مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جنھیں امریکی سیاست کا درست فہم ہے۔ چند ایک ہی ہوں گے۔ امریکا میں بھی ایسے پاکستانیوں کی تعداد کم ہے۔
پاکستانی عوام تو خیر ہر معاملے میں گمراہ کن پروپیگنڈے کا شکار ہیں، لیکن بیشتر پاکستانی سیاست دان، اچھے بھلے دانشور، صحافی اور تجزیہ کار بھی عجیب عجیب غلط فہمیوں میں مبتلا رہے ہیں۔
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں امریکی آشیرباد سے آرمی چیف لگتا ہے، اسی کے اشارے پر حکومت بنتی ہے یا ختم ہوتی ہے، امریکا پاکستانی ایٹم بم چوری کرنا چاہتا ہے اور ہماری ایجنسیاں امریکی سازشوں کا توڑ کرتی ہیں۔ یہ سب بکواس ہے۔
ممکن ہے کہ میرا خیال غلط ہو، لیکن میں سمجھا یہی ہوں کہ امریکا کو پاکستان کی اندرونی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کبھی نہیں رہی۔ کسی کو بھی نہیں ہوتی۔ امریکی انتظامیہ پینٹاگون کے ذریعے پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ رکھتی ہے اور وہ کافی ہے۔ بینظیر نے امریکی حلقوں میں ذاتی تعلقات بنالیے تھے۔ لیکن امریکیوں سے دوستی کرنے سے نہ حکومت ملتی ہے، نہ جاتی ہے۔
امریکی کچھ تقاضے اور مطالبے ضرور کرتے ہوں گے۔ لیکن ان کا تعلق اندرونی سیاست سے نہیں ہوتا۔
امریکا میں کچھ عرصے سے پاکستانیوں کی ایک تنظیم متحرک ہے۔ میں اس کے ایک عہدے دار یا رکن سے واقف ہوں جو ڈاکٹر ہیں اور پی ٹی آئی کے دیوانے۔ میرا گمان ہے کہ باقی ارکان بھی ایسے ہی ہوں گے۔ پیسے بہت کماچکے ہیں۔ یہ لوگ واشنگٹن میں مہنگی سی جگہ کرائے پر لیتے ہیں۔ پھر امریکی ارکان کانگریس اور سینیٹرز کو مدعو کرتے ہیں۔ چونکہ انھیں الیکشن کے لیے فنڈنگ کرتے ہیں، اس لیے وہ آجاتے ہیں۔ آپ کے پاس پیسے ہیں تو پوری کانگریس کو بلالیں۔ سب آجائیں گے۔ آپ پاکستان میں جمہوریت یا اظہار کی آزادی کے نام پر پی ٹی آئی یا کسی بھی پارٹی کے حق میں خط لکھوا لیں یا خط خود لکھ کر دستخط کروالیں، سب کردیں گے۔ کسی کا کیا جاتا ہے۔
آپ جو بات کسی رکن کانگریس سے اپنی تقریب میں یا کسی خط کے ذریعے کہلوا سکتے ہیں، وہ ایوان میں نہیں کہلوا سکتے۔ وہ اصل مقام ہے۔ امریکی وزیر خارجہ سے اپنی پسند کی بات نہیں کہلوا سکتے۔ وہ نہیں کہیں گے۔ پیسے پھینک کر ڈپلومیٹس سے بیانات نہیں دلوائے جاسکتے۔
امریکا میں لابنگ کی جاسکتی ہے۔ کرنی بھی چاہیے۔ لیکن کیسے؟ کن معاملات میں؟ اس کا سبق سیکھنا ہو تو انڈیا سے سیکھیں۔ وہ ملک کا سوچتے ہیں۔ اپنے ملک کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ کسی پارٹی کے حق میں یا مخالفت میں خط لکھ کے دستخط نہیں کرواتے پھرتے۔
پاکستان میں میڈیا کے لیے یہ بڑی خبر تھی کہ ساٹھ یا پینسٹھ ارکان کانگریس نے امریکی وزیر خارجہ کو خط لکھ دیا۔ امریکی میڈیا نے اس خبر کو گھاس نہیں ڈالی۔
یہ خبر بھی پاکستانی میڈیا کے لیے اہم ہوگی کہ پی ٹی آئی چئیرمین نے کسی امریکی رکن کانگریس سے بات کی۔ آپ سو ارکان کانگریس سے بات کرلیں، کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر امریکا کے دونوں ایوان مل کر بھی کسی پاکستانی سیاست دان کے حق میں قرارداد منظور کرلیں، تب بھی کچھ نہیں ہوسکتا۔
ایک اور نکتہ بھی یاد رکھنا چاہیے۔ وہ یہ کہ امریکیوں کی یادداشت پاکستانیوں کی طرح کمزور نہیں ہوتی۔ امریکی کسی حکومت کو گرانے کا جھوٹا الزام نظرانداز کرسکتے ہیں لیکن شاگردوں کی حمایت کبھی نہیں بھولیں گے۔ وہ ان کے لیے جذباتی معاملہ ہے۔
اگر امریکا پاکستان کے سیاسی ماحول میں کوئی کردار ادا کرنا بھی چاہتا تو اب حالات مختلف ہیں۔ اس وقت چین کے پاس وہ کردار ہے۔ اور چین میں لابنگ نہیں کی جاسکتی۔ وہاں ارکان پارلیمان سے اپنے حق میں خط نہیں لکھوایا جاسکتا۔ اگر ایسی کوئی کوشش کی جائے تو جس طرح کی حرکتیں ماضی قریب میں کی گئی ہیں، الٹا ہی ردعمل آئے گا۔
میں نے نو سال پہلے اوئے نواز شریف کا نعرہ سنتے ہی کہہ دیا تھا کہ اس پارٹی کی کامیابی اپنے قائد کا منہ بند رکھنے میں ہے۔ وہ منہ ابھی تک بے ڈھکن کے گٹر کی طرح کھلا ہوا ہے۔ امریکی اور چینی حکومتیں تو بڑی بات ہے، کوئی عام آدمی بھی گٹر کے قریب سے گزرنا پسند نہیں کرتا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ