حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری ملتانی منڈلی کے ایک دوست ساجد رضا تھہیم ایڈووکیٹ کوپیشگی علم ہوتا ہے کہ وہ جو جملے اچھال رہے یا بات کررہے ہیں اس پر کسی سمت سے اختلافی آواز آئے گی لہٰذا وہ حفظِ ماتقدم کے طور پر پیشگی کہتے ہیں ’’معافی منگی جوکھڑاں‘‘سو ہم نے ان کی پیروی کرتے ہوئے کالم کی سرخی ہی یہ رکھی ہے ’’معاف کردیجئے گا‘‘۔
مثال کے طورپر میری رائے یہ ہےکہ یہ ریاست پچھتر برسوں سے اپنے بچے اور وسائل کھاتی چلی جارہی ہے اور اس کی جبلت میں کوئی تبدیلی معجزہ ہوگی لیکن یہ معجزوں کا زمانہ نہیں ہے۔ ویسے بھی ہم اور آپ نے معجزوں بارے صرف کتابوں میں ہی پڑھا ہے کتابوں میں جو پڑھا ہے اس پر رائے سنبھل سنبھلا کر دینی چاہیے۔
چھان پھٹک گلے بھی پڑسکتی ہے کیونکہ ہمیں اور آپ کو "خطائے اجتہادی اور سبقت لسانی” کی رعایت نہیں ملنی ہم تو پاپائیت کی دہشت کا ایندھن ہیں بس۔
معاف کیجئے گا بات کسی اور طرف نکل گئی۔ عرض یہ کیا تھا کہ یہ ریاست پچھتر برسوں سے اپنے بچے اور وسائل کھارہی ہے۔ اس کا پیٹ نہیں بھرتا دہن کو لگی لذت کی لت بھی ایک طرح کا نشہ ہے لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ ریاست بچے اور وسائل کھاتی جارہی ہے اس سے ادھر بھی ایک بات ہے وہ یہ ہے کہ افزائش نسل کا جو شوق ہم نے مولوی کی اس بات پر پالا تھا کہ ہر آنے والا اپنے حصے کا رزق ساتھ لے کر آتا ہے یہ بھی غلط تھا اور ہے۔
اولاد پالنا ان کی پیدائش کا ذریعہ بننے والے والدین کا کام ہے ان کا فرض ہے ان کے سوا کسی کا فرض نہیں۔ اب ہم ایک یا دو بچے سہولت سے پال سکتے ہوں ایسی سہولت سے کہ وہ سماج کا کارآمد حصہ بن کر ارتقا میں حصہ ڈالیں تو کیا ضروری ہے کہ ہاکی یا کرکٹ کی نصف یا پوری ٹیم تخلیق کرلی جائے؟
اس سوال کا برا مت منایئے گا کیونکہ میں نے ساجد رضا تھہیم ایڈووکیٹ کی طرح پیشگی معافی مانگ لی ہے۔
ہم ایسے لوگ نصف صدی سے چار اور بستے لوگوں کو یہ باور کرواتے چلے آرہے تھے کہ جس جغرافیائی حدود میں ہم بستے ہیں اس کے مجموعی وسائل پانچ سے سات کروڑ لوگوں کے لئے ہیں بہت کفایت شعاری کرلیں تو 10کروڑ لوگ عزت و آبرو کے ساتھ جی سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہم نے جب بھی یہ بات کہی کھٹ سے فتویٰ صادر ہوا۔ کافر زندیق ملحد ہونے کی پھبتی کسی گئی۔ ہم عرض کرتے رہے کہ بھائیو جو ہم کہہ رہے ہیں اس پر سنجیدگی سے غور کرو۔ جواباً ہمیں کٹھ ملائیت زدہ مخلوق بتاتی تھی کہ ہر آنے والا اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے۔
بہت زیادہ نہیں اپنی بیٹی سمیت دو چار نومولود بچوں کی مٹھیاں کھول کر رزق کا چیک تلاش کرنے کی کوشش ضرور کی مگر ناکامی ہوئی۔ ہونا ہی تھی کیونکہ آنے والے کے رزق کی ذمہ دار لانے والے تھے اور ہیں۔
پانچ سے سات چلیں دس کروڑ کے وسائل پر 25 کروڑ پاکستانی ایک کروڑ غیرقانونی تارکین وطن، 50لاکھ کے قریب افغان مہاجر پالنے کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ابھی تو سمگلنگ والے کاروبار کی بات نہیں کی جس میں ریاست کے بعض بڑے سرپرست و ساجھے دار کے طور پر ہمیشہ سے شریک چلے آرہے ہیں۔
اب حساب کیجئے ایک طرف تو ریاست کی مجرمانہ لوٹ مار ہے اور دوسری طرف ہم سب کا غیر ذمہ دارانہ طرزعمل مجرم کون ہوا۔ کیا صرف ریاست مجرم ہے؟ میری رائے میں ریاست اور ہم دونوں اپنی اپنی جگہ مجرم ہیں۔
چند دن قبل ان سطور میں عرض کیا تھا کہ چنے کے جھلکوں کی ملاوٹ والی پتی اور چوکر ملا آٹا فرخت کرنے والے جب منہ بھر کے کہتے ہیں ’’بس جی یہ سیاستدان چور ہیں‘‘ تو جی چاہتا ہے کہ پہلے ان کا سر پھوڑا جائے۔ مہینہ بھر قبل سڑک کے کنارے فروٹ فروخت کرنے والے سے تین کلو آم خریدے تھے گھر پہنچ کر دیکھا تو ان میں 4 آم خراب نکلے۔ اس طرح کی چوری ہیرا پھیری اور بدمعاشی کی سینکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
یہ ہمارے رویے ہیں ہمیں ان پر غور کرنا ہوگا۔
ریاست ہماری اجتماعی مجرم ہے لیکن ہم خود بھی ترتیب زندگی کی بجائے کٹھ ملائیت کی پیروی اور حقائق سے آنکھیں چرانے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ بھی ایک جرم ہے۔
ہمارے ساتھ کون کیا سلوک کررہا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ نگران وزیراعظم نے دو باتیں کیں پہلی یہ کہ بجلی چوری ہوتی ہے دوسری فوج بجلی مفت استعمال نہیں کرتی۔ پہلی بات درست ہے لیکن صرف یہ نہیں کہ بجلی چوری ہوتی ہے بلکہ بجلی چوری کے کاروبار میں 70 فیصد واپڈا کے اہلکار ملوث ہوتے ہیں۔ فوج بجلی مفت استعمال نہیں کرتی۔ اچھا ذرا یہ بتادیجئے کہ ان کے لئے فی یونٹ نرخ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب اصل حقیقت بتادے گا۔
اس قصے کو چھوڑیں ہم اصل بات کرتے ہیں یہ ریاست میری اور آپ کی مجرم ہے ہمارے بچوں کے منہ سے نوالے چھیننے والی ریاست جس نے مختلف طبقات میں اپنے ساجھے دار پال رکھے ہیں ان میں سے ہر ساجھے دار اپنا فرض بخوبی ادا کرتا ہے سیاستدان قسم کی مخلوق جمہوریت کے نام پر طبقاتی جمہوریت مسلط کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔
سرمایہ داروں کے لئے رواں مالی سال کے بجٹ میں اڑھائی ہزار ارب روپے کا ریلیف رکھا گیا پچھلے برس یہ 17سو ارب کا تھا۔ ریاست جب دیکھتی ہے کہ معاملہ ہاتھ سے نکل رہا ہے لوگوں میں ردعمل کی سوچ پنپ رہی ہے تو وہ مولویوں کو آگے کردیتی ہے۔ توہین مذہب و مقدسات کی باتوں اور گھاتوں کا بنیادی مقصد لوگوں کے جذبات کو منفی رنگ دے کر ریاست کو بچانا ہوتا ہے۔
میرے اکثر دوستوں کی سیاسی پسندوناپسند ہے (لاریب میری بھی ہے) ان میں سے کچھ عمران خان کو کوستے ہیں کچھ پی ڈی ایم اور اتحادیوں کو اللہ ان سب کو توفیق دے کہ وہ اصل مجرم کو شناخت کریں اس کے مجرمانہ کردار اور لوٹ مار پر بات کریں۔ مثال کے طور پر مالکوں نے زراعت کے نام پر نیا کاروبار شروع کردیا ہے آپ لکھ کر رکھ لیجئے یہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے بھی بدتر صورتحال سے دوچار کرنے والی روش پر عمل پیرا ہیں۔
مجھے نگران وزیراعظم کی اس بات پر ہنسی آئی کہ نادرا کے سربراہ کے لئے ٹیکنیکل بندے کی ضرورت تھی اس لئے قانون میں ترمیم کرنا پڑی۔
ظاہر ہے جس ملک میں انوارالحق کاکڑ نگران وزیراعظم بن سکتا ہے وہاں حاضر سروس جنرل نادرا کا سربراہ کیوں نہیں بن سکتا۔ اس بات کو بھی اٹھارکھئے۔ یہ سوچئے کہ ہوگا کیا بجلی کے بلوں نے لوگوں کا بھرکس نکال دیا ہے۔
گزشتہ شب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھادی گئی ہیں۔ مہنگائی کا ننگا ناچ جاری ہے۔ باردیگر عرض ہے ان سارے مسائل اور عذابوں کی جتنی ذمہ دار ریاست ہے اتنے ہی ہم سب ہیں۔ ریاست تو سدھرنے کی نہیں۔ ہمارے پاس دو راستے ہیں پہلا یہ کہ ہم خوداحتسابی کریں اپنی غلطیوں اور اندھے شوقوں سے سیکھنے کی کوشش کریں دوسرا راستہ فرار کا ہے فرار یعنی پاکستان سے زندہ بھاگ۔
اچھا 25کروڑ میں سے کتنے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں بہت تیر مار لیجئے تو ایک کروڑ باقی کے 24کروڑ کو یہیں رہنا ہے جینا مرنا ہے تو پھر زندہ رہنے کے لئے غوروفکر کیجئے۔
سب سے پہلا کام جو کرنے کا ہے وہ آبادی بڑھاتے چلے جانے کی حماقت سے نجات حاصل کرنے کا ہے۔ دوسرا کام ٹیکنیکل ایجوکیشن کو رواج دینے کا ہے تیسرا کام طبقاتی جمہوریت اور اس کے محافظ خاندانوں اور زبردستی کے مالکوں سے بغاوت کا یہ تین کام اگر ہم کرلیں تو پھر اس پوزیشن میں آسکتے ہیں کہ ریاست کو لگام ڈال سکیں ورنہ ریاست ہمارے وسائل اور بچے کھاتی رہے گی اور ہم مولویوں اور دوسروں کے بھڑکاوے میں آکرایک دوسرے کے گریبانوں سے کھیلتے رہیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر