77 ہزار مربع کلو میٹر پر بنا ہوا ہے اور اس میں 775 کمرے ہیں۔ فرانس کے شاہی محل شتو دی ورسائی کا رقبہ 88 ایکڑ ہے۔بھارتی ایوانِ صدر 19 ہزار مربع میٹر پر مشمل ہے۔ ایوانِ صدر اسلام آباد کا رقبہ 471 ایکڑ ہے۔ اب آتے ہیں سعد آباد پیلس کمپلکس کی طرف، نیو کلاسیکل طرزِ تعمیر پر بنایا گیا محلات کا یہ کمپلکس 272 ایکڑ اراضی پرمشتمل ہے۔ اس کے اندر داخل ہونے کے بعد پہلا احساس یہ ہوتا ہے کہ آپ مری کے کسی گھنے جنگل میں آگئے ہیں۔ کبھی کبھی یہ ایوبیہ کے مضافات جیسا لگتا ہے۔ کبھی کبھی آپ اسے وادئ نیلم یا وادئ کاغان جیسا پاتے ہیں۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میں سری لنکا میں کینڈی سے نورایلیا کی طرف سفر کر رہا ہوں۔
سعد آباد پیلس کمپلکس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کمپلکس میں کئی محلات ہیں۔ اسلحہ خانہ کے محل میں ہر طرح کے ہتھیار رکھے ہیں۔ یہ ہتھیاروں کا گودام نہیں بلکہ ایک اسلحہ محل یا شوروم ہے۔ میں نے یہ شو روم نہیں دیکھا مگر ہمیں بتایا گیا کہ ہتھیار محل میں ہر طرح کا جدید اسلحہ رکھا ہے۔ ہر طرح کے پستول، ریوالور، مشین گنیں، سب مشین گنیں، بندوقیں، توپیں، کلاشنکوف جیسے خودکار ہتھیار اور نہ جانے کیا کیا۔ مگر جب عوام جاگ اُٹھے تو اس محل میں اور ہر جگہ پر، شاہ کا اور شاہ کے اقتدار کا دفاع کرنے والے سارے ہتھیار پڑے کے پڑے رہ گئے۔ وہ ہتھیار بھی پڑے کے پڑے ہیں۔ ان ہتھیاروں کو جیسے لا کر رکھا گیا یہ یونہی ویسے کے ویسے ہی پڑے ہوئے ہیں۔ شاہ ایران کو وطن سے بھاگتے ہوئے کوئی ایک ہتھیار بھی یاد نہ آیا۔
اس محل کے علاوہ یہاں شاہی ملبوسات، خلعتوں، شاہانہ پوشاکوں کے ساتھ ساتھ ملکہ، شاہ، شاہ کے والد اور والدہ ، ان کے بچوں کے لباس فاخرہ یوں سجے ہوئے رکھے ہیں جیسے یہ ابھی ابھی پھر پہنے جائیں گے مگر اب یہ کبھی نہیں پہنے جائیں گے۔ یہاں فرح دیبا، شہزادی اشرف اور دیگر شہزادیوں کے ملبوسات رکھے ہیں۔ شاہ ایران کی پہلی بیوی سے ایک بیٹی اور آخری بیوی فرح دیبا سے چار بچے تھے۔ شاہ کے چھوٹے بیٹے علی رضا نے امریکی شہر بوسٹن میں 44 سال کی عمر میں خود کشی کرلی تھی۔ شاہ کی ایک بیٹی لیلیٰ نے 12 سال قبل لندن کے ایک ہوٹل میں منشیات کے زیادہ استعمال سے اپنی جان لے لی تھی۔جب علی رضا نے خود کشی کی تو برطانوی اخبار گارڈین نے لکھا تھا کہ شہزادہ علی رضا اپنے والد اور اپنی بہن کی موت کا دُکھ نہیں بھلا سکا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کیلئے اس کے والد کی تکلیف دہ یادیں ناقابلِ فراموش ہیں۔ ان دو بچوں کے علاوہ شاہ ایران کے خاندان میں شاہ کی بیوہ فرح دیبا، شاہ کا بڑا بیٹا اور سابق ولیعہد رضا، اس کی بہن فرح ناز اور ماں کی طرف سے سوتیلی بہن شہناز شامل ہیں۔ ملبوسات محل میں سابق شاہ کے اپنے ملبوسات اور ان کے بچوں کے ملبوسات بھی رکھے ہیں۔
شاہ کے اس کمپلکس کے ایک اور محل میں ایران کی بہترین پینٹنگز رکھی ہوئی ہیں۔ ان پینٹنگز پر مشتمل ایک ضخیم خوبصورت کتاب شائع کی گئی ہے۔ لگتا ہے کہ اس کتاب میں شامل پینٹنگز کتاب سے نکل کر محل کر دیواروں پر آگئی ہیں۔ ان پینٹنگز میں ہر طرح کا میڈیم اختیار کیا گیا ہے۔ ایران فنونِ لطیفہ کا مرکز ہے۔ جس طرح فارسی شاعری میں فردوسی، حافظ، سعدی، مولانا روم اور عمرخیام دنیا میں بے مثال ہیں اسی طرح ایرانی مصوری میں 16 ویں صدی کے مصور رضا عباسی، 19ویں صدی کے کمال الملک ، گزشتہ صدی کے منیر شاہرودی، گزشتہ صدی کے حسین زندیرودی، شیریں نشاط اور دیگر مصور اورخطاط ایران کی پہچان سمجھے جاتے ہیں۔(جاری ہے)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر