اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

6 ستمبر : جنگ میں اہل قلم اور فنکاروں کا حصہ!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6 ستمبر پاکستان کی تاریخ کا اہم دن ہے ۔ 6 ستمبر 1965ء کو بھارت کی بزدل افواج نے رات کی تاریکی میں پاکستان پر حملہ کیا ، پاک افواج نے اسے بری طرح ناکام بنایا۔ بھارت کو اپنی عددی برتری کا زعم تھا ، اس نے جنگ میں ہوائی جہاز، بحری جہاز ، توپ ، ٹینک اور تمام جنگی ساز و سامان استعمال کیا ، بھارت نے لاہورکے محاذ پر 13 اور سیالکوٹ کے محاذ پر 15 بڑے حملے کیے لیکن پاک افواج نے ان سب کو ناکام بنایا ۔ 17 دن کی اس جنگ کے بارے میں امریکا کے معروف جریدے ٹائمز کے لوئس کرار نے لکھا کہ پاکستان ناقابل شکست ہے کہ وہاں کے لوگ موت کو آنکھ مچولی سمجھتے ہیں۔جب ہم سرائیکی ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو کوئی شاعر ایسا نہیں جس نے پاکستان کی محبت خصوصاً پاک بھارت جنگ کے حوالے سے نہ لکھاہو۔ اس حوالے سے سرائیکی شاعروں کے ساتھ ساتھ گلوکاروں نے بھی ملی ترانے گا کر اپنے وطن سے محبت کا ثبوت دیا۔ 6 ستمبر ، تجدید عہد کا دن ہے کہ اس دن پاکستانی افواج نے پاکستان پر حملہ کرنے والی بھارتی افواج کو ناکوں چنے چبوائے ۔ دشمن ملک بھارت پاکستان پر حملے کیلئے ایک عرصے سے منصوبہ بندی کر رہا تھا ، یہ 1965ء کی بات ہے کہ بھارتی فوج کے سپہ سالار نے بڑک ماری کہ ہم لاہور پر قبضہ کرکے لاہور جم خانہ کلب میں وسکی پئیں گے ۔ منصوبے کے تحت بھارتی افواج نے حملہ کیا مگر پاک فوج کے دلیر جوانوں نے ان کے تمام حملے پسپا کر دیئے اور ان کا غرور خاک میں ملا دیا ۔ میجر عزیز بھٹی شہید نے اپنی جان دے دی مگر بھارتی افواج کو لاہور کی BRB نہر عبور نہ کرنے دی ۔ پاک فوج کے کارنامے سنہری حروف سے لکھے جائیں گے ، 6 ستمبر کا دن یقینا تجدید عہد کا دن ہے کہ 1965 ء کی جنگ کے دوران پوری قوم بھارت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن گئی تھی ، آج پھر سے اسی جذبے اور اسی اتحاد کی ضرورت ہے ۔ قوموں پر جب بھی مشکل وقت آتا ہے تو جواں ہمت انسانوں نے جہاں بہادری کے جوہر دکھائے وہاں شاعر ،ادیب ، فنکار کسی سے پیچھے نہیں رہے ۔قومی امنگوں کو اجاگر کرنے اور قوم میں جذبہ حریت پیدا کرنے کی غرض سے 6 ستمبر 1965ء میں شعراء نے ملی اور رزمیہ گیتوں ، نظموں اور خصوصاً ترانوں کے ذریعے اپنے جذبہ حب الوطنی کا جو یادگار ثبوت فراہم کیا ہے وہ ایک قومی شعری سرمائے کے طور پر محفوظ ہو چکا ہے۔1965ء کی جنگ کے موقع پر ملکہ ترنم نور جہاں نے صوفی تبسم کا لکھا ہوا گیت ’’اے پُتر ہٹاں تے نئیں وِکدے ‘‘ مسعود رانا نے حمایت علی شاعر کے لکھے ’’ جاگ اُٹھا ہے سارا وطن، اے دشمن دین تو نے ‘‘ ترانے گائے ۔ اس کے علاوہ ولی صاحب کا ’’ یہ غازی کا قافلہ ‘‘ ، جوش ملیح آبادی کا ’’ اے وطن ہم ہیں تیری شمع ‘‘ ، آشور کاظمی کا ’’ نعرہ حیدری ‘‘ بریگیڈیئر ضمیر احمد جعفری کا ‘‘ زندہ باد اے وطن کے غازیوں ‘‘ اور حبیب جالب کا لکھا ’’ کر دے گی قوم زندہ‘‘ ترانے گائے ۔ بہت سے دوسروں کے ساتھ مہدی حسن نے ’’ اپنی جاں نذر کرو ، اب فتح مبین ہے، وطن کی آبرو رکھ لی تو نگہبان چمن ہے، ہم پسندوں کو نہیں جنگ گوارا، پاک شاہنوں کو سلام‘‘، عنایت حسین بھٹی نے ’’ وطن کو تم پر فخر ہے ، اے مرد مجاہد جاگ ذرا ، قدم بڑھاؤ ساتھیو اور زندہ دلوں کا گہواراہ ہے ، سرگودھا میرا شہر ‘‘ جیسے ترانے گائے ۔ عالم لوہار نے ’’ جگنی پاکستان دی ، ساڈے شیراں پاکستان دی ، جنگ دی جگنی ‘‘ جیسے فوک نغمے گائے۔ مجیب عالم نے ’’ اے میرے وطن ، پاکستان کے سارے شہروں زندہ رہو پائندہ رہو ‘‘ اوراستاد امانت علی خان نے ’’ اے وطن تجھ کو جنت بنائیں گے ہم، وطن پاک کی عظمت کے سہارے ہو تم اور اے شہیدان وطن تم پر سلام ‘‘ رونا لیلی نے ’’ تم کو سلام میرا اور وطن کی راہ میں جو مرتے ہیں ‘‘ جیسے ملی و جنگی ترانے گا کر نہ صرف عوام بلکہ افواج کے لہو کو گرمایا ۔بزرگ سرائیکی شعراء جانباز جتوئی ‘ صوفی فیض محمد دلچسپ ‘ امید ملتانی ‘ حسن رضا گردیزی ‘ سفیر لشاری ‘ حافظ عبدالکریم دلشاد ‘ امیر بخش خان دانش ‘ دلنور نور پوری ‘ عباس ملک ‘ ریاض ارم ‘ یتیم جتوئی ‘ امید ملتانی ‘ مشتاق کھوکھر ‘ رشید عثمانی ‘ ریاض رحمانی ‘ صوفی محمد یار بے رنگ ‘ مہجور بخاری ‘ صوفی نجیب اللہ نازش اور دوسرے سینکڑوں شعراء کا کلام پاک وطن کی محبت ، خصوصاً 1965 اور 1971 ء کی جنگوں میں رزمیہ نظموں کی شکل میں ملتا ہے۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ وسیب کے شعراء وسیب کی محرومی اور اپنے صوبے کے قیام کیلئے بھی بہت کچھ لکھتے ہیں اور بعض اوقات اس معاملے میں ان کا لہجہ تلخ بھی ہو جاتا ہے مگر جب وطن اور اس کی غیرت کا سوال آئے تو جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اگر اس موضوع پر تحقیق کرائی جائے تو بہت سی کتابیں وجود میں آ سکتی ہیں ۔ چھوٹی سی مثال دوں گا کہ سرائیکی وسیب کے شاعر عیش شجاع آبادی نے ’’ جنگ ستمبر 1965ء ‘‘ کے عنوان سے بارہ صفحات پر مشتمل نظم لکھی اور ان کی کتاب شاہنامہ پاکستان میں شائع ہوئی ، اس نظم میں پاک افواج کو خراج عقیدت پیش کیا ۔ یوم دفاع کے حوالے سے دوسری باتوں کے علاوہ وسیب کا بھی ذکر کروں گا اور بتاؤں گا کہ دوسرے علاقوں کے ساتھ ساتھ وسیب کی بھی بہت خدمات ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے لئے ریاست بہاولپور پاکستان کا حصہ بنی ،اس کے ساتھ ریاست کی افواج جس کے اکثر افسر انگلینڈ سے تربیت یافتہ تھے ۔ عجب بات ہے کہ وسیب میں پاکستان کو اپنا وطن اور اپنا ملک دیا ، آج اسے صوبہ بھی نہیں دیا جا رہا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وسیب کو صوبہ بھی دیا جائے اور پاک فوج میں وسیب رجمنٹ بھی قائم کی جائے ۔ ٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: