جون 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فرمائشی کالم ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقیر راحموں کی تازہ فرمائش یہ ہے کہ نگران وفاقی کابینہ کے ’’انتخاب‘‘ پر کچھ لکھا جائے۔ بندہ پوچھے یار کیا نگران وزیراعظم ’’ہم‘‘ سے پوچھ کر لگایا گیا تھا خیر حکم یارِ من ہے تعمیل کرنا ہی پڑے گی ورنہ کیا پتہ موصوف اپنے شاعر کرہ ارض تگڑم دستوری سے ’’ہجو‘‘ ہی لکھوا ڈالیں ،

نگران وفاقی کابینہ کے فقط ایک وزیر (وزیر خارجہ سید جلیل عباس جیلانی) سے ہی یہ عرض کرسکتا ہوں کہ ’’شاہ جی کیا ضرورت تھی کوئلوں کے اس کاروبار میں شریک ہونے کی‘‘۔ باقی کے وزیر مشیر و خصوصی معاون البتہ سارے ’’میرٹ‘‘ پر ہیں۔ میرٹ کیا ہے، چھوڑیں اس پر بحث اٹھانے کی ضرورت بھی کوئی نہیں۔

اخلاقیات نام کی اگر کوئی چیز ہوتی تو مرتضیٰ سولنگی وزیر اطلاعات نہ بنتے کیونکہ بطور صحافی وہ نہ صرف ایک خاص جماعت کے متشدد حامی رہے ہیں بلکہ ان کے بس میں ہوتا تو وہ اٹک جیل کی سربراہی طلب کرتے۔ مدد علی سندھی جام صادق علی مرحوم کا تراشا ہوا نگینہ ہیں۔ وزیر دفاع انور علی حیدر ’’باغ و بہار‘‘ قسم کی شخصیت ہیں فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ اداروں کی سربراہی کرچکے خاصی ’’نیک نامی‘‘ ان کے تعاقب میں ہے۔

جمال شاہ اور خلیل جارج اچھا انتخاب ہیں۔ مذہبی امور کے وزیر انیق احمد خاصے صاحب مطالعہ شخص ہیں ان کی عمومی شہرت طویل عرصہ سے مختلف ٹی وی چینلز پر مذہبی پروگرامات کی میزبانی ہے لب و لہجہ خوب ہے۔

محترمہ شمشاد اختر بینک دولت پاکستان کی سربراہ رہ چکیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں میں رہی ہیں۔ سرفراز بگٹی کو وزیر داخلہ کیوں بنایا گیا؟ لمبے چوڑے غوروفکر پر وقت بریاد کرنے کی ضرورت نہیں۔ انہیں قدم قدم سیاست میں آگے بڑھانے والوں نے کچھ تو کمالات ذات کا مشاہدہ کیا ہی ہوگا۔

معروف شاعر اور ٹی وی میزبان وصی شاہ وزیراعظم کے معاون خصوصی بنائے گئے۔

سوشل میڈیا پر کئی دن تک فیصل واوڈا، محمدعلی درانی، ذوالفقار چیمہ (یہ سابق پولیس افسر ہیں) کے نام دوڑائے جاتے رہے کہ ان کا بطور نگران وزیر انتخاب ہوگیا ہے۔

24رکنی نگران کابینہ میں 16 ’’فُل پروف‘‘ وفاقی وزیر ہیں 8 ہاف فرائی یعنی مشیر اور معاون۔ بعض تجزیہ نگار اور سوشل میڈیا مجاہدین اسے بنگلہ دیش ماڈل کا بیانیہ بھی کہہ لکھ رہے ہیں۔ خیر جو ہوگا دیکھا جائے گا۔

کشمیری رہنما یٰسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک کو انسانی حقوق کا معاون خصوصی بنایا گیا ہے، کیوں؟ یٰسین ملک سے یکجہتی کااظہار ہے جو کہ آجکل بھارت کی جیل میں قید ہیں۔

بتایا جارہا ہے کہ آئی ٹی کے وزیر عمر سیف، وزیر صحت ندیم جان اور وزیر قانون احمد عرفان اپنے اپنے شعبوں میں خاصی خدمات اور شہرت کے حامل ہیں۔ یقیناً ہوں گے۔ خدمات اور شہرت تو جناب انوارالحق کاکڑ کی بھی تھی اسی لئے نگران وزیراعظم کی ڈربی ریس اس کے باوجود جیت گئے کہ ڈربی میں دوڑنے دوڑائے جانے والوں میں آپ کا اسم گرامی موجود ہی نہیں تھا۔

خدا لگتی کہوں مجھے سرفراز بگٹی کو وزیر داخلہ بنائے جانے پر تھوڑا سا اختلاف ہے لیکن میرے اختلاف کی رتی برابر بھی اہمیت نہیں اس کے باوجود دل و دماغ میں دور کہیں یہ بات موجود ہے کہ اس انتخاب سے ناراض بلوچوں کو اچھا پیغام نہیں گیا۔ ضروری نہیں کہ آپ میری بات سے اتفاق کریں۔

وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی پچھلے کئی برسوں سے شریف خاندان کی قربتوں کے امین سمجھے جاتے ہیں۔ تجزیہ نگار کے طور پر انہوں نے خاصا نام ’’کمایا‘‘۔ وزیر اطلاعات بن کر کیا وہ واقعی منصب سے انصاف کرپائیں گے؟ ویسے انصاف اس ملک میں ہمیشہ سے جس قسم کے حالات کا شکار رہا ہے انہیں د یکھتے سمجھتے ہوئے انصاف کی توقع بذات خود فریب خوردگی ہے (پاگل پن بھی لکھ سکتا تھا لیکن جو لکھا وہی ٹھیک ہے)

بہرحال نگران وفاقی کابینہ بن گئی۔ خیبر پختونخوا میں تطہیر شدہ کابینہ نے حلف لے لیا ہے۔ سندھ میں بھی نگران وزیراعلیٰ اور کابینہ کا مرحلہ مکمل ہوا۔ بلوچستان میں پارلیمانی کمیٹی علی مردان ڈومکی کے نام پر اتفاق کیا۔ انہوں نے نگران وزیراعلیٰ کے طور پر حلف اٹھالیا۔

کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ باقی ہے۔ لیجئے اب پورا ملک نگرانوں کے حوالے ہے باقی رہے نام اللہ کا۔

کچھ دوست حافظ جی کا نام بھی لیتے ہیں۔ افسوس کہ وہ 2018ء میں باجوے کا نام نہیں لیتے تھے اب ان کی تائید کرنا کچھ اچھا نہیں لگتا۔ عاق کئے جانے کے بعد سابق گارڈ فادر اور گود نہ لئے جانے کی وجہ سے حاضر آرمی چیف میں سے کیڑے نکالنے کی سوچ کے ہم کبھی حامی نہیں رہے۔

ہمارے بہت سارے دوست دو تین نسلوں سے ریاستی حب الوطنی اور فوج کی محبت کے اسیر تھے بہت سارے تو فوج کو لیلیٰ کی جگہ رکھ کر خود کو مجنوں سمجھتے تھے آج کل الٹی زقند بھر کے عمران خان کے حامی ہیں اور فوج کے مخالف۔ ایسے ہی ایک دوست سے چند دن قبل عرض کیا حضور قبل ازیں بھی آپ کسی اصول کی بنیاد پر نہیں ایک خاص تعصب کی بنیاد پر فوج کے محب تھے اب جو مخالفت فرمارہے ہیں یہ بھی اصول کی بنیاد پر نہیں بلکہ عمران کو کیوں نکالا کے شکوے پر ہے۔ اتنی سی بات سے ناراض ہوگئے دو تین دن سے فون نہیں اٹھارہے۔

فقیر راحموں نے تسلی دی ہے فکر نہ کریں ان کے عشق کا بخار جلدی اتر جائے گا۔ خیر بخار اترے نہ اترے ہمیں کیا ہم نے تو یہی مزدوری کرتے رہنا ہے جب تک سانس اور دماغ و ہاتھ چلتے ہیں

ان سطور میں ہمیشہ عرض کیا کہ یہ سکیورٹی اسٹیٹ ہے۔ عوامی جمہوریت کے لئے پرامن جدوجہد ہی واحد راستہ ہے۔ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ جب اپنا تراشا ہوا ’’دیوتا‘‘ لانچ کررہی تھی تب بھی عرض کیا تھا کہ نقصان زیادہ ہوگا اور وہ ہوا اتنا کہ ففتھ جنریشن وار والا لشکر بھی ہاتھ سے گیا۔

اچھا ویسے اسٹیبلشمنٹ کسی دن ہفتہ بھر کی چھٹیاں لے کر کسی پرفٗضا مقام پر جابیٹھے اور صرف اس بات پر غوروفکر کرے کہ اس نے آج تک جتنے تجربے کئے وہ سب اس کے گلے کیوں پڑے۔ فقیر راحموں کہتا ہے کہ خالی خولی غوروفکر سے کام نہیں چلے گا ہاں اگر غوروفکر سے جو جواب ملے اس کی روشنی میں ماضی سے سبق اور مستقبل میں کام سے کام رکھنے کی ضرورتوں کو تسلیم کیا جائے تو یہ اچھا ہوگا اسٹیبلشمنٹ اور ملک دونوں کے لئے۔

فقیر ر احموں کی بات سے ہمارا اور آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ معاف کیجئے گا بات نگران وفاقی کابینہ سے شروع ہوئی اور پھر کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ گرمی، مہنگائی وغیرہ نے جان جوکھم میں ڈالی ہوئی ہے۔

فقیر راحموں کو تو صرف ڈن ہل مہنگا ہونے کی پریشانی ہے اور مزید پریشانی یہ ہے کہ جب سے جان لیوا مہنگائی کا دوردورہ ہوا ہے ارادت مندوں نے ڈن ہل کا ہدیہ دینا ترک کردیا ہے۔ آجکل گھڑی پر وقت دیکھ کر سگریٹ نوشی کرتا ہے یہی حالات رہے تو اپنے ہی چھوڑے ہوئے ٹوٹوں سے جی بہلائے گا۔

ہمارے نئے دوست، شاعر کرہ ارض کہلوانے والے تگڑم دستوری نے ملک کی موجودہ صورتاحل پر ایک خصوصی شعر عطا کیا ہے۔ وہ ارشاد کرتے ہیں

’’پاکستان کا مطلب کیا، جب موقع ملے زندہ بھاگ جا‘‘۔

موقع ہی تو نہیں مل رہا حالانکہ پاسپورٹ بنوائے ہوئے کئی ماہ ہوگئے بیرون ملک مقیم کچھ دوستوں کو نواں نکور پاسپورٹ واٹس ایپ بھی کیا اکثر نے توجہ ہی نہیں دی ایسے میں موقع کیسے ملے گا۔

سچ پوچھیں تو حب الوطنی (ریاستی نہیں زمین زادوں والی) اور جمہوریت پسندی کا بھوت کب کا اتر چکا اب تو ہم ہیں اور ہم ہی ہیں باقی سارا جہان ہے۔

اس جہان کا ہم نے کیا کرنا۔

آج کل بس یہی سوچتے رہتے ہیں۔ اگر 2006ء میں اس ملک سے نکل ہی لیتے تو اچھا تھا اب تک سیٹ وٹ ہوگئے ہوتے۔ چلیں چھوڑیں جو نہیں ہوپائے اس پر رونا دھونا کیا جو ہے اس پر گزارا کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: