نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میلاد ٹاور اور ایرانی تہذیب(3)||نذیر لغاری

نذیر لغاری سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور ادیب ہیں اور مختلف قومی اخبارات ، رسائل ،جرائد اور اشاعتی اداروں میں مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں ، ان کی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہوٹل پارک وے سے میلاد ٹاور کا فاصلہ لگ بھگ 10 کلومیٹر ہے مگر ہم نیند کی مار کھائے مسافروں کیلئے یہ فاصلہ جھپکی لینے کیلئے کافی ثابت ہوا۔ ہم ایئرپورٹ سے آتے ہی سو تو گئے تھے مگر جب نیند پوری نہ ہوئی ہو تو گاڑی کے سفر میں بیٹھے بیٹھے سو جانے کی اپنی ہی آسودگی ہوتی ہے۔ سفر میں میری نیند کے دورانیئے منٹوں کے ہوتے ہیں۔ اس مختصر فاصلے میں بھی کئی جھپکیاں لے لی گئیں اور ہر جھپکی کے بعد تازگی کا احساس اورباہر جھانک کر پھر ایک اور جھپکی۔ایک جھپکی اوپل شاپنگ سنٹر تک، دوسری جھپکی عطیہ اسپتال تک، ایک اور جھپکی البلاغہ پارک تک، یوں جھپکی جھپکی لیتے ہم میلاد ٹاور پہنچے۔
میرے آخری بار تہران آنے پر میلاد ٹاور مکمل نہیں ہوا تھا، اس لئے اس ٹاور کے بارے میں میری کوئی یاد نہیں تھی۔ اب آپ تہران میں کہیں بھی کھڑے ہوں آپ کو ہر سمت سے میلاد ٹاور نظر آتا ہے۔ جب ساٹھ سال پہلے میں اپنے گاؤں سے کراچی آیا تھا تو غالباً اس وقت حبیب بینک پلازہ کی عمارت مکمل نہیں ہوئی تھی، البتہ جب چند سال بعد ہمارا خاندان مستقل کراچی منتقل ہوا تو حبیب بینک پلازہ کی عمارت اور قائداعظم کا مقبرہ کراچی کے کسی بھی علاقے سے صاف نظر آجاتا تھا۔
ہم میلاد ٹاور کے قریب پہنچے۔ یہ ٹاور مجموعی طور پر 16 لاکھ 60 ہزار مربع فٹ رقبہ پر بنا ہواہے۔ یہ دنیا کے دیگر بڑے مواصلاتی ٹاورز کی طرح گول طرز پر بنا ہوا ہے۔ میں نے برلن کا مواصلاتی ٹاور، دبئی کا برج الخلیفہ، پیرس کا ایفل ٹاور دیکھے ہوئے ہیں مگر اب تہران کے میلاد ٹاور کو دیکھنے کا ایک نیا اور انوکھا تجربہ ہو رہا ہے۔ ہم نے سڑک پر گاڑی سے اُتر کر سامنے دیکھا تو پہلی نظر کیفے 435 پر پڑی۔ ہم اس ہندسے پر چونکے اور اس ہندسے کے اپنے ہندسے 420 سے تعلق پر غور کرنے لگے۔ ڈاکٹر قیصر عباس نے ہماری حیرت بھانپ کر سرائیکی میں ہمیں سمجھایا کہ میلاد ٹاور کی بلندی 435 میٹر ہے، اس لئے یہاں کیفے کا نام ٹاور کی بلندی کی مناسبت سے کیفے 435 رکھا گیا ہے۔ ہم آگے بڑھتے ہیں ۔ دائیں اور بائیں جانب شاپنگ ایریا ہے جہاں ایران کے خوبصورت قالین اور انتہائی دیدہ زیب پینٹنگز رکھی ہیں، جنہیں آپ ایک نظر دیکھ کر شادکام ہو جاتے ہیں۔ یہاں بچوں کی کشش کیلئے بڑا سامان موجود ہے۔ بالکل سامنے خودکار زینے نظر آتے ہیں، دائیں طرف کے زینے سے لوگ اوپر جارہے ہیں اور بائیں طرف والے زینے کو نیچے آنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ درمیان پیدل اوپر چڑھنے اور نیچے اُترنے کیلئے خوبصورت پختہ ٹائیلز کی سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ ہم خودکاروں زینوں سے اوپر چڑھتے ہیں۔ لندن میں پکاڈلی ٹیوب کے پلیٹ فارم تک پہنچنے کیلئے اسی قدر طویل خودکار زینوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم اب ایک طویل دو رویہ راہداری پر آجاتے ہیں۔ جس کے دونوں جانب نیچے پانی کی نہریں بہتی نظر آتی ہیں۔ اور ہر جانب بہت وسیع رقبہ پر پختہ فرش، چھوٹے بڑے درخت، پودوں اور پھولوں کی باڑیں، بیٹھنے کیلئے بنچیں اور کچھ اوپر کی جانب تہران کے پہاڑوں کے سلسلے اور اُن کی چوٹیاں نظر آرہی ہیں جن پر میں سردیوں کے موسم میں چمکتی دمکتی برف دیکھ چکا ہوں۔ ہم راہداری سے ٹاور کی مرکزی عمارت کی طرف بڑھتے ہیں۔ اس راہداری کے اوپر بہت ہی خوبصورت قوسیں بنی ہوئی ہیں یوں لگتا ہے کہ ان قوسوں کو کسی ماہر تیرانداز نے تیر کی کمان سمجھ کر کھینچ کر نصف دائرے کی شکل دے دی ہو۔
ہم کھلی فضا کی راہداری سے ٹاور کے صحن میں آجاتے ہیں۔ میلاد ٹاور کی مرکزی عمارت کے نچلے حصے میں شاپنگ ایریاز، کانفرنس ہالز اور کاروباری دفاتر نظر آ رہے ہیں۔ سامنے اے ٹی ایم مشینوں جیسی مشینیں نظر آرہی ہیں۔ رضا شعبانی ایسی ہی ایک مشین کے سامنے جاکر کوئی اے ٹی ایم جیسا کارڈ نکال کر اسے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ گویا انہوں نے ٹاور کی لفٹ سے 290 میٹر کی بلندی پر ہمیں اوپر لے جانے کیلئے ٹکٹ خرید لئے۔ اب مہمانداری اور مہان نوازی کا ایک نیا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔
ہم سب لوگ لفٹ میں سوار ہوتے ہیں، یہ لفٹ ایک سیکنڈ میں سات میٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے۔ اس طرح ایک منٹ سے بھی پہلے لفٹ تقریباَ 41 سیکنڈ میں ہمیں 290 میٹر کے فاصلے پر ٹاور کی ایک بالائی منزل پر لے آتی ہے۔ جہاں سے آگے ٹاور کی باقی بلندی پر یہاں آنے والوں کی رسائی نہیں ہوتی۔ یہاں ہم ایک وسیع گول راہداری میں پہنچتے ہیں جہاں سُرخ رنگ کی قالین نے پوری راہداری کو ڈھانپ رکھا ہے۔ یہاں پر جگہ جگہ صوفے رکھے ہیں تاکہ یہاں آنے والے تھک جائیں تو کچھ دیر کیلئے سستا کر پھر سے اپنا شوقِ سیاحت پورا کریں۔ راہداری کے باہر شفاف شیشے لگے ہیں اور شیشوں کی دوسری طرف اسٹیل کے مضبوط جنگلے بنے ہیں جہاں سے کسی رکاوٹ کے بغیر چاروں طرف گھوم کر تہران کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں پر دور سے ہی کوہِ البرز، کوہِ خیلونو، کوہِ بُرج، کوہِ کامان، کوہِ دماوند، کوہِ توچل اور کوہ ہرزے کی چوٹیوں کے نظارے کئے جا سکتے ہیں۔ یہاں دور سے ہی ایران کے پرانے مہرآباد ایئرپورٹ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اتنی بلندی سے آزادی چوک کا منظر بہت خوبصورت لگتا ہے۔ ٹاور کے شمال مشرق کی طرف جا کر دیکھیں تو تہران کی بلندترین رہائشی عمارت بہت پست نظر آتی ہے۔ جنگلوں سے شہر کا منظر ایسے لگتا ہے جیسے آپ خلا میں چہل قدمی کر رہے ہوں۔ یہاں کئی مقامات پر دُوربینیں لگی ہیں جہاں سے بہت بلندی سے تہران کے طول وعرض کو بڑی تفصیل سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس راہداری کے جنوب میں ایک کاؤنٹر بنا ہوا ہے جہاں سے ٹکٹ لے کر ایڈونچر کئے جا سکتے ہیں، مثلاً ایک مقام پر تو آپ کھلی فضا میں جست لگا سکتے ہیں۔ ایک اور مقام پر خلا میں جھولا جھول سکتے ہیں۔ اسی طرح کی بعض دیگر مہم جوئیاں کی جا سکتی ہیں ، ہمارے نوجوان دوست مہم جوئی کیلئے ٹکٹ لے لیتے ہیں مگر ہم مہم جوئی اور طالع آزمائی کے کبھی حق میں نہیں رہے۔

ایک لاکھ 54 ہزار مربع میٹر رقبے پر پھیلے میلاد ٹاور کی تعمیر کا خیال سابق شاہ کے دور میں 1970ء کے عشرے میں آیا تھا مگر شاہ کے شاہ پسندوں کا یہ خواب خواب ہی رہا تھا۔ انقلابِ ایران کے 18 سال بعد میلاد ٹاور کی تعمیر کے کام کا آغاز ہوا، جس ٹاور کو شاہ پرستوں نے شاہ کی ولادت سے منسوب کرکے بنایا جانا تھا، اسے آیتہ اللہ خمینی کے صدسالہ یوم پیدائش کے موقع پر میلاد ٹاور کے نام سے تعمیرکیا جانے لگا اور اس کی تعمیر مکمل ہونے میں گیارہ سال لگے اوریہ ٹاور 2008ء میں مکمل ہوا۔

ہم نے اس ٹاور کے اس عجائب گھر میں جانا ہے جہاں ایران کی مشہور تاریخی شخصیات کے مجسمے رکھے گئے ہیں۔ یہ مجسمے مادام تساؤ کے میوزیم جیسے مجسمے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ مجسمے ابھی بات کرنا شروع کردیں گے۔ یہ عجائب گھر ایک اور منزل پرواقع ہے۔ میں مادام تساؤ کے ایسے عجائب گھر ایمسٹرڈم اور برلن میں دیکھ چکا ہوں۔ کسی ایشیائی ملک میں ایسے کسی عجائب گھر کی موجودگی میرے لئے خوشی کی خبر تھی۔
اس عجائب گھر میں سب سے پہلی نظر جنرل قاسم سلیمانی کے مجسمے پڑتی ہے۔ جنہیں تین سال پہلے امریکہ نے عراق میں حملہ کرکے نشانہ بنایا تھا۔ میں ان دنوں لندن میں تھا اور اس روز صبح صبح سب سے بڑی بریکنگ نیوز یہی تھی۔ وہ قدس فورس کے کمانڈر تھے۔ انہیں بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر نشانہ بنایا گیا۔ وہ 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کا مرکزی کردار بن کر اُبھرے تھے۔ اس پوری جنگ کے دوران اسرائیلی بری فوج لبنان کے کسی بھی علاقے میں داخل نہیں ہو سکی تھی اور اسی جنگ میں اسرائیلی بحریہ کو میزایئلوں کی بوچھاڑ میں بہت بڑا نقصان اُٹھا پڑا تھا۔ اس مومی عجائب گھر میں بہت سے ایرانی سائنسدانوں، انجینئروں، پروفیسروں، شاعروں اور سیاستدانوں کے مجسمے رکھے ہیں۔ ایک اور قابل ذکرمجسمہ ایران عراق جنگ کے ایام کے دوران ایران کے صدر علی اکبرہاشمی رفسنجانی کا بھی تھا۔اس مجسمے میں رفسنجانی اپنا مخصوص لباس کتھئی رنگ کا جُبہ، سفید کرتا اور سفید دستار زیب تن کئے ہوئے کرسی پر بیٹھے ہیں۔ اس مقام پر ان کی چند تصویریں بھی آویزاں ہیں اور قدآدم پردے پر لکھا قصیدہ آویزاں ہے، جو فارسی میں ہے اور جس میں علی اکبرہاشمی رفسنجانی کے فضائل و اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ یہاں ہر مجسمہ کسی نہ کسی قابلِ ذکر شخصیت کا ہے ۔ مجھے اس میوزیم میں آیتہ اللہ خمینی یا موجودہ رہبر آیتہ اللہ خامنہ ای کا مجسمہ نظر نہیں آیا۔ یہاں دو مجسمے قابل ذکر ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ الگ الگ کیبن میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اُن میں ایک ابنِ سینا اور دوسرا فردوسی کا ہے۔
ابن سینا کو بابائے طب کہا جاتا ہے۔
وہ ایک ہزارسال سے زیادہ عرصہ قبل 980ء میں ایران میں افشانہ کے مقام پر پیدا ہوا۔ اس کی ذہانت نے اپنے عہد اور آنے والے زمانوں میں دنیا کے کونے کونے کے انسانوں کو متاثر کیا۔ اسے شرف الملک، حجتہ الحق اور الشیخ الرئیس کے خطابات ملے۔
فردوسی کو آپ یونان کے ہومر اور روم کے ورجل جیسا بلکہ اُن سے کسی حد تک بڑا شاعر کہہ سکتے ہیں۔ فردوسی نے اپنی شاعری سے ایران کی جدید تہذیب کی بنیاد رکھی اور قدیم ایرانی ثقافت کا احیا کیا۔ میں نے منظر نقوی صاحب کے کان میں کہا کہ “ایران کے انقلاب نے شاہ ایران کے اقتدار اور اس کے جبرواستبداد کا خاتمہ کیا مگر اس نے ایران کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کو مسخ نہیں کیا۔ ابنِ سینا اور فردوسی کے مجسموں کو دیکھ کر کم از کم مجھے تو یہی احساس ہوتا ہے”۔

ادھر ہم ہیں کہ اپنی تہذیب و ثقافت اور تاریخ کی ہر نشانی کو مٹا دینے پر تُلے ہوئے ہیں، جیسے آزادی سے پہلے یہاں کوئی تہذیب سرے سے موجود ہی نہیں تھی، یہاں کوئی ثقافت بھی نہیں تھی اور تاریخ کا تو گویا وجود ہی نہیں تھا۔

پرواز کے دوران میری نظرطیارے کی بڑی اسکرین پر پڑی تو پتہ چلا کہ طیارہ تہران کی حدود میں داخل ہوچکا ہے۔ میں نے منظر نقوی صاحب کو سوتے سے جگا دیا اور کہا کہ سرکار تہران آگیا۔ انہوں نے چونک کر آنکھیں کھولیں اور کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہنے لگے “یہاں سمندر کہاں سے آ گیا”

میں نے کہا” کہ یہ پہاڑوں اور صحرا کی رات کا سمندر ہے۔” امام خمینی ایئرپورٹ کے نام سے موسوم سلام ایئرپورٹ تہران سے تیس کلو میٹر جنوب میں واقع ہے۔ رات کے وقت باہر کی تاریکی سمندر کی مانند گہری اور پُراسرار لگتی ہے۔ چند منٹوں کے بعد جہاز خلاء کی وسعتوں سے دھرتی کی پناہوں میں آگیا۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کے جناح ٹرمینل کے انٹرنیشنل لاؤنج کے گیٹ نمبر 26 سے ٹیکسی کرکے پرواز کرنے والا طیارہ امام خمینی ایئرپورٹ پر بھی گیٹ نمبر 26 پر آکر رُک گیا۔ گویا آج ہمارا لکی نمبر26 قرار پایا ہے۔
جہاز سے باہر آئے۔ امیگریشن کے مرحلے سے گزرے اور ڈاکٹر سعید طالبی نیاکے سامان کے حصول کیلئے اسٹرپ کے سامنے پہنچ گئے۔ غالباً اویس ربانی صاحب نے بھی اپنا سامان بُک کرایا تھا، وہ بھی ڈاکٹرطالبی نیاکے ساتھ سامان کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔ تہران ایئرپورٹ کی گھڑیوں پر رات کے ساڑھے تین بج رہے تھے۔ ایران اور پاکستان کے وقت میں ڈیڑھ گھنٹے کا فرق ہے۔ منظر نقوی صاحب کے موبائل فون پر خودکار نظام کے تحت پاکستان کا وقت ایران کے وقت میں بدل چکا تھا۔ کچھ دیر بعد میرے فون نے بھی ایران کے اوقات اور میری اوقات سے سمجھوتہ کر لیا۔ میں اور منظر نقوی اپنا اپنا دستی بیگ لے کر ایک طرف کو بیٹھ گئے جب کہ ڈاکٹرطالبی نیا، ڈاکٹرتہرانی اور اویس ربانی اپنے سامان کا انتظار کرنے لگے۔ ایسے میں ایک نوجوان میرے اور منظر نقوی صاحب کے سامنے آکر کھڑا ہوا اور اپنا تعارف رضا شعبانی کے نام سے کرایا اور یہ اطلاع دی کہ ہم اب اس نوجوان کے حوالے ہیں۔ اس نوجوان نے اپنا تعلق ایران کی وزارتِ خارجہ سے بتایا۔ میں بیس سال پہلے بھی ایرانی وزارتِ خارجہ کے افسروں کی مہمان نوازی اور مہمان داری سے فیضیاب ہو چکا ہوں۔ ان دنوں صحافیوں کا ایک 9 رکنی وفد ایران کے دورے پر آیا تھا جن میں ارشاد احمد حقانی(جنگ)ضیاءالدین (ایکسپریس ٹریبیون)، طارق وارثی(نوائےوقت) ایاز بادشاہ(مشرق) سہیل قلندر (ایکسپریس پشاور) معین حیدر(سابق صدر لاہور پریس کلب ) اور دیگر شامل تھے۔ بیس سال بعد ایرانی وزارت خارجہ کے ایک اور افسرسے ملنے کا تجربہ خوشگوار محسوس ہوا۔
ایئرپورٹ پر دس بارہ نشستوں کی ایک بڑی گاڑی ہمیں لینے کیلئے آئی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر طالبی نیا اور ڈاکٹر تہرانی یہاں سے ہم سے رخصت ہوگئے اور رضا شعبانی گاڑی میں بٹھا کر ہمیں ایئرپورٹ کی حدود سے باہر آگئے۔ گاڑی کچھ دور آگے چل کر ایک پٹرول پمپ کی طرف مڑ گئی۔ جب ڈرائیور پٹرول بھروانے لگا تو ہم نے رضا سے پٹرول کے نرخ پوچھے۔ رضا نے یہ بتا کر ہمیں حیرتوں کی ہوا میں اچھال دیا کہ یہاں پٹرول کی قیمت پاکستانی کرنسی میں دس روپے فی لیٹر ہے۔ گویا یہ بڑی گاڑی ہمارے ہاں کے چار لیٹر پٹرول کی قیمت میں اپنی ٹینکی مکمل بھروا لے گی۔
یادش بخیر 16 سال قبل جب میں چوتھی بار ایران آیا تھا تو یہاں اس وقت شدید بین الاقوامی پابندیوں کے باعث پٹرول اور ڈیزل کی راشننگ ہو رہی تھی۔ مگر اب امریکی پابندیوں کے باوجود خطے میں سیاسی حالات اور صورتحال تبدیل ہونے کے باعث ایران مشرق وسطی کے ممالک میں سب سے زیادہ تیل پیدا کررہا ہے۔ ایران اب بھی دنیا کی 21ویں بڑی معیشت ہے۔ ایران میں بین الاقوامی سرمایہ کاری میں خاطرخواہ اضافہ ہو رہا ہے۔ 2017ء میں تو بین الاقوامی سرمایہ کاری میں حیران کن اضافہ ہوا تھا اور اب بھی عالمی سرمایہ کاری سے ایرانی معیشت کو بڑی تقویت حاصل ہو رہی ہے۔ ایرانی معیشت کا حجم یورپ کے بہت سے امیراور متمول ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔

 

گاڑی کی ٹینکی فُل کرانے کے بعد ڈرائیور تہران شہر کی طرف شاہراہ پر گاڑی دوڑانے لگا۔ یہ گاڑی تہران کے شمال میں واقع کوہِ البرز کے طویل پہاڑی سلسلے کے پہاڑ توشال کی جانب بڑھ رہی ہے۔ رضا شعبانی ہمیں بتاتے ہیں کہ ایئرپورٹ سے ہمارے ہوٹل کا فاصلہ 40 کلومیٹر سے زائد ہے اور ہم لگ بھگ ایک گھنٹے میں وہاں پہنچیں گے۔
صبح کاذب سےصبح صادق پیدا ہو رہی تھی، رات بھر جلنے والی بتیاں اب اہستہ اہستہ بجھنے لگی تھیں۔ تاہم سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ زیادہ تر گاڑیوں کی بتیاں اب بھی روشن تھیں۔ ہم پرانے مہرآباد ایئرپورٹ اور برج آزادی سے آگے شہر کے مرکزی علاقے کی طرف جا رہے ہیں۔ ہماری منزل پارک وے ہوٹل ہے۔ جب ہم اس ہوٹل کی جانب مڑتے ہیں تو ان گنت ہوٹلوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہم گلستان محل، عصری فنون کے عجائب گھر، میلاد ٹاور اور دیگر کئی عمارتوں کو پیچھے چھوڑ آئے۔آگے مختلف ہوٹلوں کے مہمانوں کیلئے سڑک پر ہی پارکنگ ایریاز بنائے گئے ہیں۔ ہر ہوٹل کے آگے سڑک پر دونوں جانب ایک خاص ترتیب کے ساتھ گاڑیاں پارک کی گئی ہیں۔ تقریباَ ہر ہوٹل کے آگے گاڑیوں کو باہر ہی روکنے کیلئے ایسے گیٹ بنائے گئے جیسے کراچی کے مختلف علاقوں میں سڑکوں اور گلیوں میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے گیٹ لگائے جاتے تھے یا جیسے ہمارے ہاں مختلف ہوٹلوں کے آگے بیریئر لگائے جاتے ہیں۔ مگر تہران کے ہوٹلوں کے باہر نہ تو کوئی واک تھرو گیٹ نظر آئے اور نہ ہی سکیورٹی کا عملہ نظرآیا۔
ہوٹل پارک وے کوئی کثیرالمنزلہ عمارت نہیں تاہم یہ ایک دومنزلہ وسیع عمارت نظر آتی ہے۔ اس ہوٹل کا اپنا پارکنگ ایریا بھی ہے جہاں دودرجن بھر سے زائد گاڑیوں کے کھڑے ہونے کی گنجائش ہے۔ ہماری گاڑی ہوٹل کے بیریئر کے قریب پہنچ کر رک گئی تو ہم اپنے میزبان رضا شعبانی کے ہمراہ گاڑی سے نیچے اُتر آئے، سورج طلوع ہوچکا تھا اور چہار جانب اُجالا پھیل چکا تھا۔ بیریئر سے آگے ہوٹل کے داخلی دروازے تک جو راہداری بنائی گئی ، اسے فرش کے ساتھ گھاس کی باریک کیاریوں کی شکل دی گئی تھی۔ جو علی الصباح بہت خوشنما لگی۔ ہم مسافر ہوٹل کی لابی میں آگئے ۔ یہاں ہمارے وفد کے چوتھے رکن، کراچی یونیورسٹی کے طالب علم اور ہمارے فارسی سے اردو کے نوجوان مترجم علی زین نقوی بھی ہوٹل پہنچ چکے تھے۔ ہمیں دوشیئرنگ کمرے دیئے گئے۔ مجھے اور منظر نقوی صاحب کو کمرہ نمبر105 ملا جب کہ اویس ربانی صاحب اور علی زین نقوی صاحب کمرہ نمبر104 کے مکین بنے مگر شام کو منظر نقوی کمرہ نمبر109 میں منتقل ہوگئے تھے۔ ہم سب رات بھر کے جاگے ہوئے تھے چنانچہ ہم سونے کیلئے چلے گئے۔
چند گھنٹے کی نیند لے کر تروتازہ ہوگئے اور کمروں سے باہر آگئے۔ دوپہر ہو چکی تھی۔ ہم نے ریسٹورنٹ کی کھلی فضاء میں آ کر کرسیاں سنبھال لیں۔ ہم نے ابھی دوپہر کے کھانے کا آرڈر نہیں دیا تھا کہ ایک نوجوان نے آ کر اردو میں پوچھا کہ کیا آپ لوگ راشد صاحب کے مہمان ہیں۔ ہم میں سے کسی نے بھی ایران میں راشد صاحب سے اپنی شناسائی کا اقرار نہیں کیا۔ نوجوان واپس پلٹ کر جانے لگا تو میں نے کہا بھائی نوجوان سے پُوچھ تو لیا جائے کہ وہ کون ہے اور ہم سے کیا پوچھنا چاہ رہا ہے؟ نوجوان کو بُلا کر نام پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میرا نام قیصر عباس ہے، میرا تعلق ڈیرہ اسمعیل خان سے ہے اور میں تہران یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر چکا ہوں۔ پھر میرے اور دوسرے دوستوں کے ناموں کے بارے میں جان کر اس نے کہا کہ مجھے آپ لوگوں کے ترجمان کے طور پر راشد صاحب نے بھیجا ہے۔ راشد صاحب سے دوسرے تیسرے روز ملاقات میں معلوم ہوا کہ اُن سے میری کربلا میں ملاقات ہو چکی ہے اور انہوں نے ہماری آمد کی اطلاع پاکر ہمارے ترجمان کے طور پر قیصر عباس کو بھیجا تھا۔ اس اثنا میں ہمارے میزبان رضا شعبانی، ان کے ایک ساتھی مسٹر علی اور ڈرائیور بھائی محمد بھی آچکے تھے۔ اُن کے آنے سے پہلے ہم ایک دوسرے سے یہ کہہ رہے تھے کہ کیا ہمیں تھکن اُتارنے کے موقع کے نام پر ہوٹل میں رکھا جائے گا یا باہر بھی لے جایا جائے گا۔
اب ہماری رضا شعبانی سے آشنائی دوستی میں بدل چکی تھی، مگر یہ سطور لکھتے ہوئے ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ دوستی عارضی ہے یا مسقل ہے۔ ہماری کئی ایرانی سفارتکاروں سے دوستی ہوئی اور کافی عرصہ چلتی بھی رہی مگر اس دوستی اور اس کے رابطوں کو برسوں بیت جاتے ہیں۔ کہنے کو تو آیتہ اللہ خمینی کے پوتے آغا حسن خمینی سے بھی میری شناسائی دوستی میں بدلی، انہوں نے مجھے اور میرے بیٹے سرفراز خان کو اپنی کتابوں کا تحفہ بھی دیا مگر ہمارے رابطوں کا تسلسل برقرار نہ رہ سکا۔ ایرانی سفارتکاروں آغا زائری، بختیاری صاحب، علی موسی صاحب ، حدادی صاحب اور سعید توفیقی صاحب سے ہماری دوستی شناسائی سے بڑھ کر تھی۔ مگر میرے ایران جانے میں پندرہ سولہ سال کے وقفے نے ان احباب کی یادوں کو تازہ رکھا مگر ملاقاتوں اور رابطوں کا تسلسل باقی نہ رہا۔
ہم نے رضا سے پوچھا کہ کیا ہم ہوٹل سے باہر نکلیں گے یا آج ہوٹل میں رہ کر کل کا انتظار کریں گے۔ رضا نے بتایا کہ ہم آپ کو ساتھ لے کر باہر نکلنے کیلئے آئے ہیں۔ آپ لوگ اپنے کمروں سے ہوکر گاڑی کی طرف آجائیں۔ میں نے محسوس کیا کہ باہر نکلنے کے اعلان سے ہمارے دوستوں کے چہرے کھل اُٹھے ہیں۔ ہم اپنا ضروری سامان ساتھ لینے اور چارجنگ کیلئے لگائے گئے فون اُٹھانے کیلئے اپنے اپنے کمروں کی طرف چل پڑے اور تھوڑی دیر بعد واپس لابی میں آگئے جہاں سے ہمارے کارواں نے باہر نکلنا تھا۔ ہم نے رضا سے پوچھا،” رضا اب ہماری منزل کیا ہے۔ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ہم کسی سے ملنے جا رہے ہیں یا کسی مقام کو دیکھنے جا رہے ہیں۔ رضا نے بتایا کہ ہم ایران کی سب سے بلند عمارت دیکھنے جا رہے ہیں اور اس کا شمار دنیا بھر کی بلندترین تعمیرات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم میلاد ٹاور دیکھنے جا رہے ہی۔

یہ بھی پڑھیے:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

About The Author