مارچ 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یوم شہدائے جمہوریت اور یوم معذرت کیوں نہیں؟۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آگے بڑھنے سے قبل بار دیگر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ 9اور 10مئی کے واقعات میں ملوث افراد میں سے منتخب افراد کے خلاف ملٹری کورٹس میں مقدمات چلاتے وقت اگر ان کے ہمراہ داخلی سہولت کاروں کے خلاف کارروائی نہ ہوئی تو ملٹری کورٹس کی سماعتوں اور فیصلوں (وہ جو بھی ہوں) پر سوالات ہی نہیں اٹھیں گے بلکہ اس سے جگ ہنسائی بھی ہوگی۔

بہتر ہوگا کہ داخلی سہولت کار بھی بے نقاب کرکے ان کے ہمراہ ملٹری کورٹس کے کٹہرے میں کھڑے کئے جائیں۔

ضمنی بات یہ ہے کہ لاہور میں جن 16 افراد کو انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزمان کے طور پر فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس میں سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ کی صاحبزادی کا نام کیوں شامل نہیں؟ کیا محض اس لئے کہ وہ ایک مرحوم آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کی نواسی ہیں یا پھر ان کا جرم دوسرے 16ملزمان کے مقابلہ میں کم سنگین ہے؟

یہ کیسے اور کس بنیاد پر طے ہوا کہ فلاں کا جرم سنگین قابل درست اندازی ملٹری کورٹ ہے اور فلاں کا نہیں۔

مناسب ہوگا کہ عوام کے سامنے مکمل تفصیلات لائی جائیں۔ اس ضمن میں دوسری بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے جو مرکزی رہنما اور سابق ارکان اسمبلی جیلوں سے رہا ہونے کے بعد پارٹی چھوڑ رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر کے نام 9 اور 10مئی کے بعد درج ہونے والے مقدمات میں شامل ہیں۔

کیا پارٹی چھوڑنے کے بعد اب وہ ان مقدمات کے ملزمان نہیں رہے اخراج مقدمہ کی کارروائی کب اور کیسے مکمل ہوئی؟

کیا یہ نہیں سمجھ پایا جارہا کہ اس سے جو عمومی تاثر بن رہا ہے وہ درست نہیں ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ کیا یہ سہولت ان عام لوگوں کو بھی ملے گی جو پچھلے دس بارہ دنوں میں گرفتار ہوئے۔

اصولی طور پر تو انہیں بھی ملنی چاہیے پریس کانفرنس کی نہ سہی نیک چلنی کا مچلکہ جمع کراکے رہا ہونے کی ہی سہی

مجھے یقین ہے کہ بالائی سطور میں عرض کی گئی معروضات محب وطنوں، ایجنسیوں اور ارباب حکومت تینوں کو بری لگیں گی مگر مجھ سمیت ہزاروں لاکھوں لوگ سمجھنا چاہتے ہیں کہ یہ طبقاتی امتیاز کیوں روا رکھا جارہا ہے۔

یہ بھی کہ طبقاتی امتیاز پر ہوئے فیصلے آنے والے دنوں میں جن سوالات کو جنم دیں گے ان کا جواب دینا مشکل ہوجائے گا۔

اس لئے یا تو اشرافیہ اور عام گرفتار شدگان کے ساتھ مساوی طرزعمل کا مظاہرہ کیجئے یا پھر ان سب پر مقدمات چلائیں کیونکہ عام آدمی وہی کرتا ہے جو لیڈران کرام کہتے ہیں۔

یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ لیڈر مذمتی بیان دے کر گھر کو سدھاریں اور ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر ہنگامے اٹھانے والے جیلوں میں سڑیں اور مقدمات کا سامنا کریں۔

رعایت و سہولت ہر خاص و عام کو دیجئے۔

’’کر بھلا ہوا بھلا انت بھلے کا بھلا‘‘۔

گزشتہ روز ملک بھر میں یوم تکریمِ شہداء منایا گیا، تقاریب ہوئیں جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے۔

میری بدقسمتی دیکھئے مجھے اس دن وہ سارے مقتولین یاد آتے رہے جو ماضی میں ریاست کی جہادی سرمایہ کاری کی وجہ سے افغانستان اور مقبوضہ کشمیر میں مارے گئے۔

یہ چند درجن نہیں ہزاروں لوگ تھے اسی طرح وہ 70ہزار شہداء جو دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کا رزق ہوئے بھی یاد آئے۔ آپ اگر ریاست کی جہادی تجارت اور پھر ریاست کے پالے ہوئے لشکروں کے ہاتھوں مارے گئے مقتولین کا حساب کریں تو یہ سوا لاکھ سے زائد تعداد بنتی ہے۔

افسوس کہ کسی نے ان شہداء کو یاد نہیں کیا انہوں نے بھی نہیں جو کبھی ان مجاہدین کے آخری خطوط رسالوں میں چھاپ کر اس سے بھی مال کماتے تھے انہوں نے بھی نہیں جن کی لیڈریاں اور رزق انہی مقتولین کے خون سے آج بھی لگے ہوئے ہیں۔

مجھے تو ہمیشہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ریاستی جبر سے موت کا رزق ہوئے فرزانوں کو یاد نہ کرنے پر اس وقت کے سیاسی اتحاد ایم آر ڈی اور خصوصاً پیپلزپارٹی سے شکوہ رہا کہ ان جماعتوں نے اتفاق رائے سے کے ساتھ ایک دن کو ’’یوم جمہوریت‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان نہیں کیا جس دن ان فرزانوں کو یاد کیا جاتا جو تیسرے مارشل لاء کی بھینٹ چڑھے،

پھانسیوں پر جھولے، عقوبت خانوں میں دم توڑ گئے، ہیلی کاپٹروں سے ہوئی فائرنگ میں مارے گئے یا احتجاجی جلوسوں میں کچل دیئے گئے۔

ایک دن بہرطور یوم شہدائے جمہوریت منایا جاناچاہیے افسوس کہ جنرل ضیاء کے بعد پیپلزپارٹی کو تین بار اقتدار ملا لیکن اس نے نہ تو اس پرآشوب دور کی تاریخ مرتب کرائی نہ یوم شہدائے جمہوریت بارے سوچا۔

ریاست کی جہادی تجارت اور پالے ہوئے لشکروں کے ہاتھوں مرنے والوں کو بھی بس ان کے ورثاء یاد کرتے ہیں

اصولی طور پر ریاست کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے 365 دنوں میں سے ایک دن کو ’’یوم معذرت‘‘ کے طور پر منانا چاہیے اس دن اس ملک کے عوام سے کھلے دل سے معافی مانگی جانی چاہیے کہ ہم (ریاست) نے پرائی جنگوں میں اپنے بچوں کو ایندھن بنوایا۔

معاملہ صرف مختلف ’’مدوں‘‘ میں مرنے والوں کا ہی نہیں ہے کسی دن ٹھنڈے دل سے یہ حساب بھی ہونا چاہیے کہ ان پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کو 1979ء سے لے کر آج تک کتنا معاشی نقصان ہوا۔

جہادی تجارت، امریکہ نوازی اور دوسرے معاملات کی بدولت انہی برسوں یعنی 1979ء سے آج تک اس ملک کو عالمی طور پر جو سرمایہ اور امدادیں ملیں وہ کہاں گئے؟

معاف کیجئے گا یہ ساری باتیں آزاد معاشروں میں ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں جو باتیں ہوتی ہیں وہ مختلف ہیں۔ ہم وہی سننا پڑھنا چاہتے ہیں جو صرف ہمیں پسند ہو۔

میں آئندہ سطور میں اپنے پڑھنے والوں سے چند باتیں ضرور کرنا چاہتا ہوں۔ پہلی یہ اپریل 2022ء سے لکھ رہا ہوں اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ نہیں دینا چاہیے تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی حکومت کو فطری انجام سے دوچار ہونے دیا جاتا۔

پہلے کون سا ہم سونے کے نوالے کھارہے تھے جو تحریک عدم اعتماد نہ آنے کی صورت میں منہ سے چھین لئے جاتے۔

دوسری بات یہ ہے کہ میں نے ہمیشہ اپنی پسندوناپسند کا اعتراف کیا حمایت یا مخالفت میں منافقت نہیں کی۔ آپ مجھے گالی دیں، زرداری یا کسی کا غلام کہیں یا کچھ اور یہ ان لوگوں کے ظرف پر ہے جو گالی دیتے ہیں، طنز کرتے ہیں یا جیسا کہ خٹک نامی ایک بندے کی خواہش ہے کہ وہ مجھے تھپڑوں سے سیدھا کردے۔

یہ ساری باتیں میرے لئے نئی نہیں ہیں میں اب گالیوں، طعنوں، نسب پر حملوں اور فروخت شدہ ہونے کے الزامات کا عادی ہوگیا ہوں

میرا مسئلہ پاپولرازم کبھی نہیں رہا میں سیاست اور تاریخ کا طالب علم ہوں قلم مزدوری کرتے ہوئے دونوں کے مختلف گوشے پڑھنے والوں کے سامنے رکھتا ہوں یہی میرا فرض ہے۔

نوانقلابیوں، وحدتیوں فصلی بٹیروں اور گالم گلوچ بریگیڈ کو اس قلم مزدور کی باتیں سمجھ نہیں آسکتیں ان کے اپنے اپنے مسلکی و شخصی بت ہیں حالانکہ ان سب کا دعویٰ یہ ہے کہ ’’وہ بت شکنوں کے وارث ہیں‘‘۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مجھے سیاسی کارکن اور ہجوم میں تمیز کرنا آتا ہے بہت اچھی طرح جانتا ہوں کہ سیاسی کارکن فکری استقامت کے ساتھ جدوجہد کرتے اور قربانیاں دیتے ہیں۔ تاریخ ان پر فخر کرتی ہے۔

ہمارے یہاں سیاسی کارکن کے کلچر کو غیرجماعتی انتخابات اور دوسرے ہتھکنڈوں سے ختم کیا گیا اصل میں تو اس ملک سے سیاسی عمل ہی ختم کردیا گیا ہے۔

برادری ازم، فرقہ پرستی، لسانیت اور توہین مقدسات کے کاروبار کو بڑھاوا دیا گیا پھر اسٹیبلشمنٹ ایک گالم گلوچ بریگیڈ پال پوس کر لے آئی۔

اکتوبر 2011ء کے بعد سے اس ملک میں جو ہورہا ہے اس کے منفی اثرات کی طرف ان سطور میں مسلسل متوجہ کرتا آرہا ہوں۔ بوزنوں کو مسیحا بنانے، کرپشن کرنے اور اس ٹولے کو مسلط کرنے والی اسٹیبلشمنٹ آب زم زم سے دھلی ہوئی ہرگز نہیں جو فصل لگائی تھی اب اس کا پھل کھاتے ہوئے اسے رونا نہیں چاہیے۔ مکرر عرض ہے سیاسیات اور تاریخ کا کھلی آنکھوں سے مطالعہ کیجئے، مکالمے کو رواج دیجئے، دوسروں کو برداشت کیجئے تاکہ آپ بھی برداشت کئے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: