نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خدایا یہ تیرے بندے کدھر جائیں ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالیہ دنوں میں بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کے خلاف ملک بھر میں شہری سراپا احتجاج ہیں۔ بعض شہروں میں بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے دفاتر پر حملے ہوئے دو تین جگہ ان کے اہلکاروں کو مشتعل صارفین نے تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ دفاتر پر حملے اور اہلکاروں پر تشدد کی یقیناً کوئی ذی شعور شہری حمایت نہیں کرتا مگر بھاری بھرکم بلوں کی وجہ سے سارا شعور، ادب و آداب اور اخلاقیات دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ عوامی ردعمل بڑھ رہا ہے۔

گزشتہ روز نگران وزیراعظم کی صدارت میں منعقدہ اجلاس بے نتیجہ ثابت ہوا۔ ہونا ہی تھا کیونکہ پالیسی سازوں نے اصل حقائق پر بات کرنے کی بجائے صرف آئی ایم ایف معاہدے کی شرائط کا ڈھول پیٹا اور نگرانوں کو خوف دلایا کہ کسی چیز کو نہ چھیڑیں ورنہ تباہی آجائے گی اس اجلاس کے بعد 48گھنٹوں میں ریلیف کا لالی پاپ دیا گیا ہے۔

جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں 48میں سے 24 گھنٹے گزرچکے ہیں ان سطور کی اشاعت تک 40گھنٹے، 8 گھنٹے بعد کیا ہوگا؟ کم از کم مجھے یہی لگتا ہے کہ کچھ نہیں ہونا سوائے زبانی جمع خرچ، طفل تسلیوں یا زیادہ سے زیادہ بلوں کی اقساط کرالو کے ڈرامے کے۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ حکومت بھاری بھرکم ٹیکسوں کے ذریعے عوام کو لوٹ رہی ہے صرف نگران حکومت نہیں پچھلی حکومتیں بھی اس لوٹ مار میں شامل رہیں۔ پہلے پہل کے بلوں میں پی ٹی وی فیس کا بھتہ لیا جاتا تھا اب ریڈیو فیس کا بھتہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ بجلی کے ایک بل میں 14 مختلف اقسام کے ٹیکس شامل ہیں۔ حکومت کی بدنیتی کا اندازہ اس بات سے لگالیجئے کہ بجلی کے ایک بل میں تین بار جی ایس ٹی شامل کرکے وصول کیا جاتا ہے۔

بجلی کی پیداوار میں توانائی کی لاگت 29فیصد تک محدود ہے باقی 71فیصد کیپسٹی چارجز کی مد میں وصول کئے جاتے ہیں۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں صارفین سے 5 طرح کے ٹیکس وصول کرتی ہیں۔ اسی طرح پہلے بجلی کے کل استعمال پر جی ایس ٹی ہے۔ دوسری بار فیول یڈجسٹمنٹ چارجز پر اور تیسری بار بجلی کے مجموعی بل پر جی ایس ٹی وصول کیا جاتا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق بجلی کے مجموعی صارفین کی تعداد تین کروڑ 81لاکھ ہے۔

اب اگر (مثال کے طورپر) ایک صارف صرف ایک یونٹ استعمال کرے تو انہیں 3 روپے 23 پیسے فی یونٹ ایف سی سرچارجز، 20 پیسے فی یونٹ ایکسائز ڈیوٹی، ایک روپیہ 24پیسے فی یونٹ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ، ہر ماہ مختلف فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور پھر اس پر جی ایس ٹی، 35 روپے ٹی وی فیس ماہانہ، 15 روپے ریڈیو فیس ماہانہ، یہ ساری رقم جمع کرکے پھر جنرل سیلز ٹیکس کی تلوار چلائی جاتی ہے۔ فی الوقت (سرکاری ریکارڈ کے مطابق) بجلی کی مجموعی پیداواری لاگت 22 روپے 55پیسے فی یونٹ کا تخمینہ ہے۔ اس میں 16روپے 22پیسے کیپسٹی چارجز اور 6 روپے 73 پیسے انرجی چارجز ہوں گے۔

ریکارڈ کے مطابق ایل این جی سے فی یونٹ بجلی 51روپے 42پیسے، فرنس آئل سے 48 روپے 56پیسے، مقامی کوئلے سے 23روپے 52پیسے، درآمدی کوئلے سے فی یونٹ 40روپے 54پیسے، ونڈ پاور سے 33روپے 64پیسے، ایران سے لی گئی بجلی 24روپے 74پیسے، نیوکلیئر پلانٹ سے فی یونٹ بجلی 8روپے 36پیسے یونٹ، سولر سے فی یونٹ بجلی 15روپے 4پسے میں پڑے گی۔ بگاس سے فی یونٹ 14روپے 83پیسے میں پڑتی ہے۔ گیس سے 13روپے 2پیسے اور پانی سے فی یونٹ بجلی 6روپے 84پیسے کی پیداواری لاگت ہے۔ مختلف ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی کے نرخوں کو جمع تقسیم کےبعد 22روپے 55پیسے فی یونٹ کا تخمینہ ہے۔

صارفین کی درجہ بندی کے نرخ گھریلو کمرشل صنعتی اور دیہی نرخ فیول ایڈجسٹمنٹ، مختلف ٹیکسز وغیرہ سادہ سے حساب کے مطابق گھریلو صارف کو فی یونٹ 50سے 55 روپے، عام کمرشل صارف (دکاندار) کواب 60سے 63روپے میں ایک یونٹ پڑتا ہے۔

بعض معاشی ماہرین اس امر سے متفق ہیں کہ جی ایس ٹی صرف ایک بار لیا جانا چاہیے۔ فیول ایڈجسٹمنٹ کا بوجھ حکومت اٹھائے کیونکہ جب عالمی منڈی سے فرنس آئل وغیرہ سستے ملتے ہیں تو صارف کو اس کا ریلیف نہیں ملتا۔

اسی طرح لائن لاسز کا بوجھ صارف پر کیوں؟ عدلیہ، فوجی افسران اور بیوروکریسی کے تمام درجوں کے لئے مفت بجلی کی فراہمی وغیرہ بند ہونی چاہیے۔

بجلی چوروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو نا کہ اس کا بوجھ بل دینے والوں پر منتقل۔

ہم اگر خواجہ آصف کے اس دعوے کو مان لیں کہ ملک میں سالانہ 650 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے تو انہیں یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ ان بجلی چوروں کے خلاف خود ان کی حکومتوں نے کیا کارروائی کی؟ نہیں کی تو کیوں۔

حکومت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت عام صارف کی قوت خرید سے بہت زیادہ ہے اس پر نظرثانی کرنا ہوگی تاکہ تنگ آمد بجنگ آمد والی صورتحال پیدا نہ ہونے پائے۔

 

ادھر 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے گزشتہ روز اٹک جیل میں سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سے ایک بار پھر ’’تفتیشی ملاقات‘‘ کی۔

عمران خان نے بھی ایک بار پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ ’’9مئی کے واقعات میں میری پارٹی کے کارکنان ملوث نہیں نیز یہ کہ میں اس وقت گرفتار تھا میں نے کسی کو فون کیا نہ ہدایات دیں اور اشتعال دلایا‘‘۔

عمران خان 9مئی کے بعد ایک سے زائد بار یہ بھی کہہ چکے کہ جس توہین آمیز اندازمیں مجھے گرفتار کیا گیا تھا اس پر ردعمل آنا ہی تھا

یہ بھی کہ جب مجھے گرفتار ہی فوج نے کیا تھا تو احتجاج بھی چھائونی میں ’’اُن‘‘ کے دفاتر کے سامنے ہونا تھا۔

9مئی کے حوالے سے عمران خان کا یہ دعویٰ بھی رہا کہ اس دن ریاستی تشدد سے ان کے درجنوں کارکنان جاں بحق ہوئے ان جاں بحق کارکنوں کے خاندانوں کی امداد کے لئے انہوں نے بیرون ملک مقیم اپنے حامیوں سے چندہ دینے کی اپیل بھی کی تھی جس کےبعد ابتدائی طور پر سوا 8لاکھ ڈالر صرف امریکہ میں جمع ہوئے تھے

اسی طرح ان کی جانب سے 9مئی کے واقعات کے حوالے سے گرفتار اپنی جماعت کے کارکنوں کی قانونی امداد اور ان کی دیکھ بھال کے لئے بھی عطیات دینے کی اپیل کی گئی اس مد میں امریکہ اور کینیڈا سے ایک لاکھ 40ہزار ڈالر اور برطانیہ سے 3ہزار پائونڈ جمع ہونے کی ابتدائی اطلاعات تھیں۔

اب اگر ان کے جے آئی ٹی کو دیئے گئے تازہ بیان کو حتمی اور درست مان لیا جائے تو پھر یہ سوال بنتا ہے کہ جب 9مئی کے واقعات میں ان کی جماعت کے کارکنان ملوث ہی نہیں تو انہوں نے درجنوں کارکنوں کی اموات کے دعوے پر چندہ مہم کیوں چلائی اور گرفتار شدگان کی قانونی امداد اور دیکھ بھال کے لئے عطیات کی اپیل کیوں کی نیز یہ کہ وہ مجموعی رقم گئی کہاں؟

تلخ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان ایک ہی وقت میں ایک ہی معاملے پر دو مختلف باتیں کرتے دیکھائی دیتے ہیں جیسا کہ 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے ان کے بیانات ہیں۔

وہ عدالتی درخواستوں اور جے آئی ٹی کو بیان میں کہتے ہیں 9 مئی کے واقعات سے میرا اور میری جماعت کا کوئی تعلق نہیں لیکن سزا ہونے سے قبل کے اخباری بیانات اور ویڈیو تقاریر و پیغامات میں 9 مئی کو اپنی گرفتاری کا ردعمل قرار دیتے رہے۔ انہوں نے ہی 9مئی کو 25افراد کے جاں بحق ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

اچھا نہیں لگتا کہ یہ کہا جائے کہ ان کے لئے ہر معاملہ اس لئے اہم ہے کہ اس کی بنیاد پر انہوں نے بیرون ملک چندہ مہم شروع کرنا ہوتی ہے۔

ان چندوں میں جمع رقوم کے حوالے سے ان پر ماضی میں اعتراضات بھی ہوئے اور سوالات بھی اٹھائے گئے گو ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہمارا سوال صرف یہ ہے کہ اگر 9 مئی کے واقعات میں ان کی جماعت کے کارکنان شامل نہیں تو انہوں نے مبینہ 25جاں بحق کارکنوں کے خاندانوں کی مدد اور 10 ہزار سے زائد گرفتار کارکنوں کی قانونی معاونت اور دیکھ بھال کے لئے چندہ مہمیں کیوں چلوائیں؟

یہ بھی پڑھیں:

About The Author