مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ذلتوں کے اسیر؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ! دسویں قسط!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ہر بار ہر بار موت میری روح تک پہنچنے سے روک دی گئی، بار بار میرے جسم میں زندگی کا پیوند لگا دیا گیا اور صرف اس لئے کہ مجھے بار بار مارا جا سکے۔ اس لئے کہ فیصلہ مرد کے ہاتھ میں ہے اور کٹہرا عورت کے لئے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ثانیہ راکھ سے بنی ہوئی عورت ہے جسے کریدنے سے چنگاریاں نکلتی ہیں جو سامنے والے کو جلا دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ثانیہ کی ہر بات میں اس کے ماضی اور دکھ کا شدید اظہار ہے۔ وہ لوگوں سے مل کر ان کے درمیان رہ کر وہ کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہے جو وہ بچپن میں کھو بیٹھی تھی۔ اسے لگتا ہے کہ شاعری کے ذریعے وہ سب کچھ کہہ سکتی ہے جو اس کے اندر شور مچاتا ہے۔ اس کے آہ بکا اور زخموں سے اٹھتا تعفن شعروں کی صورت میں دنیا تک پہنچ رہا ہے۔

شاعری پر ہونے والی تنقید کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ: ”نقاد۔ یہ نقاد کیا کرتے ہیں؟ نقاد تو مجھے ڈاکٹروں کی طرح لگتے ہیں انہیں مریض کے حسن سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ تو اس کے جسم میں چھپی ہوئی بیماریاں تلاش کرتے ہیں۔ شاعر رنگ چوری کرتے ہیں اور نقاد شاعروں کے چہرے۔ ہر آدمی کچھ نہ کچھ چوری کرنے کے لئے زندہ رہتا ہے۔ بہت سے لوگ میرا جسم اور میرا سانس چوری کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن نہ تو یہ جسم میرا ہے اور نہ ہی سانس میرے ہیں۔ ایک اٹھنی کے بدلے میں نے بچپن ہی میں اپنا جسم اور اپنے سانس بیچ دیے اور کوئی بھی اپنی ایک بار بیچی ہوئی چیز دوبارہ نہیں بیچ سکتا حالانکہ جسم تو کئی بار بیچا جاتا ہے۔ اگر میں تم سے پوچھوں کہ تم نے اپنا جسم کتنی بار بیچا ہے اور کس کس کو بیچا ہے تو تم کوئی جواب نہیں دے سکو گے۔ میں ان لوگوں سے اچھی ہوں جنہیں یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کا جسم اور سانس کب کب فروخت ہوئے اور اس کے بدلے میں انہیں یا کس کو کیا کیا ملا؟“

ثانیہ نہ صرف اپنے ہونے یا نہ ہونے کو چیلنج کرتی نظر آتی ہے بلکہ معاشرہ کے اس نظام کو بھی جس کے تحت کوئی بھی عورت جیتے جی مر جاتی ہے اور کانٹوں بھری زندگی پہ مصلوب ہو جاتی ہے۔ وہ امثال سے باتیں کرتے ہوئے کہتی ہے : ”جب ایک عورت کا اپنے بچوں کے ساتھ رہنا ناممکن بنا دیا جائے اور وہ سمجھتی ہو کہ اس کے بچوں کو اس کی ضرورت ہے تو اُس وقت وہ وقت سے پہلے مر جاتی ہے۔ اور اگر وہ مرنے سے بچنے کے لیے بچھڑنے کا فیصلہ کر لے تب بھی وہ زندہ نہیں رہتی، دیکھنے میں وہ زندہ نظر آتی ہے لیکن وہ ہر لمحے مرتی ہے اور زندہ ہوتی ہے۔

میں نے ایک بار خبر پڑھی تھی کہ ایک آدمی کو تین بار سزائے موت دی گئی۔ بظاہر یہ مضحکہ خیز بات ہے لوگ پڑھ کر ہنس رہے تھے لیکن مجھے ہنسی نہیں آئی کیونکہ مجھے علم تھا کہ تین بار کیا، کئی بار کئی ہزار بار سزائے موت دینا ممکن ہے اور دی جاتی ہے۔ لیکن اس طرح کی سزائے موت مرد کو نہیں عورت کو ملتی ہے۔ میں خود ہزار بار سزائے موت پا چکی ہوں۔ میں ہر وقت کے اس جینے اور جی جی کر مرنے سے بچنے کے لئے صرف ایک مرنے اور اس طرح مرنے کی کوشش کی ہے کہ پھر زندہ نہ ہو سکوں۔

لیکن ہر بار ہر بار موت میری روح تک پہنچنے سے روک دی گئی، بار بار میرے جسم میں زندگی کا پیوند لگا دیا گیا اور صرف اس لئے کہ مجھے بار بار مارا جا سکے۔ اس لئے کہ فیصلہ مرد کے ہاتھ میں ہے اور کٹہرا عورت کے لئے۔ اس کٹہرے میں کھڑی ہو کر عورت اگر اپنی وکالت کرتی ہے تو اس کی زبان پر کیلیں ٹھونک دی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس کے الفاظ عدالت کی تو ہین کا باعث بن رہے ہیں“ یہ ثانیہ کے روپ میں اس ماں کے الفاظ ہیں کرب اور دکھ سے بھرے ہوئے جس سے اس کے بچے چھن گئے ہیں اور وہ ان کے بنا زندگی کے ہر لمحے کو سزائے موت تصور کرتی ہے۔

یہاں ہمیں ثانیہ جیسی وہ عورتیں یاد آ جاتی ہیں جن کے پیٹ کے جنے ان سے علیحدہ کر دیے جاتی ہیں اور وہ ایک بار نہیں ہزار بار سزائے موت پاتی ہیں۔ ان کی زندگی ایک ایسے انسان کی ہوتی ہے جسے تختہ دار پر پہنچا دیا گیا ہو، گلے میں رسہ ہو اور بس صرف پاؤں کے نیچے سے تختہ ہٹنے کی دیر ہو۔ وہ مائیں اس تختے پہ کھڑے ہونے پہ کوئی اعتراض نہیں کرتیں۔ جو اندر سے مر چکا ہو وہ اس جسم کو پہنچنے والے نقصان کی کیا پروا کرے؟

امثال کے ساتھ ساحل سمندر پہ سیر کرتے ہوئے وہ اشاروں کنایوں میں اسے بتاتی ہے کہ امثال جس راستے پر چل رہا ہے وہ درست نہیں۔ اس کا سوال کیا یہ کیکڑے بھی دوسروں کی بیویوں کی ساتھ گھومنے جاتے ہوں گے؟ تمسخر سے بھرا ہوا تو ہے ہی، امثال کو کچھ کہنے کی کوشش بھی کرنا ہے۔ پھر امثال سے یہ پوچھنا کہ تمہیں عورت کا جسم اچھا لگتا ہے یا دماغ؟ ثانیہ کے ان تجربات کا عکس ہے جو اس نے معاشرے سے سیکھے ہیں۔ ثانیہ کو موت خوفزدہ نہیں کرتی وہ اسے اپنا نجات دہندہ سمجھتی ہے۔

لیکن ایک موت سے دوسری موت کے وقفے میں پہلے جو عذاب اترتے تھے، وہ سہل اس لیے ہوئے کہ اس نے بولنا سیکھ لیا۔ اور اس کے لیے وہ نبیل کی شکر گزار ہے جس کے ساتھ رہ کر وہ ان لوگوں سے متعارف ہوئی جن سے اس نے اپنی بات کو لبوں تک لانا سیکھا۔ ”نبیل سے شادی کے بعد مجھے پتہ چلا کہ میں بول بھی سکتی ہوں۔ پھانسی کے اس تختے پر کھڑے ہو کر گلے میں وہ پھندا ڈال کر بھی جسے بار بار کسا جاتا ہے اور تختہ سرکایا جاتا ہے تاکہ زندگی کے کنویں میں لٹکی میری لاش کا منظر دیکھا جا سکے۔

لیکن میں نے ایک موت سے دوسری موت تک پہنچنے کے درمیان سانس لینا اور بولنا سیکھا لیا ہے۔ میری نظمیں ایک موت سے دوسری موت تک اور دوسری موت سے تیسری موت تک زندہ رہنے، سانس لینے اور بولنے کا وقفہ ہیں اس لئے بہت کم لوگوں کو سمجھ آتی ہیں، ادھوری اور نامکمل لگتی ہیں ادھوری بڑبڑاہٹیں اور سرگوشیاں، رندھی ہوئی چیخیں! میں روز خود کشی کرتی ہوں جس طرح سورج روز مرتا ہے کہ اس نے دوسروں کے رنگ چوری کیے ہیں اور میں اس لیے مرتی ہوں کہ میرے رنگ دوسروں نے چوری کر لیے ہیں۔ کیا تمہیں پتہ ہے کہ خودکشی کرتے سورج کے گرد بادل کیوں جمع ہوتے ہیں؟ صرف اس لیے کہ اس سے اپنے رنگ واپس لے سکیں لیکن سورج ان کے رنگ واپس نہیں کرتا، اس لئے سورج کے مرتے ہی سارے بادل سیاہ پڑ جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: