اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان کی روشن اقلیتیں! !۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جڑانوالہ کے واقعہ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، حکومت مسیحی برادری کی تباہ حال بستی کی بحالی کا کام کر رہی ہے مگر جو دل ٹوٹے ہیں ان کو کون جوڑے کرے گا؟ میرے سامنے صحافی دوست علی احمد ڈھلوں کی کتاب ’’پاکستان کی روشن اقلیتیں‘‘ موجود ہے، یہ کتاب پاکستان کے لئے اقلیتی برادری کی خدمات اور ان کے تعارف کے حوالے سے ہے، کتاب کے تین ابواب ہیں اور اس میں 89 شخصیات کا تذکرہ ہے، کتاب کی افادیت بارے عارف نظامی ، جاوید احمد غامدی، ڈاکٹر طاہر القادری، امیر العظیم، پیٹرک میکنا مارا اور ولیم ای سونگ کے تاثرات شامل ہیں۔ کتاب میں آپ آزاد ہیں کے عنوان سے قائد اعظم محمد علی جناح کے اقلیتوں بارے فکر انگیز خیالات شامل ہیں۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ پاکستان کے قیام کے بعد محض 13 ماہ زندہ رہے، ان کے دور میں وزیر قانون ہندو تھے، وزیر خارجہ کا تعلق بھی اقلیتی فرقے سے تھا۔ لیکن قائد اعظم کی وفات کے بعد ایسا نہ ہو سکا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے تاثرات میں لکھا ہے کہ اسلام شرفِ انسانیت کا علمبردار دین ہے، ہر فرد سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسا اصول یا ضابطہ روا نہیں رکھا گیا جو شرف انسانیت کے منافی ہو۔ کتاب کے پیش لفظ میں محترم علی احمد ڈھلوں لکھتے ہیں کہ پاکستان کی روشن اقلیتیں‘‘ میری طرف سے پاکستان میں بسنے والی غیر مسلم اقلیتوں کے لیے محبت بھرا تحفہ ہے۔ اس کتاب کو لکھنے کا خیال اس وقت آیا جب حالیہ برسوں میں ہونے والی مردم شماری میں یہ محسوس ہوا کہ اس ملک میں بسنے والی اقلیتوں کا تناسب محض 3.5 فیصد رہ چکا ہے جبکہ یہ تناسب 1998ء کی مردم شماری میں 4.5 فیصد کے قریب تھا، اس طرح دو مردم شماریوں کے دوران مذہبی اقلیتوں کی تعداد میں 1 فیصد کمی آئی ہے، یعنی ان 22 سال میں 20 لاکھ اقلیتی افراد نا مساعد حالات کے باعث پاکستان سے ہجرت کر گئے۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن امر یہ کہ 1947ء میں متحدہ پاکستان میں 77 فیصد مسلمان اور 23 فیصد غیر مسلم آباد تھے۔ علی احمد ڈھلوں مزید لکھتے ہیں کہ 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے جماعت احمدیہ کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے غیر مسلم قرار دینے کے بعد اقلیتوں کے تناسب میں اضافہ ہونا چاہئے تھا لیکن یہ تعداد مسلسل کم ہوتی رہی۔ پاکستان کی روشن اقلیتیں ، اس کتاب کو ہم معلومات کا خزانہ اور بہترین انسائیکلو پیڈیا بھی کہہ سکتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت تمام اقلیتوں نے نوزائیدہ مملکت کیلئے پاکستان کو اپنا وطن سمجھ کر دل و جان سے اپنا اپنا حصہ ڈالا ۔ ان کی خدمات کا تاریخ میں حقائق کا ناقابل فراموش باب ہے۔ علی احمد ڈھلوں نے اقلیتوں کی خدمات کا جو تفصیلی تعارف کرایا ہے ان کی شہ سرخیاں اس طرح ہیں۔ جوگندر ناتھ منڈل (1904-1998ء )۔ مسلم لیگ اور پاکستان کیلئے ان کی بے مثال قربانیاں ہیں ، قائد اعظم ان پر بہت اعتماد کرتے تھے، قائد اعظم کی کابینہ میں قانون کے وزیر تھے۔ دیوان بہادر ایس پی سنگھا (1893-1948ئ) کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ آپ کے تین فیصلہ کن مسیحی ووٹوں سے آدھا پنجاب پاکستان میں شامل ہوا۔ ارد شیر کائوس جی (1926-2012ء ) آپ کے قائد اعظم سے خاندانی مراسم تھے ، قائد اعظم کی وفات کے بعد وہ عمر بھر جناح کا پاکستان تلاش کرتے رہے۔ دارا ایف دستور ، نوشیر ایف دستور یہ دونوں بھائی قائد اعظم کے مشیر مالیات تھے ، دونوں بھائیوں کا کراچی ، لاہور سٹاک ایکسچینج کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے۔ لالہ نارائن گجرال ، سر وکٹر ایلفرڈ چارلز ٹرنر کی بھی بہت خدمات ہیں۔ ایک اور بہت بڑی شخصیت جن کا تعلق سرائیکی وسیب کے ضلع میانوالی سے ہے جگن ناتھ آزاد (1918-2004ئ) کے بارے میں علی احمد ڈھلوں نے لکھا کہ آپ کی روح پاکستان میں بستی تھی اور جسم ہندوستان میں تھا، انہوں نے ہمیشہ پاکستان کو اپنا وطن اور اپنی سرزمین قرار دیا ، ان کا شعر دیکھئے : اے مری ارض وطن ! اے ارض پاکستان سلام بھیجتا ہے آج تجھ پر تیرا اک مہماں سلام راجہ تری دیورائے (1933-2012ء ) بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد انہوں نے پاکستان میں رہنا پسند کیا اور چکمہ قبائل کی بادشاہت چھوڑ دی ۔ ہالینڈ کی 25 سالہ نن نے عمر بھر پاکستان کے بے گھر ، معذور ، یتیم بچوں اور بے سہارا بوڑھوں کی خدمت کی۔ ڈاکٹر عبدالسلام (1922-1996ء ) پاکستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ہیں، ان کا تعلق وسیب کے ضلع جھنگ سے تھا۔ سر ظفر اللہ خان (1893-1985ء ) پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ تھے، دسمبر 1931ء سے جون 1932 تک آل انڈیا مسلم لیگ کے منتخب صدر رہے۔ جنرل سر فرینک والٹر مزروری پاکستان کی فوج کے پہلے کمانڈر انچیف تھے، انہوں نے مختلف جنگوں میں حصہ لیا۔ جنرل سر ڈگلس ڈیوڈ گریسی پاکستانی فوج کے دوسرے کمانڈر انچیف رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل عبدالعلی ملک نے 1965ء کی جنگ میں بھر پور حصہ لیا۔ میجر جنرل افتخار جنجوعہ پاکستان کے واحد جنرل تھے جنہوں نے دوران جنگ فرنٹ لائن پر دشمن کا مقابلہ کیا۔ میجر جنرل جولین پیٹر پاکستان آرمی کے پہلے کرسچین جنرل تھے۔ میجر جنرل کیزاڈ مانک (سپاری والا) ، میجر ہرچرن سنگھ، ائیر وائس مارشل ایرک گورڈن ہال، ائیر کموڈور ڈبلیو جے ایم تورووچ ، ائیر کموڈور نذیر لطیف، ونگ کمانڈر مارون لیسلائی ، سکوارڈن لیڈر پیٹر کرسٹی ، سیسل چوہدری ، فلائیٹ لیفٹیننٹ جاوید اقبال (تمغہ جرات) سمیت اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے دیگر شخصیات کا تذکرہ شامل ہے۔ کتاب میں دیگر شخصیات کے حوالے اور ان کے کارنامے تفصیل سے درج کئے گئے ہیں، دل کرتا ہے کہ ایک ایک کا تذکرہ کروں مگر کالم کی گنجائش کو مد نظر رکھتے ہوئے اتنا کہوں گا کہ قائد اعظم کے فرمان ’’پاکستان میں بلا رنگ و نسل و مذہب تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں ‘‘پر عمل کی ضرورت ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ جڑانوالہ واقعہ پر ہم شرمندہ ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت ، اسرائیل اور دنیا کے بعض غیر مسلم ممالک میں مسلمان مذہبی انتہاء پسندی ، تعصب اور تنگ نظری کا شکارہوتے آ رہے ہیںمگر ہم نے پاکستان میں یہ تاثر قائم کرنا ہے کہ یہاں کوئی مودی جیسی ذہنیت والا شخص نہیں رہتا ۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: