اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مغرب کی افریقہ سے پسپائی||اسلم اعوان

اسلم اعوان سرائیکی وسیب کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتے ہیں ،وہ ایک عرصے سے ملک کے سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

اسلم اعوان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرانسیسی حکام نے جمعہ کے روز اپنی سابق کالونی نائجر کے نئے فوجی حکمران کی طرف سے فوجی تعاون کے پانچ معاہدوں کو منسوخ کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ان معاہدوں پر نائجر کے ”جائز حکام“ کے ساتھ دستخط کیے تھے۔ صدر محمد بازوم کو معزول کرنے والوں کے ترجمان عماد الرحمن نے جمعرات کو دیر گئے قومی ٹیلی ویژن پر تمام سودے ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں فرانس کو سفارتی نوٹس بھیجا جائے گا۔ نائجر نے فرانسیسی فنڈ سے چلنے والے بین الاقوامی خبر رساں اداروں فرانس 24 اور آر ایف آئی کی نشریات بھی معطل کر دیں۔

فرانس کی وزارت خارجہ نے کہا کہ پیرس اور عالمی برادری صرف معزول صدر بازوم کو ”جائز حاکم“ تسلیم کرتی ہے، جس کے ردعمل میں بغاوت کے حامیوں نے نائیجر میں فرانسیسی سفارت خانے پر حملہ کر دیا۔ نائجر، جس نے 1960 میں فرانس سے آزادی حاصل کی تھی، افریقہ کے ساحلی علاقوں میں فرانس مخالف مسلح گروہوں سے لڑنے میں مغرب کے قابل اعتماد شراکت داروں میں سے ایک تھا۔ فرانس کے اب بھی نائجر میں 1500 کے لگ بھگ فوجی موجود ہیں۔

نائجر، لیبیا، چاڈ اور نائیجیریا سمیت سات ممالک کی سرحدوں سے متصل، جن 2000 سے زیادہ مغربی فوجیوں کی میزبانی کرتا ہے، ان میں زیادہ تر امریکی اور فرانسیسی سپاہی شامل ہیں۔ علاقائی بلاک ECOWAS کی طرف سے جرنیلوں کو پیچھے ہٹنے اور منتخب صدر محمد بازوم کے اقتدار کو بحال کرنے کے لیے دی کی گئی ڈیڈ لائن اتوار کو ختم ہو گئی تاہم نائیجیریا اور سینیگال جیسے ممالک کے فوجی مداخلت کے لیے تیار ہونے کے بہت کم امکانات ہیں۔

اس کے برعکس، نائجر میں انقلاب کے حامیوں نے دارالحکومت نیامی کے اسٹیڈیم میں زبردست ریلی نکالی، جہاں فرانس کے خلاف نعرہ زنی کے علاوہ مظاہرین نے روسی پرچم بھی لہرائے۔ نائجر کے سربراہ جنرل عبدالرحمن ٹچیانی کی سربراہی میں فوج نے 26 جولائی کو مغرب نواز صدر محمد بازوم کو ہٹا کر آئین معطل کر دیا تھا۔ جس کے ردعمل میں ECOWAS نے نائجر پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے سرحدیں بند، بجلی کی ترسیل معطل اور مالیاتی لین دین روک دی لیکن ان تادیبی اقدامات کے باوجود، نئی حکومت بے خوف دکھائی دیتی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیا کے بعد افریقہ بھی یورپ و امریکہ کے غلبہ سے آزادی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

نائجر کے نئے رہنماؤں نے ہمسایہ ملک مالی اور برکینا فاسو کے وفود سے ملاقاتیں کیں تاہم دونوں ممالک کے روس نواز فوج نے کنٹرول چھوڑنے کی مغربی درخواستوں کو مسترد کر دیا۔ منگل کو بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ اس لمحے نے روس اور اس کی پراکسی، کرائے کی تنظیم، ویگنر، کے لیے تشویشناک آغاز فراہم کیا ہے، جس کے مالی میں قدم اور برکینا فاسو میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ صاف دکھائی دے رہا ہے۔

مالی اور برکینا فاسو کے برعکس، نائجر مغربی افریقہ کے مشتعل ساحل میں مغرب کا محفوظ حامی ملک سمجھا جاتا تھا اور اپنے پڑوسیوں کے مقابلے میں واشنگٹن اور پیرس کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ اور امریکہ کے مخالف علاقائی مسلح گروہوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے ایک موثر فوجی اڈا بن گیا تھا، جہاں سے فرانسیسی فورسز کی کارروائیوں کے علاوہ امریکی ڈرون بھی اڑائے جاتے تھے۔ تاہم مغربی میڈیا کا ایک حصہ نائجر بغاوت کو فوری طور پر غیر ملکی طاقتوں کے مفادات یا ایجنڈوں کے بارے میں نہیں بلکہ ایک کمزور جمہوریت کے اندر سیاسی جھگڑوں کا نتیجہ قرار دے رہا ہے لیکن جاری بحران ہمیشہ کی طرح جغرافیائی سیاسی انتشار میں بدل گیا اور انقلاب کے حامیوں نے خاص طور پر سوشل میڈیا پر مغرب مخالف لائن اختیار کر کے بازوم حکومت اور اس کے علاقائی محافظوں کو سامراجی طاقتوں کی کٹھ پتلیوں کے طور پر پیش کرنے میں کامیابی پائی۔

لوگ خاص طور پر خطے میں اس فرانس کے طویل غاصبانہ تسلط سے اکتائے چکے ہیں، جو آج بھی اپنی سابقہ کالونی میں کبھی کبھار فوجی مداخلت کرنے کے علاوہ مغربی افریقی ممالک کے مالیاتی نظام پہ کنٹرول اور زیر زمین پائے جانے والے وسائل پہ تصرف قائم رکھنے کے علاوہ وہاں ایٹمی تجربات کر کے تابکاری پھیلانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ چنانچہ ان ممالک کے عوام اپنی مغرب نواز حکومتوں کے برعکس، قومی خودمختاری اور آزادی کو برقرار رکھنے والے رہنماؤں کی طرف دیکھتے ہیں، ان کے خیال میں وہ تمام لیڈرز مغرب کی کٹھ پتلیاں ہیں جنھوں نے ساٹھ سالوں کے دوران نیو نوآبادیاتی نظام کو چیلنج کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

مغرب نے نائجر کو ”جمہوری“ قلعہ کے طور پر دیکھا، پھر وہاں مغربی تسلط کے خلاف بغاوتیں اٹھیں یہی وہ داستان تھی جو مالی اور برکینا فاسو میں پیش آئی اور نائجر میں بھی یہی کہانی دہرائی گئی۔ مغربی ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ نائجر میں فرانس مخالف جذبات نیو نوآبادیاتی دور کے خلاف وسیع عوامی ناراضگی کا شاخسانہ ہیں، ان کے تمام مصائب، خاص کر سلامتی کی صورتحال پر واضح اثر کے بغیر غیر ملکی فوجیوں کی دیرپا موجودگی کی شکایات، اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وسیع پیمانے پر مقامی وسائل کے استحصال کی مہمات نے افلاس کے ہاتھوں نالاں مقامی لوگوں کے جذبات کو بھڑکا دیا ہے۔

پچھلے ہفتے ایک انٹرویو میں، واشنگٹن میں نائجر کے سفیر کیاری لیمن ٹنگوئیری نے بھی فرانس کی جانب سے نائجر کی یورینیم لوٹنے بارے آن لائن بیان جاری کر کے مغرب مخالف جذبات کو مہمیز دی تھی، فرانس کی بڑی سول نیوکلیئر صنعت کے لیے درآمدات کی بابت حالیہ برسوں میں نائجر کی تابکار ایسک کی برآمدات میں اضافہ کی خبریں بھی زبان زد عام ہوئیں، جو فرانسیسی تسلط کے خلاف رائے عامہ کو ابھارنے کا وسیلہ بنیں۔ فرانس نے بازوم حکومت میں اس لئے کچھ سرمایہ کاری کی تاکہ ملحقہ افریقی ممالک کے ساتھ نئی قسم کی شراکت داریوں کا نمونہ تیار کیا جا سکے، اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ فرانسیسی فوجیوں نے جنگجو مخالف کارروائیوں میں نائجیرین ہم منصبوں کے ساتھ مل کر کس طرح لڑائی کی، ڈروین نے بتایا کہ نائجر، مالی اور برکینا فاسو کی طرح اسی راستے پر گامزن ہو جائے گا جو کہ نمایاں روسی اثر و رسوخ کے تحت، عدم استحکام کے ایک سہیلائی محراب کو مزید مضبوط کر دے گا یعنی مغربی اشرافیہ جان چکی ہے کہ افریقی ممالک بتدریج روسی کیمپ کی طرف مائل ہوتے جائیں گے۔

افریقہ میں مغربی تسلط کے خلاف بغاوتیں، گزشتہ کی طرح، خطے میں فرانس کی ”انسداد دہشت گردی“ کی کارروائیوں کی گزشتہ دہائی اور خطے کی فوجوں کے ساتھ اس کے تعلقات کے بارے میں سوالات اٹھاتی ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فرانسیسی سیاست دانوں کو تن آسانی کے رویوں سے باہر نکلنا چاہیے کیونکہ یہ گریز صرف فوجی تعاون کی نا اہلی کو ہی اجاگر نہیں کرتا بلکہ فرانس کے ارکان پارلیمنٹ، چند مستثنیات کے ساتھ، نے بھی دہشت گردی (افریقہ کی مغلوب قوموں کی طرف سے استعماری تسلط سے نجات کی جدوجہد کو بے رحمی سے کچلنے کی خاطر مغربی طاقتیں ان پہ دہشتگردی کا لیبل لگاتی ہیں ) کے خطرے کے پیش نظر فوری طور پر بائیں بازو یا سستی کا الزام عائد کیے جانے کے خوف سے ان مسائل کا کبھی سنجیدگی سے سامنا کرنے کی ہمت نہیں کی۔

یہ رویہ ایک درمیانی طاقت کی اسٹریٹجک حدود کو بھی ظاہر کرتا ہے جس نے اپنے نوآبادیاتی ماضی کو ختم نہیں کیا۔ قومی سلامتی کے مغربی ماہرین کہتے ہیں اگر نائجر فرانس کے تسلط سے نکل گیا تو اسلامی عسکریت پسندوں کے لئے ساحلی مغربی افریقی ملک میں امریکی و فرانسیسی مفادات پہ حملہ کرنا آسان ہو جائے گا جو صحارا سے خلیج بینن تک پورے خطے کو غیر مستحکم کر دیں گے۔ لیبیا سے لے کر مغربی ساحل تک مغرب کے پاس کوئی حقیقی ریاست نہیں ہو گی جس کی قوت قاہرہ فرانسیسی غلبہ کا دوام قائم رکھ سکے۔ گویا یوکرین کی مانند یہاں بھی مغرب کا سب کچھ داؤ پر لگ گیا۔ ایک طرف روسی پراکسی کے ساتھ غیر مستحکم زون اور دوسری طرف اسلام پسند حالات کو کنٹرول کر رہے ہوں گے، اس سے پوری مغربی دنیا عدم استحکام کا شکار ہو جائے گی۔

 یہ بھی پڑھیے:

کشمیریوں کا مستقبل۔۔۔اسلم اعوان

اپوزیشن جماعتوں کی آزمائش۔۔۔اسلم اعوان

پیراڈائم شفٹ میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔۔اسلم اعوان

افغانستان کا بحران عالمی ایشو نہیں رہا۔۔۔اسلم اعوان

عورتوں میں ہم جنس پرستی پر یہ مشہور کہانی لکھنے والی عصمت چغتائی۔۔۔اسلم ملک

اسلم اعوان کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: