اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نگران حکومت نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے غریب عوام پر پٹرولیم بم گرا دیا ہے۔ اب پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں تین سو سے تجاوز کر چکی ہیں۔ ہم مہنگائی کا رونا رو رہے تھے کہ مجھے اپنے گائوں سے فون آیا کہ ہمارے ہمسائے بستی مڈ الیاس کے نوجوان غلام محمد نے غربت سے تنگ آ کر دھریجہ پھاٹک پر ٹرین کے آگے لیٹ کر خود کشی کر لی ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کو پرواہ نہیں۔ نگران حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ آئی ایم ایف سے معاہدے کے نتیجہ میں ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف سے نگران حکومت نے نہیں بلکہ سابقہ حکومتوں نے معاہدے کئے۔ نگران حکومت کو اگر غریب لوگوں کے مسائل کا رتی برابر احساس ہوتا تو وہ آئی ایم ایف کے ناجائزہ معاہدوں کی پاسداری یا وکالت کرنے کی بجائے فوری طور پر آئی ایم ایف سے مذاکرات کرتی اور پاکستان کے غریب عوام کی مشکلات بیان کرکے غریبوں کیلئے ریلیف حاصل کرتی۔عجب بات ہے کہ وزیر اعظم کبھی کہہ دیتے ہیں کہ میرا اے سی بند کر دو اور کبھی کہتے ہیں کہ مہنگائی ضرور ہے مگراتنی بھی نہیں کہ لوگ ملک گیر ہڑتال کریں۔ وزیر اعظم کو کس طرح احساس دلایا جائے وہ تو جاہ و جلال کے ساتھ وزیر اعظم ہائوس بیٹھے ہیں۔ وہ صبح کے وقت ملتان کے دہلی دروازہ پر آئیں اور دہاڑی دار مزدورجو مزدوری کیلئے وہاں جمع ہوتے ہیں ان کی چہرہ کتاب پڑھیں پھر انہیں معلوم ہوگا کہ غربت کیا ہوتی ہے۔ میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو اس موضوع پرمجھے آگے لکھنے کی ہمت نہیںکہ مجھے ذہنی اذیت ہو رہی ہے۔موضوع تبدیل کرتا ہوں اور قوم اور وطن کے مسئلے پر ایک کتاب لکھ رہا ہوں اس کے کچھ اقتباسات اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں انسان پیدا ہوتا ہے اور جہاںسکونت اختیار کرتا ہے وہی اس کا وطن ہوتا ہے۔ کوئی بھی کنبہ،قبیلہ یا قوم مستقل قیام کر رہے ہوتے ہیں وہی ان کا وطن ہوتا ہے۔ کسی بھی خطے میں رہنے والی قوم کی اپنی ایک تہذیب اور ثقافت ہوتی ہے۔ قوموں کے وطن اور ان کی وطنیت کا انکار ایسا ہے جیسے کائنات کے وجود کا انکار ۔وطن اور وطنیت سے قوم بنتی ہے۔ ایک تہذیب ، ایک ثقافت اور ایک زبان بولنے والے جو کہ زمانہ قدیم سے ایک سر زمین پر اکٹھے رہ رہے ہوں ان کو ایک قوم کا فرد تسلیم کیا جاتا ہے۔ تاریخی ، ثقافتی ، جغرافیائی اور تہذیبی و لسانی اعتبار سے سرائیکی ایک الگ قوم ہے اور اس کا اپنا وطن ہے۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ سرائیکی قوم ہزار ہا سال سے اس سر زمین پر موجود ہے۔قوم نہ تو پناہ گزین بن کر باہر آئی اور نہ ہی سرائیکی قوم نے کسی دوسری قوم کے وطن پر قبضہ کیا۔سرائیکی قوم کا جو کچھ ہے اپنا ہے۔ البتہ نہایت ناگواری کے ساتھ یہ بتانا ضروری ہے کہ سرائیکی قوم کے وطن پر اس قدر قبضے ہوئے۔ قومی کی زندگی میں زبان کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ ہم نے ہر قوم کے پاس اس کی زبان میں ایک پیغمبر بھیجا تاکہ وہ واضح طورپر بیان کر سکے۔قرآن مجید کو عربی میں نازل کرنے کی حکمت بارے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر قرآن مجید کو ہم عربی کی بجائے دوسری زبان میں نازل کرتے تو عرب کے کفار کہتے کہ آیتوں کو واضح نہیں کیا گیا۔قوم اورقبیلے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ ہم نے تمہاری قومیں اور قبیلے تمہاری پہچان کیلئے بنائے ہیں۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ آسمان اور زمین کی پیدائش زبان اور رنگوں کا مختلف ہونا اس کی نشانیوں میں سے ہے۔ ان تمام باتوں سے قوم ، قبیلہ اور زبان کی حقانیت واضح ہوئی۔ جو لوگ سرائیکی کو تعصب کا نام دیتے ہیں ، دراصل حقیقت یہ ہے کہ سرائیکی ان کے تعصب کا شکار ہوتے آ رہے ہیں۔ سرائیکی قوم نے کسی سے تعصب نہیں کیا بلکہ ہزار ہا سال سے باہر سے آنے والوں کو گلے لگایا ہے۔ یہاں ایک حوالے کا ذکر کروں گا کہ قوم کے مسئلے پرابہام پیدا کیا جاتا ہے۔ قوم اوطان سے یا ادیان سے ؟ اس مسئلے پر مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ اقبال کے درمیان مباحثہ ہوا۔ مولانا حسین احمد مدنی نے کہا کہ قوم وطن سے ہوتی ہے جبکہ علامہ اقبال کا کہنا تھا کہ قوم دین سے بنتی ہے۔ اس پر مولانا حسین احمدمدنی نے قرآن مجید سے حوالہ دیا کہ اللہ جلہ شانہ‘ نے فرمایا ہے کہ ہم نے ہر قوم کے پاس ہادی بھیجااس کا مطلب یہ ہوا کہ قوم پہلے ہوتی ہے۔ وسیب کو حملہ آوروں نے خوب لوٹا۔اس بارے میں ابو زید سیرانی کتاب الہند و الصین ابن رستہ اور اعلاق النفسیہ میں اورابو القاسم ابن خردابہ کتاب الاتالیم میں مسعودی مروج الذہب میں ، ابن مہلل ، اصطخری ،ابن حوقل ) اپنے سفرناموں میں اور بشاری مقدسی احسن التقاسم میں اور ابن ندیم فہرست میں اس صنم اور صنم کدہ کے حالات تفصیل سے بیان کئے تھے۔ محمد بن قاسم فاتح ملتان کویہاں سے ایک پنڈت کے مندر کا خفیہ راستے کا انکشاف کے نتیجے میں دو سو من سونا اور ایک ہزار تیس من خاکِ طلا ء ملی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وسیب کا ذکر قدیم کتابوں میں بھی موجود ہے۔ہری یوپیا (ہری یو پی یا )کے علاوہ رگ وید میں دو دوسرے شہروںکے جو نام بھی ملتے ہیں وہ ہیں ’’ویل استھان کا ‘‘اور ’’ مہاویل استھا ‘‘۔ ان دونوں شہروں کا تذکرہ رگ وید کی پہلی کتاب کے 133ویں گیت میں ہے۔ دونوں شہروں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ ملتان کے قدیم نام ہیں۔ یہ بھی ہے کہ ملتان ماضی بعید میں اور وقفے وقفے سے ایک خود مختار سلطنت کی حیثیت سے اپنا وجود ررکھتا رہا، اس کی حدود میں مختلف وقت میں تبدیلی آتی رہی ہے۔ ملتان ، بہاول پور اور ڈیرہ غاز ی خان کے پہلے والے ڈویژن پر مشتمل علاقہ انتظامی طورپر پہلے ملتان میں قائم حکومت کے ماتحت رہے اور لسانی ، تمدنی اشتراک کا حامل بھی رہے ہیں ، تاریخ میں یہ بات ثابت ہے جو سابق ریاست بہاول پور ، ملتان کا حصہ تھی۔

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: