اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راجن پور کی خبریں

راجن پور سے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے اور تجزیے۔

 

بلدیہ جام پور میں موجود مافیاء کی تباہیاں
تحریر ۔آفتاب نواز مستوئی

میاں شہباز شریف کے دور حکومت ۔2013۔،2018 میں جام پور کو پنجاب حکومت کی جانب سے اربوں روپے کے منصوبے ملے

انہی میں سے کروڑوں روپے کی لاگت سے شہر میں 15 واٹر فلٹریشن پلانٹ بھی منظور ہوئے تھے جن میں سے 10 فنکشنل ہوئے گوکہ ان میں سے کچھ بلدیہ جام پور کے ” مخصوص مافیاء ” کی فرمائش پر انتہائی غلیظ بدبو دار اور سیوریج کے پانی کے گڑھوں میں بنائے گئے

مگر پھر بھی انہیں محکمہ پبلل ہیلتھ انجینئرنگ نے کم و بیش تین سال تک نہایت خوش اسلوبی محنت اور لگن سے چلایا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی

کیونکہ پورے ڈیرہ غازیخان ڈویژن کے بلدیاتی اداروں میں یہ مثال مشہور ہے کہ ” جس بنے بنائے منصوبے کو تباہ و برباد کرنا ہو

یا جس منصوبے کو فلاپ کرنا ہو اسے میونسپل کمیٹی جام پور کے حوالے کر دیا جائے ان شا اللہ تین ماہ کے اندر اندر اس منصوبے کا کباڑہ ہو جاِے گا ۔۔

ثبوت کے طور پر ذیل میں چند حقائق پیش خدمت ہیں اور کسی کو یقین نہ آرہا ہو توچبچشم خود نظارہ فرما لیں۔

کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار شدہ میونسپل کمپلیکس کی شاندار اور اپنی مثال آپ شاہکار عمارت کس حال میں ہے اسکے جناح ہال کا کیا حال ہے وہاں پر ہر چئیرمین کے دور میں آنے والا لگژری فرنیچر کدھر چلا جاتا ہے ؟؟؟
اور 2010 کے فلڈ کے وقت جام پور شہر کا پانی نکالنے کیلئیے میاں شہباز شریف نے خصوصی طور پر ( تعداد کنفرم نہیں ) جو پیٹر انجن جینریٹرز اور پائپ دیے تھے وہ کدھر گئے ؟ اور اسی سیلاب کے بعد انٹر نیشنل این جی اوز نے شہر کے مختلف مقامات پر صاف پانی کے جو پلانٹ لگا دیے تھے

ان میں سے کوئی ایک کسی جگہ کسی نے دیکھا ؟

اور ہاں یاد آیا سردار فاروق احمد خان لغاری کے دور صدارت میں شہر کی جو واٹر سپلائی اسکیم بنائی گئی تھی

اور چاروں کونوں میں بہت بڑے ٹیوب ویل بھی نصب ہوئے تھے کسی کے علم میں ہے کہ ان کو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی ؟؟
2 ۔

عبید اللہ سندھی پارک کی تعمیر کیلئے پچاس لاکھ روپے کی گرانٹ ملی تھی پارک تعمیر بھی ہو چکا تھا پھر وہ چار دیواری اسکی اینٹیں سریا کہاں چلے گئے ؟

کمال تو یہ ہے کہ بلدیہ جام پور کے ریکارڈ میں اس منصوبے کی فائل ہی آج تک کسی افسر کو نہءں مل سکی دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ

وہی ٹھیکیدار اور وہی اسکا پارٹنر حاجی محمد اکرم قریشی صاحب کے دور میں کمال مہارت سے اسی جگہ انہی اینٹوں سے اڑھائی لاکھ روپے کی لاگت کافلتھ ڈپو بنا ڈالتے ہیں اسی طرز کا فلتھ ڈپو قبرستان ٹھاکریوالہ میں بنایا گیا

اسکا نام و نشان نہیں ہے اب تو ۔۔۔۔ اور جب 2019 میں اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر / اسسٹنٹ کمشنر سیف الرحمان خان بلوانی کی سربراہی میں ” آواز حقوق جام پور ” کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے

متوسط درجے کے شہریوں اور مخیر حضرات نے اپنی مدد آپ کے تحت اس پارک سے گندگی اور غلاظت کے ڈھیر ہٹا کر شدید گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں کھڑے ہوکر اس پارک کو دوبارہ خوبصورت سرسبز وشاداب پارک بنا ڈالا اور ” گینگ کے بنائے گئے فلتھ ڈپو کو صاف کروا کر میونسپل نرسری بنوائی

” جیسے ہی بلدیہ جام پور کے حوالے کیا گیا اسکے بعد کیا حشر ہوا وہ سب پر عیاں ہے ۔سامنے چلڈرن پارک کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا ہے

وہ بھی آتے جاتے گزرتے ہر کوئی دیکھ رہا ہے ۔۔۔

شہر کے اکلوتے میونسپل پارک اور خوبصورت ترین اعظم شہید لائبریری کو اجاڑنے کا ذمہ دار کون ہے ؟
4 ۔

شہر سے باہر انتہائی قیمتی لوکیشن پر جنرل بس اسٹینڈ بنایا گیا تھا آج تک اسے کسی نے آباد دیکھا ہر سال لاکھوں روپے نیلامی اڈہ فیس کے نام پر میونسپل کمیٹی وصول کرتی ہے مگر مجال جو وہاں کوئی سہولت دی گئی

ہو کسی بھی بڑے افسر نے آج تک اس امر کا نوٹس لیا ؟

پرانی کمیٹی کی اربوں روپے کی مالیتی اراضی ماڈل بازار مینیجمنٹ اتھارٹی کے حوالے کی گئی تو ایک معاہدہ تحریر ہوا تھاکہ کہ اس بازار سے ہونے والی آمدنی کا 40 % بلدیہ جام پور کے کھاتے میں جائے گا یار لوگوں نے اس معاہدے کی کاپی ہی غائب کردی ہے

اور آج تک ایک روپیہ بھی بلدیہ کے کھاتہ میں نہءں گیا ۔اور وہاں پر جو فلٹریشن پلانٹ نصب تھا اسکی مشینری وغیرہ کا علم ہے

کسی کو جی ہاں وہ مشینری اور ٹیوب ویل میونسپل کمیٹی کے جنوبی گیٹ ڈی پی ایس کی دیوار کے ساتھ نیشنل بنک کے سامنے نصب ہے

عمارت بھی بنی ہوئی ہے اسکے فلٹر وغیرہ اور چھوٹی موٹی مرمتی پر ( اس وقت جب وہاں سے اکھاڑ کر یہاں لایا گیا تھا ) صرف 35000 روپے کا خرچہ تھا

مگر اس رقم میں کمیشن کسی کا نہیں بنتا تھا لہذا ” مٹی پاو ” پالیسی کے تحت وہ جوں کا توں ہے

بلدیہ جام پور کی قیمتی مشینری کس حال میں ہے سیوریج سسٹم کے کیا ایشوز ہیں میرے قلم

قبیلہ کے دوست تحقیق کریں اور لکھیں نہیں تو

اپنا شیوہ ہے کہ اندھیروں میں جلاتے ہیں چراغ

اگلی قسط میں اس پر بھی ضرور روشنی ڈالیں گے ۔

قصہ مختصر بات چلی تھی واٹر فلٹریشن پلانٹس سے تو زیر نظر وڈیو کلپس میں ملاحظہ کر

لیں کہ شہری کس قدر اذیت کے ساتھ پینے کا صاف پانی کتنا دور سے لا رہے ہیں ؟

ہم فقیروں کی تجویز سے کوئی اتفاق کرے نہ کرے مگر مسلے کا حل یہ ہے کہ واٹر فلٹریشن پلانٹس واپس پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کو دے دیے جائیں یا پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت پیور واٹر فروخت کرنے والی کمپنیوں کے حوالے کر دیے جائیں ۔

اور اس پوسٹ میں جن معاملات کی نشاندہی کی گئی ہے ان کء تحقیقات بھی اسی حساب سے ہونا چاہیں تاکہ

جس نے کھایا اسے بے نقاب کیا جائے اور اس سے پائی پائی وصول کی جاے

a

%d bloggers like this: