اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تاریخ سے ہمکلامی!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ سے ہمکلامی اس وقت نہیں ہو سکتی جب تک کتابوں کا مطالعہ نہ کیا جائے۔ وسیب کے کتب خانے کے حوالے کتابیں کھنگال رہے تھے تو یہ بات سامنے آئی کہ نجی لائبریریوں میں کتب خانہ ناصر گردیزی، موسیٰ پاک شہید کتب خانہ، سید عباس گردیزی کتب خانہ، علامہ عتیق کی لائبریری اب باقی نہیں رہی، مولانا نور احمد خان فریدی لائبریری بھی ختم ہو گئی، منشی عبدالرحمن خان لائبریری ، سب اہم بہاولپور کی سنٹرل لائبریری، اسلامیہ یونیورسٹی کی صادق لائبریری کے علاوہ زکریا یونیورسٹی کی سنٹرل لائبریری اور ملتان کی لائبریریوں میں جھوک لائبریری کی خاصت یہ ہے کہ پورے وسیب میں سب سے زیادہ سرائیکی کتابیں یہاں موجود ہیں۔ سرائیکی وسیب کی نجی لائبریریوں میں مبارک لائبریری، سیٹھ عبید الرحمن لائبریری، ملتان میں شوکت مغل لائبریری بھی ایک اثاثہ ہے اس کے ساتھ ساتھ قابل ذکر اور سب سے بڑی لائبریری جھنڈیر لائبریری میلسی پورے سرائیکستان کا فخر اور آبرو ہے، باقی دیگر جلال پور میں قاضی اللہ بخش لائبریری، جہانیاں میں اسد نظامی لائبریری اور بہت سی دیگر بھی موجود ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ کتاب دوستی قائم کی جائے اور وسیب اُس وقت ترقی کرے گا جب یہاں بڑی لائبریریاں موجود ہوں گی اور سب سے اہم یہ کہ وسیب کے ہر گھر میں چھوٹی موٹی لائبریری موجود ہو گی۔ کوٹ مٹھن میں خواجہ فرید میوزیم اور لائبریری بہتر اضافہ ہے۔ جس طرح وسیب کو حملہ آوروں نے تباہ و برباد کیا، اسی طرح وسیب کے کتب خانے بھی برباد کر دیئے گئے، ملتان کی معلوم تاریخ اُٹھا کر دیکھیں تو تین ہزار قبل مسیح سے لے کر آج تک حملہ آوروں کے سوا اس علاقے میں کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ صرف وسیب نہیں بلکہ پوری دنیا میں حملہ آوری کی تاریخ یہی ہے کہ حملہ آور سب سے پہلے کتب خانے، خطے کے آثار اور خطے کی تہذیب و ثقافت کو ملیا میٹ کرتے ہیں، ملتان کے کتب خانوں میں سید علمدار حسین لائبریری نشانی کے طور پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ لانگے خان باغ لائبریری کی ابتداء 1913ء میں ہوئی، لالہ ہری چند اس کے بانی تھے، میونسپلٹی ملتان اسے 1300 روپے سالانہ گرانٹ دیتی تھی، یہ بھی دیکھئے کہ اُس وقت کے تیرہ سو روپے شاید آج کے تیرہ کروڑ کے برابر ہوں، یہ لائبریری علمی خدمات سر انجام دیتی آرہی ہے، اس لائبریری میں قلمی نسخے اور مخطوطے بھی موجود تھے، جو کہ زیادہ تر فارسی اور انگریزی میں تھے مگر بہت سے مخطوطے سرائیکی شاعری کے بھی تھے مگر وہ اب ناپید ہیں۔ کتابوں کا مطالعہ کر رہا تھا تو اس میں وسیب کی لائبریریوں کے ساتھ ساتھ وسیب کے آثار اور مقامات بھی سامنے آئے۔ فورٹ منروڈیرہ غازیخان کا صحت افزاء مقام ہے، ڈیرے سے تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اس علاقے کے پہاڑ سے فولاد، یورینیم اور جپسم جیسے ذخائر حاصل ہوتے ہیں، ملکی و غیر ملکی سیاح بھی کثیر تعداد میں آتے ہیں، حکومت کی تمام تر توجہ دوسرے سیاحتی مقامات پر ہے، وہاں گزشتہ پچاس سالوں میں کھربوں کے وسائل خرچ ہو چکے ہیں مگر فورٹ منرو ہے پر حکومت کی کوئی توجہ نہیں مگر سوال یہ ہے کہ سرائیکی خطے سے ایساسلوک کیوں کیا جا رہا ہے۔؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ فروٹ منرو لغاری تمن میں آتا ہے، سردار فاروق خان لغاری کے بزرگوں سے لے کر موجودہ اویس لغاری اور جمال لغاری تک یہ لوگ ہمیشہ برسراقتدار رہے، ان لوگوں نے آج تک اپنے علاقے کی ترقی کی طرف کیوں توجہ نہیں دی؟ کیا ان کو احساس نہیں ہے کہ فورٹ منرو کیوں نظر انداز ہو رہا ہے؟ وڈیروں نے بھی سرائیکی خطے اور سرائیکی خطے کے غریب لوگوں کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی، اب وسیب کے نوجوانوں کو وسیب کے جاگیرداروں کے خلاف بولنے کی ضرورت ہے۔ بہاولپور میں وسیع و عریض رقبہ پر لال سونہارا پارک نیشنل پارک وجود میں آیا، 1966ء میں اس پر کام شروع مگر حکومت کی بے توجہی اور فنڈز کی عدم فراہمی پر یہ پارک بدحالی کا شکار ہے حالانکہ اس پر توجہ دی جائے تو یہ دنیا کا بہترین پارک بن سکتا ہے۔ بے توجہی کے باوجود اس پارک میں ہرن، سیاہ ہرن، چمکارہ، تلور، کشمیرہ، پھٹ تتر، بٹیر، نانگ، عقاب، حواصل، بطخ، سیاہ تتر، بھورا تتر، خرگوش، خارپشت، گدڑ، بھیڑیے، لومڑی، نیل گائے اور بہت سے پرند و چرند موجود ہیں، یہ پارک اُس وقت تک نہیں سنبھل سکتا جب تک حکومت اس پر توجہ نہیں دے گی اسے فنڈز مہیا نہیں کئے جائیں گے۔ فنڈز ملنے پر اس پارک کا شمار دنیا کے بہترین پارکوں میں ہو گا اور پوری دنیا سے سیاح اسے دیکھنے آئیں گے۔ اس پارک میں اب تک جو اچھی چیز ہے وہ اس کا نام ہے لال سونہارا پارک۔ یہ نام مقامی تہذیب و ثقافت کا غماز ہے، یہ نام جب بھی زبان پر آتا ہے تو کلیجے کو ٹھنڈک نصیب ہوتی ہے، باقی تو تمام چیزوں کے نام بگاڑ دیئے گئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ چولستان کے ساتھ ساتھ چولستان کی بہترین یادگار لال سونہارا پارک پر بھی توجہ دی جائے۔ معروف تاریخ دان اور محکمہ تعلقات عامہ کے جہاندیدہ افسر فخر الدین بلے مرحوم نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بزرگوں کا ملتان سے گہرا تعلق تھا، یہ باتیں تاریخ کا حصہ ہیں۔ڈیرہ غازیخان موجودہ پاکستان کا دل ہے، تقریباً پاکستان کے درمیان میں آتا ہے اگر اس کو ترقی دی جاتی توتمام صوبوں کو اس کا فائدہ تھا، پاکستان کے بارے میں نہیں سوچا گیا بلکہ ہر مقام پر اپنی ذات، کنبے اور قبیلوں کو سامنے رکھا گیا۔ ٭٭٭٭٭

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: