آزادی ٹاور، بادشاہت کی یادگار سے انقلاب کی آماجگاہ بننے تک
ہم نیشنل میوریم ایران کی عمارت سے باہر آکر گاڑی میں بیٹھ جاتے ہیں۔ اب ہماری منزل آزادی ٹاور(برج آزادی) ہے۔ جو یہاں سے 9.2 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ہماری ایک طرف تہران ٹیکنیکل اسکول ہے اور دوسری جانب ایران کا نیشنل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میوزیم ہے۔ ہم آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہم ایران فنڈر کے مقام پر بائیں جانب کو مڑ جاتے ہیں۔ یہاں پر غالباً آلات موسیقی کی مارکیٹ ہے۔ اسی موڑ پر مڑنے سے ذرا پہلے ہی سامنے درختوں اور پودوں کے ایک بڑے باغ میں گھری روسی سفارتخانے کی عمارت نظر آتی ہے۔ اب ہم بائیں جانب مڑ چکے ہیں۔یہ نیشنل لوشاتو اسٹریٹ ہے۔ ذرا آگے چلنے کے بعدتھیٹر کمپلکس کے بورڈ پر نظر پڑتی ہے۔ پھر آگے شہرزاد تھیٹر کمپلکس ہے۔آگے چلتے ہیں تو کودک گوچانا کا بورڈ دیکھتے ہیں۔ یہ پاساژ شانزلیزہ کیا ہے؟ شانزے لیزے تو ہم نے پیرس میں دیکھا تھا۔ ہم نے پیرس میں لوور میوزیم سے قوسِ آزادی تک پیدل سفر کیا تھا۔ جی ہاں! ہم آزادی ٹاور دیکھنے جا رہے ہیں تو شانزے لیزے سے مماثل کوئی چیز تو سامنے آئے گی۔ یہ زی ہوسٹل تہران کا بورڈ کیا ہے؟ یہاں زی کا کیا کام، پھر زی کا ہوسٹل؟ ؟ بہرہال ہمیں آگے ہی بڑھنا ہے۔ کچھ آگے چل کر ہم دائیں جانب مڑ جاتے ہیں۔ کچھ دیر بعد یوٹی کلب پارک آجاتا ہے، جہاں سے گاڑی بائیں جانب کو مڑ جاتی ہے۔ آگے شمیم انسٹیٹیوٹ کا بورڈ نظر آتا ہے۔آگے میدانِ انقلاب کااسلامی میٹرو اسٹیشن ہے۔ بس اب ہم آزادی ٹاور پہنچ چکے ہیں جو تہران کے دسویں ضلع میں واقع ہے۔
اس ٹاور کا ڈیزائن آرکیٹکٹ انجینئر حسین امانت نے تیار کیا تھا۔ اس کا سنگ بنیاد 1967ء میں رکھا گیا۔ اس پر تعمیر کا آغاز مئی 1969ء میں ہوا اور یہ اکتوبر 1971ء میں مکمل ہوا۔ جب ایران اور تہران کی شناخت بننے والے اس ٹاور کی تعمیر شروع ہوئی تو اسے شاہ یاد کا نام دیا گیا مگر چندسال کے اندر اندر یہ شاہ کی یاد نہ رہا بلکہ انقلاب کا میدان بن گیا۔ ہم نے اسی چوکِ آزادی پر انقلابِ ایران کو برپا ہوتے دیکھا۔
ہماری گاڑی آزادی ٹاور کے چوک کی مغرب میں پارکنگ ایریا کے قریب ہمیں اُتار دیتی ہے۔ ہمارے دائیں جانب کوہِ البرز کے پہاڑی سلسلوں کی چوٹیاں نظر آ رہی ہیں۔ جو شمال میں کیسپیئن سمندر تک چلی جاتی ہیں۔ کوہِ البرز کے پہاڑی سلسلوں میں تہران کے پہاڑ کوہِ توچل، کوہِ دماوند نظر آتے ہیں ۔ یہاں زاگروس کا پہاڑ بھی اپنی چوٹیوں سے تہران کو جھانک کر دیکھتا نظر آتا ہے۔ دائیں جانب کھلے شہر کی پھیلی ہوئی وسعتیں نظر آتی ہیں۔ ہم مشرق کی طرف ٹاور کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ سامنے اس کا شرقاً غرباًگیٹ وے ہے جبکہ شمال سے جنوب میں بھی گیٹ وے موجود ہے مگر وہ مرکزی گیٹ وے سے قدرے چھوٹا ہے۔ آزادی ٹاور کیا ہے؟ بس یہی گیٹ وے کا حسن ہے۔ ہماری طرف دُھوپ ہے اور سائے مشرق کی جانب بڑھتے جا رہے ہیں۔ سورج ہمارے پیچھے ہے۔ اور ہم اپنے ہی سایوں کے تعاقب میں چل رہے ہیں۔ ہمارے سامنے ایک بہت بڑا حوض یا تالاب نظر آ رہا ہے۔ اس کا اپنا آرٹ ہے۔ ہم اہستہ اہستہ چلتے چلتے آزادی ٹاور کے بالکل نیچے آجاتے ہیں اور مبہوت ہو کر اس ٹاور کے حُسن کے ہر زاویے کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ اس ٹاور کا نقشہ بنانے میں ڈرائینگ اور جیومیٹری کے بڑے تجربات کئے گئے ہوں گے۔ ٹاور کے گیٹ وے کے کالم تقریباً 45 سے 80 ڈگری زاویے کے درمیان کھڑے کئے گئےلگتے ہیں۔ ان کالموں کو محراب کی طرح انہی زایوں پر بلندی کی طرف اُٹھایا گیا ہے ۔ شمالی اور جنوبی گیٹ وے نسبتاً چھوٹے ہیں مگر یہ ٹاور کے حُسن اور دبدبے میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اب دبدبے کو دہشت کے مترادف نہ سمجھ لیجئے گا۔ ہم نے اسی اسٹرکچرکو ہی ٹاور سمجھ لیا تھا اور اسی کو دیکھنے پر اکتفا کئے ہوئے تھے بلکہ مطمن بھی تھے۔ مگر کچھ ہی دیر بعد معلوم ہوا کہ یہاں اس آزادی ٹاور کے نیچے ایک جہانِ دیگر آباد ہے۔ نیچے ایک شہر ہے، بازار ہے۔ میوزیم ہے۔ اس ڈیزائن کو بناتے ہوئے انجینئر حسین امانت نے کلاسیکل اور مابعد کلاسیکل ایرانی طرزتعمیر کو پیشِ نظر رکھا تھا۔ شاہ ایران نے اس ٹاور کو آریا مہر بادشاہت کی علامت کے طور پر تعمیر کرایا تھا مگر اپنی تعمیر کے آٹھ سال بعد یہ ٹاور انقلاب کی آماجگاہ بن گیا۔
شاہ ایران نے اس ٹاور کو اپنے 1960ء کے “سفیدانقلاب” کی یادگار کے طور پر تعمیر کرایا مگر یہ شاہ کے اقتدار کی کایا پلٹ کے انقلاب کی علامت بن گیا۔ شاہ ایران اسے ایرانی بادشاہت کی نشاہ ثانیہ سمجھ رہا مگر شاہ کے گھر کے چراغ اسی آزادی چوک پر ہی گُل ہوئے۔ یہاں پر جب 2015ء میں مشرقی اور مغربی جرمنی کے دوبارہ انضمام کا جشن منایا گیا تو جرمن آرٹسٹ فلپ گیسٹ نے اسے دنیا کا دروزہ قرار دیا۔ یہاں اس ٹاور کے نیچے ایک نئی دنیا آباد ہے۔ میں ٹاور کی مشرقی سمت میں لوہے کی ایک ریلنگ کے پاس ایک بنچ پر آکر بیٹھا۔ منظر نقوی صاحب بھی آکر بیٹھ گئے۔ ایسے میں محمد رضا شعبانی آئے اور ٹاور کے زیرزمین کے علاقے میں چلنے کیلئے کہا۔ ہم اُٹھ کر اُن کے ساتھ چلے گئے۔ اتنے میں اویس ربانی اور زین نقوی بھی پہنچ گئے۔ ہماری لئے ایک نئی دنیا منکشف ہو رہی تھی۔ یہاں میوزیم کے علاوہ کانفرنس ہال، یہاں زیرزمین ہی کئی راستے نکلتے ہیں جو شہر کےُمختلف علاقوں کی طرف جاتے ہیں۔ یہاں سے سعیدی ایکسپریس وے، کاراج اسپیشل روڈ، محمد علی جناح ایکسپریس وے اور آزادی اسٹریٹ کی طرف سفر کیا جا سکتا ہے۔ یہاں پر زیرزمین ریلوے اسٹیشن بھی ہے مگر ہم اس علاقے کی طرف نہیں جاتے۔ بلکہ ہم ایک قسم کے کیمرہ میوزیم میں آجاتے ہیں۔ ہم میڈیا کے لوگوں کو کیمروں سے بڑی دلچسپی ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جب سے کیمرہ ایجاد ہواہے تب سے لے کر اب تک کیمروں کی ایجاد میں جس قدر ندرتیں پیدا ہوئیں، جیسے اور جس قسم کے بھی نئے کیمرے مارکیٹ میں آئے۔ وہ سب یہاں پر رکھے گئے ہیں۔ کیمرے کی ایجاد کو دو صدیوں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلا کیمرہ 1816ء میں ایک فرانسیسی جوزف نائیسفور نے ایجاد کیا مگر کیمرے کی ایجاد پر صدیوں سے کام ہو رہا تھا۔ فرانسیسی موجد نے سب سے پہلی تصویر 1826ء میں اتاری۔ جب اٹلی کے ثقافتی، جرمنی کے فلسفیانہ، برطانیہ کے سائنسی اور فرانس کے سیاسی انقلاب کے پہلو بہ پہلو یورپ میں صنعتی انقلاب رونما ہوا تو نت نئی ایجادات سامنے آنے لگیں۔ مگرسائنس 945ء سے 1040ء تک 95 سال کی عمر پانے والے ایک ہزار سال پرانے زمانے کے مسلمان سائنسدان ابن الہیثم کو یہ کریڈٹ دیتی ہے کہ چیزوں کی کیمرے کی آنکھ سے دیکھنے کا تصور انہوں نے پیش کیا تھا ۔ انسان فاصلوں کو سمیٹنے لگا اور واقعات کے عکس کو قید کرنے لگا۔ آزادی ٹاور کے اس کیمرہ میوزیم میں مجھے دوصدیوں میں استعمال ہونے والے سارے کیمرے نظر آئے۔ پھر ہم خودکار زینوں کے ذریعے ایک شاپنگ ایریا سے گزرتے ہوئے ایک لفٹ کے پاس جاپہنچے۔ رضا شعبانی نے لفٹ کا بٹن دبایا ۔ اوپر سے نیچے آئی اور ہمارے سامنے آکر رُک گئی۔ ہم سب لفٹ میں سوار ہوگئے۔ وہ چار منزلیں طے کر کے اوپر لے آئی، پھر ایک اور لفٹ نے منزلیں طے کیں اور ہم آزادی ٹاور کی چھت کے قریب پہنچ گئے۔ بس ایک منزل مزید سیڑھیوں کے ذریعے ہم اوپر پہنچے ۔ یہ آزادی ٹاور کی چھت ہے۔ ہمیں یہاں سے بہت قریب جہازوں کے ٹیک آف اور لینڈنگ کے مناظر دکھائی دے رہے ہیں۔ تہران کا مہرآباد ایئرپورٹ ہے جو اندرونِ ملک پروازوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ ہمیں شمال میں میلاد ٹاور نظر آ رہا ہے۔ دور دور تک تہران پھیلا ہوا لگتا ہے۔ تاحد نظر شہر کی عمارتیں اور پہاڑوں کی چوٹیاں ہیں۔
ہم کچھ دیر آزادی ٹاور کی چھت پر رہتے ہیں اور پھر واپس اُتر آتے ہیں۔ اب ہم نے ہوٹل واپس جانا ہے اور یہ ہماری تہران میں دوسری رات ہوگی۔ آج پیر کا دن گزر گیا۔ منگل کے روز صبح جلدی اُٹھنا ہے اور کوہِ البرز کے دامن میں متوسط طبقہ کی آبادی کے دو کمروں کے ایک چھوٹے سے گھر میں جا نا ہے جسے انقلاب کے بعد رہبرِ انقلاب آیتہ اللہ خمینی نے کرائے پر حاصل کرکے رہائش اختیار کی تھی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر