نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تہران روانگی، سفارتکار کی کتابیں اور فارسی دانی(1)||نذیر لغاری

نذیر لغاری سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور ادیب ہیں اور مختلف قومی اخبارات ، رسائل ،جرائد اور اشاعتی اداروں میں مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں ، ان کی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایران ایئر کی پرواز آئی آر 813 نے کراچی ایئرپورٹ کے جناح ٹرمینل سے رات کے ایک بج کر 35 منٹ پر تہران کے امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کیلئے روانہ ہونا تھا۔ ہمیں خانۂ فرہنگ کے برادرم نجم موسوی نے ہفتہ کی شب گیارہ بجے ایئرپورٹ پر پہنچ جانے کیلئے کہا تھا۔ ہفتہ 8 جولائی کو دن میں کراچی کے کئی علاقوں میں وقفہ وقفہ سے بارش ہوتی رہی۔ نجم نقوی صاحب کو خدشہ تھا کہ کہیں رات میں بارش تیز نہ ہوجائے اور ہمیں ایئرپورٹ پہنچنے میں مشکلات پیش نہ آئیں۔ کراچی سے چار افراد کے قافلے نے رونہ ہونا تھا۔ ہمارے وفد کے ایک رکن علی زین نقوی ایک ہفتہ پہلے ہی تہران پہنچ چکے تھے۔ ہم چار افراد کے قافلے میں کراچی میں خانۂ فرہنگ کے سربراہ ڈاکٹر سعید طالبی نیا چھٹیوں پر ایران جا رہے تھے جبکہ فنانشل ٹائمز کے مدیراعلی جناب منظرنقوی اور جی ٹی وی کے مذہبی شعبہ کے جناب اویس ربانی ہمارے وفد کا حصہ تھے۔ منظر نقوی کہنہ مشق سینیئر صحافی ہیں، وہ “دی مسلم” سمیت مختلف انگریزی اخبارات میں کام کرنے کے بعد کراچی سے اپنا انگریزی روزنامہ فنانشل ڈیلی نکال رہے ہیں۔ لگ بھگ دس سال پہلے ہم نے صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ ایک ساتھ ترکی کے دورے پر جانا تھا مگر میں بوجوہ نہ جا سکا تھا مگر اس بار یہ موقع ضائع ہونے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا تھا۔اویس ربانی کا شمار موجودہ دور کے نوجوان مقررین کی اس صف میں ہوتا ہے جو دلیل و منطق اور جذبہ و خیال کی آمیزش سے اپنی گفتگو میں ایک سماں باندھ دیتے ہیں۔
اگرچہ میرا گھر ایئرپورٹ سے زیادہ دور نہیں ہے مگر میں سوا دس بجے گھر والوں سے رخصت ہوکرایئرپورٹ کیلئے نکل آتا ہوں۔ نجم موسوی صاحب کا فون آتا ہے اور میرے گھر سے نکلنے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ میں انہیں بتاتا ہوں کہ میں نکل چکا ہوں اور چند منٹوں میں ایئرپورٹ پہنچ جاؤں گا۔ میں دیگر احباب کے بارے میں سوال کرتا ہوں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دیگر حضرات بھی گھروں سے نکل چکے ہیں۔ نجم موسوی صاحب خود ہمارے ساتھ نہیں چل رہے تھے مگر وہ سب کے ایئرپورٹ پہنچنے کے بارے میں فکرمند تھے۔
ایئرپورٹ پر میرےسب سے پہلے پہنچنے کا سبب یہ خوف تھا کہ میں کہیں تاخیر کے باعث سفر کرنے سے رہ ہی نہ جاؤں۔ میں نے ایئرپورٹ پر پہنچنے سے قبل سید منظر نقوی کو فون کر کے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اسٹار گیٹ کے علاقے کے قریب سے گزر رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد وہ بھی ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ اب ہمیں ڈاکٹر سعید طالبی نیا اور اویس ربانی کا انتظار تھا۔ میرے پاس ان دونوں صاحبان کے نمبر نہیں تھے۔ البتہ منظر نقوی کے پاس خانۂ فرہنگ کے ڈائرکٹر جنرل کا نمبر موجود تھا۔ وہ ان کا نمبر ملا کر ان سے بات کرنا چاہتے تھے مگر اُن کا نمبر نہیں مل رہا تھا۔
چند منٹ بعد ڈاکٹرسعید طالبی نیا اور اویس ربانی پہنچ گئے اور ہم ایئرپورٹ سکیورٹی کے واک تھرو گیٹ کی طرف بڑھ گئے۔ ڈاکٹر طالبی نیا کے پاس بہت سا سامان اور آموں کی پیٹیاں تھیں۔ آموں کی پیٹیاں جہاز کے ذریعے جا رہی ہوں تو کسی بھی شخص کا ٹھٹھک جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ مگر آموں کی یہ پیٹیاں سکیورٹی کلیئرنس سے گزر کر اپنی معصومیت کا ثبوت دے چکی تھی اور یوں بھی یہ پیٹیاں بہاول پور سے لوڈ نہیں کی جارہی تھی اور پھر ہمارے طیارے نے دریائے ستلج سے گزر کر بستی لال کمال کے اوپر سے بھی نہیں گزرنا تھا۔ تاہم ایک ناپسندیدہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب اسکیننگ مشین کے سامنے موجود اے ایس ایف کی ایک باوردی خاتون نے ڈاکٹر طالبی نیا کے کتابوں کے ایک بکس پر اپنا اعتراض داغ دیا اور اسے کھولنے کا فرمان جاری کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اور میرے سامان کو سفارتی تحفظ حاصل ہے تو خاتون نے ایک انسپکٹر کو بُلا لیا۔ انسپکٹر اپنے ایک اور ماتحت کو لے کر شانِ بے نیازی سے اسکیننگ مشین کے قریب آگئے اور معاملہ جان کر ڈاکٹر طالبی نیا سے فرمانے لگے کہ آپ کے بکس پر چونکہ سفارتی مہر نہیں ہے لہذا اسے کھولنا لازمی ہو گا۔ ڈاکٹر طالبی نیا نے اپنی سفارتی شناخت کرائی مگر ہمارے اے ایس ایف کے اہلکار مطمن نہ ہوئے۔ ہمیں شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ ہمارے سامنے ایک دوست ملک کے سفارتکار کے ساتھ نامناسب طرزِعمل اختیار کیا جارہا ہے مگر ساتھ ہی ہمیں حیرت تھی ہو رہی تھی کہ جب آموں کی پیٹیاں کلیئر ہوگئی ہیں تو اب کتابوں سے کیا سکیورٹی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
اب طالبی نیا صاحب ایک طرف ہوکر کھڑے ہوگئے اور اے ایس ایف کے اہلکار کتابوں کے بکس کو ادھیڑنے میں مصروف ہوگئے۔ اب بکس کی کتابیں ہمارے سامنے تھیں۔ اے ایس ایف کے اہلکاروں نے ایک ایک کتاب کو اس طرح اُٹھایا جیسے انہیں ہر کتاب میں دھماکہ خیز مواد کی موجودگی کا یقین ہو۔ پھر وہ مایوس ہوکر ایک ایک کتاب کو بکس میں واپس رکھنے لگے۔ اگلے مرحلے میں ایک ٹیپ اُٹھا کر ادھیڑے جانے والے بکس کو واپس ٹیپ لگا کر کسی احساسِ ندامت یا سوری کا ایک لفظ کہے بغیر واپس چلے گئے۔

 

اس مرحلے سے گزر کر ہم بورڈنگ کارڈ حاصل کرنے کیلئے ایران ایئر کے کاؤنٹر پر چلے گئے۔یہاں پہنچ کر ڈاکٹر طالبی نیا اپنے سامان کی ریپنگ کرانے کیلئے چلے گئے تاکہ سامان بحفاظت انہیں واپس مل سکے۔ اس دوران معلوم ہوا کہ اویس ربانی صاحب اپنا بورڈنگ کارڈ حاصل کرچکے ہیں لیکن ہم نے ڈاکٹر طالبی نیا کا انتظار کرنا مناسب سمجھا۔ ہم دونوں یعنی منظرنقوی صاحب اوراس احقر کے پاس محض ایک ایک دستی بیگ تھا جن میں چند جوڑے کپڑے تھے لہذا ہم نے اپنا سامان اپنے ہاتھ میں ہی رکھا۔ ڈاکٹر طالبی نیا نے اپنا سامان بُک کرایا اور پھر اپنے بورڈنگ کارڈ کے ساتھ ہمارے بورڈنگ کارڈز بھی حاصل کرلئے ۔ ہماری نشستوں کے نمبر 7 سی اور 7 جے تھے جو اکانومی کلاس کی پہلی قطار کی پہلی دونشستیں تھیں۔ جناب اویس ربانی کی نشست کا نمبر 16 تھا ۔ بورڈنگ کارڈ لے کر ہم امیگریشن کی قطار کی جانب بڑھ گئے۔ میں اور منظر نقوی صاحب معمر اور معذور لوگوں کی قطار کی طرف چلے گئے۔ شاید امیگریشن افسر نے ہمیں پہچان لیا تھا لہذا ہم بآسانی اس مرحلے سے گزر گئے۔
ہم لاؤنج میں پہنچے، جہاں گیٹ 26 سے ایران ایئر کی فلائٹ نے تہران کیلئے روانہ ہونا تھا، لاؤنج گھچا کھچا بھرا ہوا تھا اس لئے ہم گیٹ نمبر 26 کی بجائے گیٹ نمبر 24 کے سامنے آکر بیٹھ گئے۔ اس موقع پر ایک اور شریک سفر ڈاکٹر تہرانی بھی ہمارے ساتھ تھے، وہ تہران کی کسی یونیورسٹی کے ڈائرکٹر تھے۔ یوں یہ قافلہ پانچ افراد پر مشتمل ہو گیا۔ ہم لگ بھگ سوا بارہ بجے لاؤنج میں پہنچے اور دن بدل چکا تھااور کیلنڈر کے اعتبار سے تاریخ بھی بدل چکی ۔ ہمارے اندازے کے مطابق ہمارے لئے ایک بجے جہاز کی سمت روانگی کا فرمان ہونا تھا۔ اس دوران قطر ایئرویز کی دوحہ روانگی کا اعلان ہوا، گویا خلیج فارس کے مغربی کنارے کے مسافروں کی روانگی کا اعلان ہو رہا تھا جو اسے خلیج عرب کہتے ہیں اور ہم اس خلیج کے مشرقی کنارے کے مسافر تھے۔ ڈاکٹر علامہ تہرانی سفید ریش پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ہم سے فارسی کی بلاغت کی توقع لگائے ہوئے تھے اور ہم فارسی کے ساتھ اردو اور سرائیکی کی امیزش کرکے اپنی کوتاہ فہمی کا اشتہار بنے ہوئے تھے۔ اب لگ رہا تھا کہ جہاز کی روانگی میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ لگ بھگ ڈیڑھ بجے ہمیں گیٹ نمبر26 سے جہاز میں سوار ہونے کی ہدایت کی گئی۔ ہم گیٹ نمبر24 کے سامنے سے اُٹھ کر جہاز کی جانب چل دیئے۔ جہاز کے اندر داخل ہوتے ہی دائیں جانب کی پہلی دونشستیں منظر نقوی اور اس احقر کی نشستیں تھیں۔ ہم نے نشستیں سنبھال لیں۔ میں اس سے پہلے بھی دو بار تہران کیلئے فضائی سفر کر چکا ہوں مگر دونوں بار مہرآباد ایئرپورٹ ہماری منزل ہوتی تھی مگر اس بار ہمیں تہران کے نئے ہوائی اڈے سلام ایئرپورٹ کے امام خمینی ٹرمینل پر پہنچنا ہے۔
ٹھیک ایک بج کر 58 منٹ پر طیارے نے رن وے ٹیکسی کرنے کے بعد ٹیک آف کیا۔ طیارہ فضاء میں بلند ہوا اور بحیرہ عرب کی جانب بڑھ گیا۔ اب اسے بلوچستان کی فضاؤں سے گزرتے ہوئے تہران کی جانب بڑھنا ہے۔ مسافر رات گئے فضائی میزبانوں کی میزبانی سے سیرشکم ہونے کے بعد اونگھتے جارہے تھے۔ ہم نے آنکھیں بند کیں اور ایک آدھ گھنٹے کیلئے سو گئے۔ طیارہ آگے بڑھ رہا تھا اور فاصلے سمٹتے جا رہے تھے ۔ جاری ہے۔۔۔

یہ بھی پڑھیے:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

About The Author