مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگ کہنے سے زبان نہیں جلتی۔ اس کا مطلب ہے کہ ناگوار سچ بول دینا چاہیے۔
لیکن پھر اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ہر کسی کا اپنا اپنا سچ ہوتا ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو۔ ایسی صورت میں وہ سچ معتبر ہوتا ہے جو تجربے کی بنیاد پر ہو۔
میں نے کل فقط تین افراد اپنے، اویس اقبال اور بابو بھائی کے تجربات لکھے کہ نیوز چینلوں میں "بعض اوقات” لڑکیوں کو ان کی قابلیت، اہلیت اور تجربے سے زیادہ تنخواہ اور پروموشن مل جاتی ہے۔
بعض دوستوں کو یہ بات پسند نہیں آئی اور انھوں نے غم و غصے کا اظہار کیا۔ میں ان سے کہوں گا کہ بصد معذرت، اگر آپ کو ٹی وی میں کام کرنے کا تجربہ نہیں تو آپ محض تنقید برائے تنقید کررہے ہیں۔ مجھے پندرہ سال کا تجربہ ہے۔
اس تحریر میں بھی واضح کیا تھا اور اب پھر کہتا ہوں کہ جیو جیسا ادارہ دوسروں سے ہزار گنا بہتر ہے۔ اس کے باوجود یہاں ایسے واقعات ہوئے ہیں، یعنی میرے ساتھ ہی کئی بار ہوا ہے، تو مسئلہ تو ہے۔ اس سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں۔
جب بھی ایسا ہوتا ہے، اس کا نقصان صرف باصلاحیت مردوں کو نہیں، باصلاحیت خواتین کو بھی ہوتا ہے۔ اس تحریر کو پوسٹ کرنے کے بعد مختلف اداروں کی تین خواتین صحافیوں نے مجھ سے ان بکس رابطہ کیا اور کہا کہ آپ درست کہتے ہیں۔
یہ معاملات ٹی وی کے تھے اور وہیں تک بات رہنی چاہیے تھی۔ لیکن ہمارے نظریاتی دوستوں کو خواتین کا صدیوں سے استحصال، مردوں کی بڑھی ہوئی جنسی خواہش، خواتین کی عمومی مظلومیت، کارکن خواتین کی ناقدری، تنخواہوں میں فرق اور سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیاں یاد آگئیں۔
میرے موجودہ اور پرانے تمام اداروں سے معلوم کرلیں، پریکٹیکلی میں نے ہمیشہ خواتین کی مدد اور حوصلہ افزائی کی ہے۔ انھیں شکروں سے بچایا ہے۔ انھیں عزت و احترام دیا ہے۔ لیکن میں دوسرے ہر ازم کی طرح فیمنزم سے بھی دور بھاگتا ہوں۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ نظریاتی آدمی، معذرت کے ساتھ، درست تناظر دیکھنے میں ناکام رہتا ہے۔ وہ ہر بات اپنی عینک سے دیکھتا ہے، اس لیے اسے ہر شکل بگڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہی صورت فیمنسٹ خواتین کی ہے۔ ان کی شدت پسندی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی حمایت کی خواہش رکھنے کے باوجود بہت سے معقول مرد باز رہتے ہیں۔
میں بہرحال خوش ہوں کیونکہ اگر کوئی تحریر سوچنے اور بولنے پر مجبور کرے تو کامیاب ہے۔
شاید کچھ دوست چاہتے تھے کہ میں وہ سب نہ لکھتا۔ کیوں نہیں؟ اختلاف کے باوجود ہم سب جس خرابی کی نشاندہی کررہے ہیں، وہ تب ہی ٹھیک ہوگی جب ہم اس کا برے بھلے انداز میں ذکر کریں گے۔ میرے تحریر کو پرومپٹ سمجھیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ