مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم شکیل عادل زادہ کے پروانوں کی خاص ہفتہ وار محفل میں اکثر انیق احمد صاحب دلچسپ باتیں کرتے تھے اور ماضی کے قصے سناتے تھے۔ ایک بار ان سے کسی دوست نے پوچھا کہ کہاں برسوں جون ایلیا کا ساتھ اور کہاں مذہبی پروگرام کی میزبانی۔ اس درمیان کیا ہوا۔ انیق صاحب نے اپنے مطالعے کے علاوہ اور بھی باتیں بتائی ہوں گی، لیکن جو بات مجھے یاد رہ گئی، وہ ان کی علامہ احمد جاوید سے قربت کا احوال تھا۔
اتفاق سے احمد جاوید صاحب نے بھی جون ایلیا کے ساتھ وقت گزارا بلکہ انیق صاحب کے گھر پر جون ایلیا کی شاعری پر لیکچر بھی دیا۔ میں نے اس میں شرکت کی اور آخر میں ایک دو سوال بھی کیے۔ اس کی ویڈیو یوٹیوب پر موجود ہے۔
میری خوش قسمتی کہ احمد جاوید صاحب سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور میں نے ان کی فکر سے آگاہی کے لیے یوٹیوب پر موجود ان کے چند لیکچر اور انٹرویوز بھی سنے۔ لیکن ان کا لب لباب وہی ہے، جو ان سے ایک براہ راست گفتگو میں سننے کو ملا۔
ان دنوں بھائی علی اکبر ناطق کے احمد جاوید صاحب سے تعلقات خوشگوار تھے۔ دونوں ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ میں کسی کام سے لاہور گیا تو ناطق بھائی سے فرمائش کی کہ احمد جاوید صاحب سے ملوائیں۔ وہ اپنی عادت کے مطابق پیار سے ملے۔ خاطر تواضع کی۔
میں نے صاف صاف کہا کہ مجھے خدا کے وجود پر شک ہے۔ انھوں نے کہا، بس مان لیجیے۔ مان لیں گے تو شک ختم ہوجائے گا۔ میں نے کہا کہ دل نہیں مانتا۔ کیا خود سے جھوٹ بولوں؟
پرانے دور میں بزرگ کہتے تھے کہ ارینج میرج کرلو، بعد میں بیوی سے محبت ہوجائے گی۔ لیکن اول تو زمانہ بدل گیا ہے۔ دوسرے شادی اور مذہب میں غالبا کافی فرق ہوتا ہے۔
پھر احمد جاوید صاحب کے لیکچر سنے اور ان کی فکر کی بنیاد معلوم ہوئی۔ وہ سلیم احمد کے شاگرد تھے۔ فلسفے کے متعلق ان کی تعلیم اور ان کا یقین اس بات پر ہے کہ منزل کا تعین کیے بغیر سفر اختیار نہ کرو، ورنہ بھٹک جاو گے۔ یعنی پہلے ایک خیال پر جم جائیں، پہلے کسی بات کو مان لیں، پھر فلسفہ پڑھیں۔
مجھے اس بات سے اس لیے اختلاف ہے کہ پھر فلسفہ پڑھنے کا کیا فائدہ؟ پھر وہ فلسفہ نہیں رہتا، علم الکلام میں بدل جاتا ہے، جس میں آپ اپنے مانے ہوئے نکات پر دلائل ڈھونڈتے چلے جاتے ہیں اور مخالفانہ دلائل مسترد یا نظرانداز کردیتے ہیں۔
احمد جاوید صاحب بہرحال عالم ہیں اور میں ان کے مقابلے میں ان پڑھ۔ میری رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن میں نے نوٹ کیا ہے کہ ہمارے گرو سعید ابراہیم، بے حد عزیز دوست یاسر جواد اور کئی دوسرے احباب مسلسل احمد جاوید صاحب پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ ان کی مشکل اور نامانوس زبان اور فلسفے کے نام پر مذہبی لیکچر روشن خیال لوگوں کو پسند نہیں آتے۔ ناطق بھائی بھی اب ان کے سخت خلاف ہیں کیونکہ ان کے بقول احمد جاوید صاحب کی شاعری میں شیعہ دشمنی پائی گئی ہے۔
آج یہ سب اس لیے یاد آیا کہ فیس بک پر ایک قضیہ چل رہا ہے۔ کسی ردعمل میں احمد جاوید صاحب نے محترم عمران شاہد بھنڈر اور ہمارے پیارے دوست صلاح الدین درویش پر صرف تنقید نہیں کی بلکہ ایسی زبان استعمال کی ہے جس کی میں ان سے توقع نہیں رکھتا تھا۔ بھنڈر صاحب نے اس کا سخت جواب لکھا اور جواب الجواب بھی آیا۔
معاشرے میں تلخی اتنی بڑھ گئی ہے کہ بڑے دانشوروں کی زبان بگڑنے لگی ہے۔ یہ افسوس ناک صورتحال ہے۔ مجھے علامہ طالب جوہری، غامدی صاحب اور جناب احمد جاوید پسند ہی اس لیے تھے اور ہیں کہ وہ روایتی مذہبی لوگوں کی طرح کسی بات پرغصہ نہیں ہوتے اور مخالفانہ بات تحمل سے سن لیتے تھے۔ اگر ایسے لوگوں میں بھی تحمل باقی نہیں رہا تو کسی اور سے شکایت کیا کریں۔
میری خواہش ہے کہ احمد جاوید صاحب اور بھنڈر صاحب ذاتی حملوں کے بجائے اپنی اپنی فکر کے مطابق مباحثہ جاری رکھیں تاکہ ہم جیسے طالب علم کچھ سیکھ سکیں۔
All reactions:
467
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر