اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یوم آزادی تجدید عہد کے ساتھ منایا گیا !۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
14اگست یوم آزادی ، تجدید عہد کے دن کے طور پر منایا گیا ، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم شہباز شریف ، مسلح افواج کے سربراہان اور قومی ہیروز نے پاکستان کے 76ویں یوم آزادی پر قوم کو مبارکباد دی۔نماز فجر میں ملکی ترقی ، یکجہتی ، امن اور خوشحالی کیلئے خصوصی دعائیں مانگی گئیں، دن کا آغاز توپوں کی سلامی سے ہوا، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 31 جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں 21، 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔ مزار قائد اور مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی تقاریب منعقد ہوئیں، قبل ازیں رات گئے ملتان ،لاہور، کراچی ، اسلام آباد ، فیصل آباد ، کوئٹہ اور پشاور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں یوم آزادی شروع ہوتے ہی آتش بازی کی گئی ۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں آزادی سے پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنا، افواج پاکستان اور عوام ایک تھے ایک ہیں اور ایک رہیں گے ، اپنی عظیم قوم کو امید کا پیغام دیتا ہوں کہ ملکی خود مختاری اور سالمیت کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔ آج ہم نے 76 واں یوم آزادی منایا، ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان جن مقاصد کیلئے حاصل کیا گیا، کیا وہ مقاصد حاصل ہوئے؟ بانی پاکستان کا نصب العین اور علامہ اقبال کا خواب پورا ہوا؟ ۔ آزادی ایک نعمت ہے، دیکھنا ہے کہ ہم نے اس نعمت کا کتنا شکر ادا کیا؟ قومی اورعالمی سطح پر ہم نے کتنی کامیابیاں حاصل کیں؟ اس حوالے سے یہ تجدید عہد کا دن ہے، پاکستان کے استحکام کیلئے نئی سوچ اور نئے آئیڈیاز کی ضرورت ہے۔ پسماندہ علاقوں کی پسماندگی ختم کرنے اور محروم لوگوں کو پاکستان کی خوشیوں اور پاکستان کی برکتوں میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان مختلف زبانیں بولنے والوں کا گلدستہ ہے، ملک میں 76 کے قریب زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ زبانیں جو نصابی اہلیت کی حامل ہیں انہیں قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔ حکمرانوں کی بے توجہی کے باعث آج پاکستان کے مقامی باشندوں کی حالت دیکھئے، وہ اپنے ہی گھروں میں مہاجر بنا دیئے گئے ، وہ صرف وسائل سے محروم نہیں ہوئے ، ان کی زبان ، تہذیب و ثقافت بھی خطرات کا شکار ہے، یوم آزادی کے موقع پر ریڈیو ، ٹی وی پر ملی نغمے ’’ تو بھی پاکستان ہے ،میں بھی پاکستان ہوں، یہ تیرا پاکستان ہے، یہ میرا پاکستان ہے ‘‘ سنتے ہیں تو منہ میں انگلی ڈال کر سوچوں میں گم ہو جاتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہے؟ یوم آزادی کا پیغام یہ ہے کہ وسائل اور مسائل کی برابر تقسیم اور تمام علاقوں کے ساتھ مساویانہ سلوک ہو، تاکہ وہ بھی ملی نغمے ’’ تو بھی پاکستان ہے ، میں بھی پاکستان ہوں ‘‘ کی گنگناہٹ میں شریک ہوں ۔ بلا شبہ زندہ قومیں اپنے قومی تہوار جوش و خروش کے ساتھ مناتی ہیں، اچھی بات ہے کہ یومِ آزادی کے حوالے سے ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ لوگوں میں بھی جوش و خروش دیکھنے میں آ یا ۔ پاکستان کے دوسرے علاقوں کے ساتھ ساتھ وسیب میں بھی یومِ آزادی کے حوالے سے زبردست جوش و خروش پایا گیا، تحریک آزادی سے لیکر قیامِ پاکستان اور بعد ازاں استحکام پاکستان کیلئے وسیب کی خدمات تاریخ کا حصہ ہیں ، وسیب کے دوسرے علاقوں کے ساتھ ساتھ سابق ریاست بہاولپور نے پاکستان کیلئے دامے ، درمے ، قدمے، سخنے ساتھ دے کر قربانی و ایثار کی نئی تاریخ رقم کی۔ نہرو نے کہا تھا کہ ہم دیکھیں گے کہ پاکستان ملازمین کو پہلی تنخواہ کیسے دے سکتا ہے تو اس مشکل وقت میں ریاست بہاولپور کے نواب نے سات کروڑ روپے کی خطیر رقم قائد اعظم کو پہلی تنخواہ کی چلت کیلئے دی ۔ قیام پاکستان سے پہلے نواب بہاولپور نے ریاست کی طرف سے ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا، جس پرایک طرف مملکت خداداد بہاولپور اور دوسری طرف پاکستان کا جھنڈا تھا۔پاکستان قائم ہوا تو قائداعظم ریاست بہاولپور کی شاہی سواری پربیٹھ کر گورنر جنرل کا حلف اٹھانے گئے، پاکستان کی کرنسی کی ضمانت ریاست بہاولپور نے دی ، اس کے ساتھ بہاولپور رجمنٹ جس کا ایک عام سپاہی بھی انگلینڈ سے تربیت یافتہ تھا پاک فوج کے حصے میں آئی جس سے پاک فوج کو تقویت حاصل ہوئی ، بعد میں بہاولپور رجمنٹ کو بلوچ رجمنٹ میں تحلیل کر دیا گیا،وسیب کے لوگ بجا طور پر صدر مملکت اور چیف آف آرمی سٹاف سے سندھ رجمنٹ کی طرح وسیب رجمنٹ کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں ، اس مطالبے کی قبولیت ملک و قوم کیلئے نہایت ہی سود مند ثابت ہوگی ۔ قائد اعظم نے نواب بہاولپور کو محسن پاکستان کا خطاب دیا،نواب بہاولپور نے 1200 ایکڑ رقبے پر مشتمل بر صغیر جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا صادق پبلک سکول ، دنیا کی سب سے بڑی سنٹرل لائبریری ، جامعہ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ ، بہاولپور میں بہت بڑا سٹیڈیم ، سب سے بڑا چڑیا گھر اور 1906ء میں ہندوستان کا سب سے بڑا وکٹوریہ ہسپتال قائم کیا، بہاولپورکے محلات اتنے شاندار تھے کہ یورپ بھی ان پر رشک کرتا تھا ، محلات میں فرنیچر پر سونے کے کام کے علاوہ برتن بھی سونے کے تھے ۔ سرائیکی قوم کی خوشحالی کا یہ عالم تھا کہ وسیب کے لوگوں نے طلے والا کھسہ یعنی سونے کی تاروں والے جوتے پہنے مگر قیام پاکستان سے آج تک وسیب کو پسماندہ خطے میں تبدیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ، آج وسیب کے لوگ پوچھ رہے ہیںکہ کیا وسیب کی قیام پاکستان کیلئے دی گئی قربانیوں کا یہی صلہ ہے؟ ٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: