حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالیہ عرصے میں رونما ہونے والے سانحہ جڑانوالہ کے بعد مختلف الخیال سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین اور خود نگران وزیراعلیٰ پنجاب اور نگران صوبائی کابینہ کے علاوہ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بھی جڑانوالہ پہنچ ک مسیحی بہن بھائیوں کی دلجوئی کی اور انہیں یقین دلایا کہ دکھ کی اس گھڑی میں پوری قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔
اطلاعات کے مطابق پنجاب حکومت نے اعلان کردہ فی خاندان امداد کے چیک بھی متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کردیئے ہیں اسی طرح ملک بھر سے بعض سماجی تنظیموں اور شخصیات نے بھی متاثرین کی دلجوئی کے ساتھ ان کی بحالی کے لئے مقدور بھر سامان مہیا کیا۔
امداد یقین دہانیاں محبتوں اور یکجہتی کے عملی مظاہرے بلاشبہ قابل تحسن ہیں البتہ اس سانحہ کی دو بڑی وجوہات اولاً منشیات کی کھیپ اور سماج دشمن افراد کے کارروائی کے بغیر رہائی کے مطالبہ پر ہوئی تلخ کلامی اورثانیاً ایک مقامی مسجد سے مبینہ توہین کے الزام کا اعلان کرنے والے شخص کا مقامی مسیحی شخص سے لین دین کا جھگڑا ہر دو کی تحقیقات بہت ضروری ہے۔ بظاہر ایسا لگ ہا ہے کہ ان دونوں معاملات پر مٹی پائو پروگرام چلایا جارہا ہے
حالانکہ ان کے حوالے سے سچ جھوٹ کا واضح ہونا اس لئے ضروری ہے کہ آزادانہ تحقیقات سے پورا سچ سامنے آنے پر مستقبل میں ایسے افسوسناک واقعات کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے۔
اس سانحہ میں مسیحی برادری کی جو رجسٹرڈ اور غیررجسٹرڈ عبادت گاہیں تباہ ہوئیں اور مقدس مسیحی کتب کی بے حرمتی کے جو واقعات ہوئے اس سے ہمارے سماج میں پھلی پھولی اس شدت سندی کا ادراک مشکل نہیں جو محض آوازوں اور الزام پر ہر چیز کو تہس نہس کردیتی ہے۔
اعتدال، توازن، معاملہ فہمی، زندہ معاشروں کے روشن پہلو ہوتے ہیں افسوس کہ ہم ان سے نہ صرف محروم ہیں بلکہ ہم میں سے ہر شخص اپنی ذات میں مدعی، وکیل، جج اور جلاد بننے کے جنون کا شکار ہے۔
جڑانوالہ کی مقامی مسیحی برادری اس امر پر بھی شاکی ہے کہ حالیہ سانحہ کے ایک مرکزی کردار کو مقامی انتظامیہ سے وزیراعظم کی آمد تک ہر جگہ خصوصی پروٹوکول دیا گیا جبکہ اصولی طور پر اس کردار کو سب سے پہلے گرفتار کیا جاناچاہئے تھا ۔
سانحہ کے ایک مرکزی کردار پر انتظامیہ کی خصوصی نوازشات سے ہی یہ تاثر پختہ ہوا ہے کہ بس جو ہوگیا اس پر صبر کریں، امداد لیں، محبت بھرے جملوں سے پیٹ بھریں تن ڈھانپیں اور سانحے کو بھول جائیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ سوچ صریحاً غلط ہے اور اس سے نہ صرف وہ سماجی وحدت قائم نہیں ہوپائے گی جو مستقبل میں اس طرح کے واقعات کو روکنے کےلئے ضروری ہے بلکہ متاثرہ شہر کے مختلف طبقات میں پیدا ہوئی بداعتمادی کا خاتمہ بھی نہیں ہوسکے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مٹی پائو پروگرام پر عمل کرنے کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے۔
یہ امر بھی بطور خاص مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے انسان دوستی کی تلقین نقصان کی تلافی مثبت عمل ضرور ہیں مگر صرف ان دو کی بنیاد پر اس خلیج کو کم کرنا بہت مشکل ہوگا جو حالیہ سانحہ سے پیدا ہوئی۔
متاثرہ شہر میں ظاہری طور پر حالات یقیناً معمول پر آرہے ہیں مگر ان دوریوں اور نفرتوں کا علاج بھی ضروری ہے اور علاج صرف پسندوناپسند کے بغیر سانحہ کے حقیقی کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے سے ہی ممکن ہے۔
اس امر پر دو آراء نہیں کہ پاکستان میں جہاں غیرمسلم مذہبی برادریوں کی قیام پاکستان کے وقت مجموعی تعداد ساڑھے 12فیصد تھی اس میں سے تقریباً 6 فیصد آبادی مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کی صورت میں کم ہوئی باقی ماندہ ساڑھے 6 فیصد میں پچھلے 52 سال میں مجموعی طور پر اڑھائی سے تن فیصد کمی ہوئی۔
بظاہر اس کمی پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ 52 برسوں میں اڑھائی سے تین فیصد غیرمسلم برادریوں کے شہریوں کا وطن عزیز کو چھوڑ کر مستقل بنیادوں پر دیگر ممالک میں جابسنا معمولی بات ہرگز نہیں۔
نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت مذہبی استحصال، غیرذمہ دارانہ برتائو، حقارت آمیز سلوک اور غیرمساوی نظام کو اس کا ذمہ دار قرار دیتی ہے ۔
ہماری دانست میں نہ صرف ان خرابیوں کا کسی تاخیر کے بغیر علاج کیا جانا چاہیے بلکہ سماجی و قانونی ناہمواریوں کے بھی تدارک کی بھی اشد ضرورت ہے۔
مسیحی و دیگر غیرمسلم برادریوں کی اہم ترین شکایت سماجی ناہمواری کے حوالے سے ہے انہیں یہ بھی شکوہ ہے کہ اچھی ملازمتوں کے دروازے ان پر بند ہیں جس کی وجہ سے اکثریت کو صرف عملہ صفائی کے اہلکار کے طور پر بھرتی ہونا پڑتا ہے۔ یہ شکایت کسی حد تک درست ہے۔
اسی طرح ماضی میں نرسنگ کے شعبہ میں مسیحی برادری کی بچیاں سب سے زیادہ ہوتی تھیں اس شعبہ میں 1980ء کی دہائی کے بعد متشدد ذہنیت کے حامل افراد کا انتظامی عہدوں پر آنا نرسنگ کی مسیحی طالبات کے لئے زہر قاتل ثابت ہوا۔
یہ شکوہ بھی بجا ہے کہ خود دستور پاکستان کی بعض شقیں شہریت کی جس طور درجہ بندی کرتی ہیں یہ آج کی مہذب دنیا میں کسی بھی طرح قابل قبول نہیں۔
جڑانوالہ کے حالیہ سانحہ کے بعد مسیحی مذہبی برادری کے مذہبی رہنمائوں، اہل دانش اور سانحہ سے متاثرہ شہریوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ سانحہ کے دوران ان کے مقدس مقامات اور مقدس کتب کی توہین کا توہین مقدسات و مذہب کے موجود قوانین کے تحت مقدمہ درج کیوں نہیں کیا گیا۔
ان کی جانب سے جس اہم سوال کی طرف توجہ دلائی گئی وہ بانی پاکستان محمدعلی جناح کی 11 اگست 1947ء کی تقریر ہے جس میں جناح صاحب نے مختلف الخیال، مذاہب اور نسل کے لوگوں کو یکساں حیثیت کا پاکستانی شہری قرار دیتے ہوئے ان کے حقوق کے تحفظ کا ذمہ دار ریاست پاکستان کو قرار دیا تھا ۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ان دو اور دیگر سوالات سے آنکھیں چرانے سے کام نہیں چلے گاشہری و مذہبی آزادیوں کے حوالے سے غیرمسلم مذہبی برادریوں کو کم از کم وہ حقوق پاکستان میں ملنے چا.ئیں جن سے پاکستانی مسلمان اپنے غیرمسلم ریاستوں میں مستقل یا عارضی قیام کے دوران استفادہ کرتے اور اس مساوات کی فخر سے مثالیں پیش کرتے ہیں ۔
مکرر اس امر کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ اگر صرف اس نکتہ پر غور کرلیاجائے کہ پچھلے 52برسوں میں غیرمسلم برادریوں کی مجموعی آبادی کا اڑھائی سے تین فیصد کیوں کم ہوا تو ہماری اجتماعی دانش کے لئے بہت آسانی ہوگی مسئلہ کا حل تلاش کرنے میں۔
سانحہ جڑانوالہ پر شہریوں کے مختلف الخیال حلقوں کا ردعمل بجا طور پر درست ہے۔ معاشرے ظلم و حقارت اور ناانصافی پر نہیں محبت، مساوات اور انصاف پر قائم رہتے ہیں۔
آج کے حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف سانحہ جڑانوالہ کے ذمہ داران کو کسی رو رعایت کے بغیر کیفرکردار تک پہنچایا جائے بلکہ شانتی نگر سے جڑانوالہ تک کے تمام سانحات کی رپورٹس پر غوروفکر کے لئے ایک قومی کمیشن بنایا جائے جو اس امر کی نشاندہی کرے کہ آخر اس طرح کے واقعات کا مستقل بنیادوں پر سدباب کیسے کیا جائے اور غیر مسلم برادریوں کا ریاست و نظام پر اعتماد کیسے بحال ہو۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر