حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصف صدی ہوتی ہے قلم مزدور کو یہ عرض کرتے ہوئے کہ کرپشن یقیناً مسئلہ ہے لیکن فقط یہی مسئلہ ہرگز نہیں۔ ثانیاً یہ کہ دوسرے شعبوں کی طرح سیاسی عمل میں بھی کرپشن زدہ لوگ ہیں مگر یہ کہ صرف سیاستدان کرپٹ ہیں یہ صریحاً غلط ہے۔ سیاستدان کرپٹ ہیں، جمہوری عمل چوروں کا شوق ہے۔ کرپٹ، چور، لٹیرے ان کے بس میں ہو تو ملک بیچ کر کھاجائیں اس فہم کو اجاگر کرنے اور پھر سیاست کی دیوانگی کا حصہ بنوانے میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کا پورا پورا ہاتھ ہی نہیں تھا بلکہ مختلف اوقات میں ہم خیال لشکر بنانے سجانے اور میدان میں اتارنے کے لئے وسائل بھی فراہم کئے گئے۔
ساعت بھر کے لئے رکئے۔ یہ بتادیجئے کہ 2018ء میں بیٹیوں کے کالج جانے آنے کے اوقات بتاکر لوگوں کو سیاسی جماعت تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کو اگر دشمن پارٹی کی وکٹ گرانا کہتے تھے تو آج پریس کانفرنسوں کے ذریعے 9مئی کے واقعہ کی مذمت کو ریاستی جبر کیوں کہتے ہیں؟
جو کام 2018ء میں درست تھا اب غلط کیوں؟ اب غلط ہے تو 2018ء میں درست کیوں تھا؟
چند دن ہوتے ہیں بازار سے 4 کلو آم خریدے ریڑھی والے نے ایسی ہاتھ کی صفائی دیکھائی کہ گھر پہنچ کر پتہ چلا 5 آم خراب ہیں۔ ایک درجن کیلے لئے تھے تین خراب نکلے۔ سیاستدان ہی فقط چور ہیں باقی میں اور آپ اور چار اور سب سادھو بستے ہیں نصف صدی کے ہزاروں قصے ہیں۔ مشاہدات ہیں تجربات بھی۔
ان سطور میں ہمیشہ عرض کیا بشری خامیاں یقیناً سیاستدانوں میں ہیں لیکن یہ سب سے کمزور مخلوق ہے جتنی مرضی گالیاں دیجئے۔
ہمارے آپ کے سامنے پھر ایک گالم گلوچ بریگیڈ میدان میں اتاری گئی۔ اس بریگیڈ نے ہر شخص کو منہ بھر کے گالی دی ہم نے بڑے بڑے علامے، فاضل اور سُچل و مصنوعی ادیب بدزبان ہوتے دیکھے اس گالم گلوچ بریگیڈ کی محبت میں صرف یہی نہیں بلکہ اس گالم گلوچ بریگیڈ کے بڑوں کی کرپشن کا یہ کہہ کر دفاع ہوتے بھی دیکھ رہے ہیں ’’پھر کیا ہوا نواز اور زرداری بھی تو چور ہیں‘‘؟
ارے بندگانِ بنی گالہ آپ تو چوروں کے خلاف لائے گئے تھے ایجنسیوں کے دفاتر میں آپ کو وہ فائلیں پڑھوائی گئیں جن میں چوریوں کے قصے درج تھے پھر چوروں کی پیروی کیوں کی؟
ایک تحقیقاتی کمیشن بنواکر دیکھ لیجئے۔ ماضی کے دو آرمی چیف اور صرف نوازشریف، زرداری چار افراد کی کرپشن کا حساب کرے یہ کمیشن لگ پتہ جائے گا کتنے بیس میں سو ہوتا ہے۔
آپ ججوں (اعلیٰ عدلیہ) کی تنخواہیں مراعات پنشن پر غور کریں اور پھر ان پلاٹوں کا حساب جو یہ وصول پاتے ہیں۔ چند برس قبل تو سارے کارنر پلاٹ قرعہ اندازی میں نکلے تھے ان کے،
کرپشن ہے یہ مسئلہ بھی ہے مگر واحد مسئلہ نہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ اپنے گریبان میں جھانکے بنا دوسروں کے گریبان سے کھیلنا ہے وہ کیا کہتے ہیں اپنی آنکھ کا شہتیر دیکھائی نہیں دیتا دوسرے کی آنکھ میں تنکا تلاش کرلیتے ہیں۔
ایک سے ایک کارگیر ہے اس ملک میں، بڑا اور ماہر کاریگر۔ کیا تھانوں، کچہریوں، نچلی و بڑی عدالتوں، محکمہ مال کے دفاتر، اینٹی کرپشن، ایف آئی اے وغیرہ وغیرہ میں کرپشن ختم ہوگئی؟ پرسوں ٹماٹر 100روپے کلو تھے عید سے دو دن قبل 250 اور 300روپے کلو فروخت ہوئے یہ کرپشن نہیں ہے؟
تبدیلی پسندیوں اور ان کے لیڈر نے ہر شخص کو اوئے توئے بے غیرت، چور، ڈاکو وغیرہ وغیرہ کہا اب اس کا سارا ٹبر چور ثابت ہورہا ہے۔ تبدیلی پسند کہیں گے یہ سیاسی انتقام پر مبنی الزامات ہیں ہمارا لیڈر تو یوٹیوب تک سے پیسے کمالیتا ہے ممکن ہے یہ بات درست ہو لیکن جن پر ان کا لیڈر الزامات لگاتا رہا وہ الزامات بھی اسے ایجنسیوں نے لکھ کر دیئے تھے۔
ہمارا اصلہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسائل کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اپنے اپنے وقت میں اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بن کر اچھلتے کودتے ہیں دھتکار دیئے جانے کے بعد مظلوم بن کر رونے دھونے لگتے ہیں۔
ایک بار پھر ساعت بھر کے لئے رکئے۔ عمران خان نے حال ہی میں اپنے یوٹیوب خطاب میں انکشاف کیاہے کہ
’’قرآن میں لکھا ہے کہ ظلم کے خلاف اٹھ نہیں سکتے تو مرجائو‘‘۔ خان صاحب اور ان کے پیارے مذہبی و وحدتی اتحادی بس اس آیت کا نمبر سورۃ اور سپارہ بتادیں۔
اللہ کے بندو مسئلہ یہ ہے کہ ملک کی معیشت کا بڑا حصہ کس کے قبضے میں ہے کبھی اس پر غور کیا؟ پچھلے برس اپریل سے قبل انصافی کہتے تھے ’’پاک فوج کی محبت کے لئے ماں کا نیک اور باپ کا ایک ہونا ضروری ہے‘‘۔ اب کیا ہوا؟
اچھا یہ جو پی ڈی ایم اور اتحادی آجکل دفاع فوج کو ایمان کا افضل ترین رکن بنائے ہوئے ہیں یہ فضیلت ان پر کب منکشف ہوئی؟
یہ سب دھندے باز ہیں اپنے اپنے وقت پر اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دینے اس کے ناز اٹھانے والے۔
آپ عمران خان کو ہی لے لیجئے وہ اب بھی مذاکرات پر آمادہ ہے لیکن صرف آرمی چیف سے۔
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دستیاب سیاسی جماعتوں کو یہ تلخ حقیقت معلوم ہے کہ یہ ملک سکیورٹی اسٹیٹ ہے۔
تین دن ادھر ایک دوست کے توسط سے دل کے عارضہ میں ہوئی گڑبڑ کی وجہ سے دوسری رائے کے لئے ایک ماہر امراض قلب ڈاکٹر جاوید اشرف سے تفصیلی معائنہ کروایا دوست نے ان سے تعارف کروادیا۔ معائنہ کے دوران مرض کے علاوہ بھی گفتگو ہوئی۔
میں نے ان سے سوال کیا، آپ نے لگ بھگ ایک گھنٹہ دس منٹ تفصیل سے ہسٹری سنی، معائنہ کیا لیکن اے سی جی اور ایکو ٹیسٹ نہیں کرائے؟
معالج نے مسکراتے ہوئے کہا، ڈاکٹر کا کام مریض کو بہتری، صحت اور زندگی کی طرف لے جانا ہے جو ٹیسٹ دس پندرہ دن یا مہینہ بھر پہلے ہو چکے ہوں ان ٹیسٹوں کا بوجھ پھر سے ڈالنا مناسب نہیں۔
اسی دوران اس معالج نے ایک جملہ کہا ’’میں چند سال قبل جب بیرون ملک طویل قیام کے بعد وطن واپس آرہا تھا تو میرا خیال تھا دنیا کے گلوبل ویلج بن جانے کے بعد پاکستان میں بھی تبدیلی آچکی ہوگی
لیکن وطن پہنچ کر افسوس ہوا۔ اخلاقی اقدار، انسانیت وغیرہ بس کرنے کی باتیں ہیں عمل کی دنیا مختلف ہے‘‘۔
تب مجھے یاد آیا کہ چند برس قبل میں نے لاہور میں پنجاب انسی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور (پی آئی سی) میں ڈاکٹر ندیم رضا نامی ماہر امراض قلب کو چیک کروایا تھا۔ میں نے اپنی رپورٹس والی فائل ان کے سامنے رکھی (تین ہزار روپے فیس جمع کرواچکا تھا) انہوں نے مجھ سے دو تین سوال پوچھے پھر ٹیسٹ لکھنا شروع کئے بولے یہ ٹیسٹ نیشنل ہسپتال سے کروالیں۔
میں نے عرض کیا یہ سارے ٹیسٹ ہوچکے ان کی رپورٹ میری فائل میں موجود ہے۔ ڈاکٹر ہتھے سے اکھڑ گیا پرلے درجے کی بدتمیزی کے ساتھ اس نے نسخے میں ایک ایسی دوائی لکھ دی جو پاگل پن کے دوروں کی صورت میں کھلائی جاتی ہے۔
وہ تو بھلا ہو برادرم ڈاکٹر دیوان سید ظفر عباس بخاری کا میں نے نسخہ انہیں واٹس ایپ کیا تو چند لمحوں بعد انہوں نے ٹیلیفون پر کہا، شاہ جی فوراً ملتان پہنچو اور کل مجھ سے ملو۔ میں اسی شام ملتان پہنچ گیا اگلے دن ان کے پاس حاضر ہوا۔
ایک دو مریض دیکھ کر وہ میری طرف متوجہ ہوئے میں نے فائل اور نسخہ ان کے سامنے رکھا۔ انہوں نے سوال کیا، شاہ جی یہ بتائو ڈاکٹر ندیم رضا کے ساتھ بات کیا ہوئی تھی۔
میں نے تفصیل عرض کی اور بتایا ڈاکٹر صاحب نے جتنے ٹیسٹ لکھے چونکہ وہ ہوچکے تھے یہی ان سے عرض کیا اس پر انہوں نے پہلے یہ کہا کہ ڈاکٹر میں ہوں کہ تم اور پھر بدتمیزی پر اتر آئے۔ میں نے اپنے مربی و برادرم ڈاکٹر دیوان سید ظفر عباس بخاری کی آنکھوں میں نمی اترتی محسوس کی۔
بات ختم کرچکا تو بولے اللہ انہیں ہدایت دے۔ میرے ٹیسٹ ہوچکے ہیں کا جواب یہ دوائی لکھنا نہیں تھا۔
معاف کیجئے گا بات سے بات نکلی اور کچھ دور چلی گئی۔ ایک شعبہ ایسا بتادیجئے جس میں فرشتے ہوں ۔
مسلم متھ یہ ہے کہ انسان فرشتوں سے افضل ہے ہمیں انسان تلاش کرنے میں مشکل نہیں مشکلیں پیش آتی ہیں لیکن چور صرف سیاستدان ہیں۔
وہ جنہوں نے گالم گلوچ بریگیڈ اور پھر ایک پوری سیاسی جماعت بناکر مارکیٹ یعنی میدان سیاست میں لانچ کی وہ کیا ہیں۔
کبھی سوچیں تو سہی کہ ڈی ایچ ایز والی سہولتیں گلستان پورہ، دھپ سڑی، شاہ دی کھوئی، بھیتی سرائے اور محلہ آغا پورہ اسحٰق پورہ وغیرہ میں کیوں نہیں۔ ماچس تک پر تو ٹیکس دینے والے یہاں بستے ہیں۔ نکالئے بغل میں دبا پرچہ اور اس میں لکھی سیاستدان کو گالی منہ پھاڑ کے دیجئے اس کے سوا آپ کر بھی کیا سکتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر