اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان پالیسی: غیر سیاسی سوچ کے قبرستانی ہیولے (6)۔۔۔|| وجاہت مسعود

زبان اور قبیلے کے نام پر باہم خون بہانے والوں میں سے کوئی وادی پنج شیر کا باگھ تھا تو کوئی ہرات کا قصاب تھا۔ کوئی شہریوں کو ٹینکوں سے باندھ کر دولخت کرتا تھا تو کوئی سربریدہ لاشوں پر ابلتا تیل ڈال کر رقص بسمل سے لطف اٹھاتا تھا۔ د

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاک افغان مجادلے کا قصہ آج نبیڑ دیتے ہیں۔ پچاس برس پر پھیلی یہ دیوار گریہ تو جہالت، سازش، جرم، ناانصافی اور تشدد کے بدصورت پتھروں سے اٹھائی گئی ہے- قتل و غارت کی اس لہو آلود کہانی پر سینکڑوں کتابیں اور لاکھوں اخباری مضامین لکھے گئے ہیں۔ کاغذ پر کھنچے یہ بے معنی حروف مگر 19 سالہ رخشندہ کے درد کا احاطہ نہیں کر سکتے جسے 2015 میں طالبان  نے صوبہ غور کے قصبے فیروز کوہ میں سنگسار کیا تھا۔ درس گاہوں میں بیٹھے افغان جنگ کے مقالہ نویس کابل کی 27 سالہ رخشندہ کا المیہ بھی بیان نہیں کر سکتے جسے طالبان نے بے بس افغان شہریوں کے سامنے تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد اس کی جلی ہوئی نعش دریائے کابل میں پھینک دی تھی۔ رخشندہ کا جنازہ کابل کی عورتوں نے اپنے کندھوں پر اٹھایا تھا۔ پاکستان میں بیٹھ کر مہذب افغان قوم کی بربادی رقم کرنے سے میرا قلم یوں بھی قاصر ہے کہ مجھے تو اپنے 15 سالہ اعتزاز بنگش کو یاد  رکھنے کی توفیق نہیں جس نے 6 جنوری 2014 کو خود کش حملہ آور کو اپنے سکول کے دروازے پر روکتے ہوئے جان دی تھی۔ مجھے ٹانک کے اس بہادر استاد کا نوحہ لکھتے ہوئے حیا آتی ہے جسے مارچ 2007 میں اپنے طالب علموں کو جہاد کے لئے بھیجنے سے انکار کی پاداش میں کھال کھینچ کر شہید کیا گیا تھا۔

میں تو اے پی ایس پشاور کے 142 پھولوں اور ان کی فرض شناس پرنسپل طاہرہ قاضی کو بھی فراموش کر چکا۔ مجھے منگورہ کے خونی چوک میں ہر صبح لٹکتی بے لباس لاشیں بھول چکی ہیں۔ مجھے غیرقانونی ریڈیو پر بنکارتا ملا دوران شاہ تو ایک طرف، امریکی لب و لہجے میں دھمکیاں دینے والے مسلم خان کی موجودہ قانونی حیثیت کا اتا پتا نہیں۔ مجھے تو سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی نومبر 2014 میں واشنگٹن میں کی گئی وہ تقریر تک استحضار نہیں جس میں انہوں نے پاکستانی فوجی جوانوں کے سروں سے فٹ بال کھیلنے والوں کو معاف نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ایسا نہیں کہ اپنی یادداشت اچھی نہیں۔ ریاست پر سے اختیار چھن جائے تو شہری کے پاس مزاحمت کے لئے حافظے کے سوا بچتا ہی کیا ہے۔ بات یہ ہے کہ درویش طبعاً محتاط ہے۔ بات کرنے سے پہلے ریاست کا تازہ فرمان دیکھ لیتا ہے۔ ان دنوں قومی افق پر گہری دھند چھائی ہے۔ فیض صاحب کے لفظوں میں ۔۔۔ نظر پہ کھلتا نہیں کچھ اس دم، کہ دل پر کس کس کا نقش باقی ہے۔ دوسرے یہ کہ قومی اسمبلی میں ذرائع ابلاغ کے ترمیمی قانون کی منظوری کے بعد دھڑکا سا رہتا ہے کہ کالم لکھنے والا تو منظور شدہ خبر کے پار جھانکنے کی خدمت پر مامور ہے۔ نامعلوم کب Misinformation  اور Disinformation کی مفروضہ لکیر پر پاؤں رکھ بیٹھے۔ ہم افغان قضیے کے بیان میں طالبان کی نمود تک پہنچے تھے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے آگے ہمارے لئے ادھورا سچ بولنا بھی مشکل ہے۔ یوں کرتے ہیں کہ ایک مجمل بیان دے کر یہ قصہ ختم کرتے ہیں۔

امریکا میں ایک صاحب تھے نارمن میکلین (Norman Maclean)۔ 1977 میں میکلین نے ایک خود سوانحی ناولٹ لکھا تھا A river runs through it۔ 1992 میں Robert Redford نے اس پر ایک فلم بھی بنائی تھی۔ ایک شفیق پادری اور دو بیٹوں کی کہانی ہے، بڑا بیٹا اطاعت گزار ہے۔ چھوٹا بھائی خطر پسند ہے اور بھری جوانی میں مارا جاتا ہے۔ ناولٹ کیا ہے، انسانی تاریخ کا استعارہ ہے۔ بہتے دریا کو وقت جانیے اور دو کناروں کو زندگی کرنے کے دو مختلف اطوار۔ ٹالسٹائی نے “جنگ اور امن” میں تصویر کے یہی دو رخ دکھائے تھے۔ امن خواب کی نیلگوں دھند میں لپٹی نیند ہے اور جنگ آتش و آہن کے جلو میں موت کی بے بس سسکی ہے۔ 1258ء میں بغداد پر ہلاکو خان کا حملہ ہو یا سترہویں صدی میں بلغاریہ سے آسٹریا تک عثمانی فوج کی یلغار۔ خود ہم نے گزشتہ صدی میں سٹالن گراڈ، نانکنگ، کوونٹری اور ڈریسڈن جیسے شہروں کو کھنڈر ہوتے دیکھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے ترقی یافتہ قوموں نے ہتھیار بنانے کا کاروبار خود سنبھال لیا ہے اور جنگ کے لئے اجنبی زمینوں کو ہدف بنا لیا ہے۔ ہم نے کوریا، ویت نام، عراق، لیبیا اور شام کو اجڑتے دیکھا۔ اب یوکرائن میں جنگ دیکھ رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جنگ ایک غیرپیداواری سرگرمی مگر نہایت منافع بخش کاروبار ہے۔ کرائے پر چلنے والی ریاستیں بھوک، محرومی اور افلاس کا درماں قرض میں ڈھونڈتی ہیں یا طاقتور ریاستوں سے جنگی خدمت گزاری کا معاوضہ چاہتی ہیں۔ پاکستان نے 1989 کے بعد جنگی معیشت کا راستہ ترک نہیں کیا۔ تاہم اپنے پاس یہ بساط بچھانے کے وسائل نہیں تھے۔ 1994ء میں طالبان کی نمود کے چار بنیادی کردار تھے۔ نصیراللہ بابر، مولانا فضل الرحمن، افغان تجارت سے وابستہ کاروباری طبقہ اور چوتھے فریق کا نام لینے کی اجازت نہیں۔ نائن الیون کے بعد ہمیں پھر سے کرایہ ملنے لگا لیکن خارجی اور داخلی محاذوں پر دوہری پالیسی کے لئے ریاستی جھوٹ گھڑنا پڑے اور ان میں سے ہر جھوٹ ہمارے گرد شکنجہ بنتا گیا۔ ہم نے نائن الیون کو سازش قرار دیا۔ دہشت گردی کی تعریف پر بحث میں الجھے رہے، اچھے اور برے طالبان میں تفریق پیدا کی، طالبان سے مذاکرات کا راگ چھیڑا، کوئٹہ شوریٰ کو پراپیگنڈا قرار دیا، بلیک واٹر پر الزام دھرا، ایبٹ آباد واقعے پر سنجیدہ نہیں ہوئے، افغانستان میں دشمن ممالک کے قونصل خانے دریافت کئے، اندرون ملک دہشت گردی کو کبھی مخالف خفیہ اداروں کی کارروائی بتایا تو کبھی وسیع تر قومی مفاد کا ذیلی نقصان قرار دیا۔ آج افغانستان میں مداخلت ہمارے دروازے پر آ کھڑی ہوئی ہے۔ باجوڑ دھماکہ تو ابتدائی اشارہ ہے، اپنی معیشت خراب ہے، بیرونی دنیا اب افغان قضیے سے آگے نکل چکی۔ افغانستان میں ایک حریف حکومت وجود میں آ چکی، ہم ماضی کی طرح خواب کا بیوپار کر رہے ہیں۔ آج کا سچ یہ ہے کہ ہمیں شفاف سیاست اور پیداواری معیشت کو ترجیح بناتے ہوئے دہشت گردی سے دوٹوک لڑائی کے سوا چارہ نہیں۔

(ختم شد)

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: