مئی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

باھروں باھر پریس کلب ۔۔۔ || نذیر ڈھوکی

ابھی کل ہی کی بات ہے پیپلزپارٹی کے کارکن جب جیل جاتے تھے تو جیئے بھٹو کے نعرے لگاتے تھے اور جب رہا ہوتے تھے تو بھی ان کی زبان پر جیئے بھٹو کا نعرہ ہوتا تھا وہ اپنے گھروں کو جانے سے قبل استقبالیہ تقریب میں شرکت کرکے اس عزم کی تجدید کرتے کہ جیل نے ان کا حوصلہ نہیں توڑا،

نذیر ڈھوکی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک سیاسی کارکن کے ناطے مجھے کسی سیاسی پارٹی کے تتر بتر ہونے پر مجھے کوئی خوشی نہیں ہے رہی بات تحریک انصاف کی تو میری نظر میں پی ٹی آئی کوئی سیاسی پارٹی ہے ہی نہیں بھٹکے ہوئے گمراہوں کا ریوڑ ہے ، عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ وہ نہ سیاسی بنے نہ جمہوری انہوں نے اپنے لشکر کو گالی اور الزام تراشی کی ترغیب دی وہ خود کو حسن بن صبا تصور کرنے لگے کہ ان کے ایک اشارے پر لوگ اپنی گردن اڑائیں گے اس طرح وہ اپنے ہی ملک کو فتح کر لینگے۔ اگر عمران خان کی سوچ سیاسی اور جمہوری ہوتی تو اپنے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کا سامنا کرتے اور باوقار طریقے سے حزب اختلاف میں اپنا کردار ادا کرتے مگر انہوں نے قومی اسمبلی سے فرار کا راستہ اختیار کیا ۔ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی نےقومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ جسٹس بندیال کے مرہون منت انہیں پنجاب کی حکومت بھی ملی مگر وہ پورس کے ہاتھی کی طرح دو صوبوں یعنی خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اپنی حکومتوں کو زمین بوس کر بیٹھے۔

ایک بات ضرور ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ عمران خان یہ سارا عمل بیوقوفی سے نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ ممنوعہ فارن فنڈنگ کے ساتھ ملے ہوئے ایجنڈے پر عمل پیرا تھے،  پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنے اور جمہوری قوتوں کو کچلنے کے بعد ان کا نشانہ افواج پاکستان اور دیگر ریاستی ادارے تھے کے خلاف زہریلے پروپیگنڈہ کو اپنا ہتھیار بنایا ، اپنی متوقع گرفتاری کے خوف سے انہوں نے اپنے وفاداروں کو فوج کو نشانہ بنانے کا ٹاسک دیدیا ، عمران خان کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد ان کے وفاداروں نے جی ایچ کیو، جناح ہاوس جو کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر حملہ کیا اور دشمن کو نہ بھولنے والی شکست کی نشانیاں نذر آتش کرتے رہے جو در اصل پاکستان کے ازلی دشمن کو خوش کرنے کی کوشش تھی جو چند روز سے شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس میں وزیر خارجہ پاکستان جناب بلاول بھٹو زرداری کی کامیاب خارجہ پالیسی سے شکست کے زخموں سے چور تھی ۔ عمران خان کی سازشی سیاست نے گمراہ لوگوں کو پی ٹی آئی سے راہیں جدا کرنے پر تیار کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے مختلف جیلوں کے باہر یہ آوازیں سنائی دیتی ہیں کہ باھروں باھر پریس کلب ، ہو بھی یہ ہی رہا ہے کہ پی ٹی آئی والے جیل سے رہا ہو کر سیدھا پریس کلب آتےہیں۔

ابھی کل ہی کی بات ہے پیپلزپارٹی کے کارکن جب جیل جاتے تھے تو جیئے بھٹو کے نعرے لگاتے تھے اور جب رہا ہوتے تھے تو بھی ان کی زبان پر جیئے بھٹو کا نعرہ ہوتا تھا وہ اپنے گھروں کو جانے سے قبل استقبالیہ تقریب میں شرکت کرکے اس عزم کی تجدید کرتے کہ جیل نے ان کا حوصلہ نہیں توڑا، ویسے بھی پیپلزپارٹی کے جیالوں سے پی ٹی آئی کے گمراہ لوگوں کا موازنہ کرنا ناانصافی ہے ۔ فرق یہ کہ جیالوں کی قیادت بھی بہادر ہے اور ان کو جنم دینے والی مائیں بھی بہادر ہوتی ہیں وہ کسی بزدل کی ماں کہلانا عیب سمجھتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی

شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی

نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی

ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی

نذیر ڈھوکی کے مزید کالم پڑھیے

%d bloggers like this: