اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گرفتاریاں، شکایات اور الزامات ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ ملک بھر میں اس کے 10ہزار سے زائد مردوزن کارکن گرفتار کرلئے گئے ہیں اور بعض مقامات پر کارکنوں کی گرفتاریوں کے عمل میں چادر و چاردیواری کا تقدس پامال ہوا۔

اس دعوے کا دوسرا حصہ ’’چادروچاردیواری کے تقدس کی پامالی‘‘ کا الزام 100فیصد نہیں تو 90فیصد درست ہے۔ بعض واقعات (گرفتاریوں کے عمل کے دوران) میں مطلوبہ شخص کے دستیاب نہ ہونے پر اس کے خاندان کے دوسرے شخص کو موقع سے گرفتار کیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ مطلوبہ شخص گرفتاری دے دے تو گرفتار شخص رہا کردیا جائے گا۔

نرم سے نرم الفاظ میں ہم اسے اغوا برائے تاوان کی طرز پر ہوئی واردات ہی کہہ سکتے ہیں۔ یہ طریقہ درست تھا نہ ہے۔

گرفتاریوں کے عمل میں 88فیصد واقعات میں خانہ تلاشی کے وارنٹ اور لیڈی پولیس اہلکار چھاپہ مار پارٹیوں کے ہمراہ نہیں تھے۔

گرفتار شدگان یا مطلوب افراد پر ایف آئی آرز کے مندرجات میں موجود الزامات درست ہیں یا غلط، یقیناً اس کا فیصلہ عدالتوں میں ہوگا لیکن اس عدالتی عمل سے قبل جس طرح کا رویہ پولیس اور دوسرے ادارے اپنائے ہوئے ہیں وہ درست نہیں۔

سیاسی اختلافات، حکومتیں یہ سب وقتی ہیں کل کون کس کے ساتھ ہوگا کس کی حکومت ہوگی یہ کسی کو معلوم نہیں لیکن ہم سبھی کو اسی سماج میں رہنا ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ’’منہ متھے لگتے رہنا ہے‘‘ یہی درست ہے۔

آگے بڑھنے سے قبل ایک اینکر کی اینکر اہلیہ مہر بخاری کے پروپیگنڈے سے لتھڑے ٹیوٹ پر بات کرلیتے ہیں۔ مہر بخاری اینکر ہیں بطور اینکر ان کی ساکھ پیسے لے کر پروگرام کرنے کی ہے۔ ملک ریاض والے معاملے میں برسوں قبل ساتھی اینکر مبشر لقمان کے ہمراہ بری طرح بے نقاب ہوچکیں اس کے باوجود انہوں نے بعض گرفتار شدہ خواتین کے حوالے سے سنگین الزامات لگائے۔ دستیاب معلومات کے مطابق ان کے الزامات درست نہیں بلکہ انہوں نے ٹیوٹ اینکر کے طور پر نہیں ایک ایسی انصافن کے طور پر کیا جو کچھ بھی کہہ لکھ سکتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ انہوں نے ایک عورت ہوتے ہوئے چند خواتین کے حوالے سے غلاظت سے لتھڑے ہوئے پروپیگنڈے والی ٹیوٹ کرتے وقت یہ کیوں نہ سوچا کہ اس کا متعلقہ خواتین کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟

بدقسمتی سے دونوں میاں بیوی آئی ایس پی آر کی تحقیق و تخلیق ہیں۔ ماضی میں وہ فراہم کردہ اطلاعات پر جس طرح جھوٹ کا رقص دیکھاکر لوگوں کو گمراہ کرتے تھے یہ کام اب نئی محبت اور منزل کے لئے بھی کررہے ہیں۔

باوجود اس کے کہ تحریر نویس دو ٓذرائع سے ان کے سنگین الزام کے غلط ہونے کی تصدیق کرچکا پھر بھی ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ پنجاب حکومت کسی بھی سیشن جج پر مشتمل کمیٹی سے اس کی تحقیقات کرالے مہر بخاری سے اس کے الزام کے حق میں شواہد طلب کئے جائیں۔

متعلقہ خواتین کو بھی عدالت میں پیش کرکے ان کا بیان لیا جانا ازبس ضروری ہے۔ کیونکہ اس الزام کی بدولت نہ صرف حکومت پر تھو تھو ہورہی ہے بلکہ خود گرفتار خواتین پر بھی مہر بخاری نے ’’داغ‘‘ لگادیا ہے۔

ہم آگے بڑھتے ہیں بعض ذرائع دعویٰ کررہے ہیں کہ صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9سے 11مئی تک ہونے والے خونی ہنگاموں کے ذمہ داران کی گرفتاریوں کے عمل کے دوران پکڑے گئے افراد میں سے 287افراد کا تعلق کالعدم ٹی ٹی پی اور دوسری کالعدم تنظیموں سے ہے۔ اصولی طور پر کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کی مکمل شناخت کے ساتھ ماضی کی سرگرمیوں کے شواہد عوام کے سامنے لائے جانے چاہئیں۔

پشاور، راولپنڈی، لاہور اور کراچی کے ہنگاموں میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کی اطلاعات کا ذکر کرتے ہوئے ایک گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ ان شہروں میں مقیم افغان مہاجرین کے نوجوان اور بچے احتجاجی جلوسوں میں شریک تھے۔

پشاور پولیس کسی تاخیر کے بغیر اپنے موقف کے حق میں ثبوت سامنے لے آئی ہے۔ پشاور میں گرفتار افراد میں دیگر کے ساتھ 47افراد ویڈیوز سے شناخت ہوئے ان 47افراد کا تعلق افغان مہاجرین کے خاندانوں سے ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں مقیم لاکھوں افغان مہاجر خاندانوں کوا پنے اپنے وقت پر سبھی نے اپنی سیاست کے لئے استعمال کیا کبھی مسلم پشتون ولی اور کبھی سادہ پشتون ولی کے نام پر۔

حالیہ ہنگاموں میں افغان مہاجرین کے نوجوانوں کی پیسوں پر خدمات حاصل کئے جانے کے دو تین اعترافی بیانات سامنے آئے ہیں یہ الزام اگر یکسر بے بنیاد اور یہ کہ پولیس کی تحویل میں جبراً لئے گئے ہوں تب بھی یہ سوال اہم ہے کہ غیرملکی شہریوں کو جو مہاجرین کے عالمی قوانین کے تحت پناہ گزین ہیں، مقامی سیاست کا ایندھن بنانے کی ضرورت کیا تھی۔

جیسا کہ بالائی سطور میں عرض کرچکا کہ افغان مہاجرین کو اسلامی و قوم پرستانہ جذبات کے ساتھ اپنی اپنی سیاست کا حصہ سبھی نے بنایا پہلی بار یہ کام 2002ء میں ہوا جب متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) نے اسے مسلم پشتون ولی کا نام دیا تھا۔ اس نکتہ کی بنیاد پر مجھے ان مذہبی سیاسی حلقوں کے حالیہ رونے دھونے پر ترس آرہا ہے جو کہہ رہے ہیں پی ٹی آئی نے افغان مہاجرین کو اپنی تشدد کی سیاست کے بڑھاوے کے لئے استعمال کیا۔

بندگان خدا جب یہی کام آپ ’’مسلم ہیں ہم سارا جہاں ہمارا‘‘ کے چورن پر کرتے پھر رہے تھے تب کیسے درست اور اب غلط ہوا؟ اصولی بات یہ ہے کہ افغان مہاجرین کو مقامی سیاست میں استعمال کرنے والے تمام لوگ مجرم ہیں وہ دین دار ہوں، قوم پرست، انصافی ہوں یا بعض ریاستی ادارے۔

مکرر عرض ہے پنجاب میں گرفتار ہونے والوں (حکومتی دعوے کے مطابق 3500 افراد اور پی ٹی آئی کے مطابق 5000 افراد) میں 287 افراد کا تعلق واقعی کالعدم ٹی ٹی پی، کالعدم جنداللہ اور دوسری تنظیموں سے ہے تو کسی تاخیر کے بغیر ان کے کوائف اور دیگر ثبوت سامنے لاکر ان پر دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے۔

یہ درست ہے کہ 9 مئی سے 11مئی تک ہوئے ہنگاموں میں جس منظم انداز میں گھیرائو جلائو ہوا یہ عام سیاسی ہمدردوں کا کام نہیں عام سیاسی ہمدرد اور تحریک انصاف کے کارکنان یقیناً ان جلوسوں میں شامل تھے جیسا کے لاہور میں ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ، عندلیب عباس اور عالیہ حمزہ نامی خاتون جن کی ویڈیوز موجود ہیں کہ ’’کہاں اور کس طرف جانا ہے‘‘۔

اب کچھ باتیں سپریم کورٹ میں عمران خان کی طلبی اور طریقہ کار پر۔

ملک کی سب سے بڑی عدالت نے 8دن کے جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں موجود ملزم کو شاہانہ پروٹوکول کے ذریعے عدالت بلوایا اور پھر مہمان خاص کے طور پر ایک شب میزبانی کا حکم دیا اس نے اس ملک کے نظام انصاف کے منہ پر گہری کالک ہی نہیں مل دی بلکہ اس لڑائی کا پردہ بھی فاش کردیا جو امریکہ اور چین کے کیمپوں میں رہنے کے حوالے سے شروع ہوئی ہے۔

اس لڑائی میں اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے کے ساتھ اور عدلیہ کا بڑا حصہ بادی النظر میں امریکی کیمپ میں کھڑا دیکھائی دے رہا ہے۔

آپ کو یہ بات عجیب لگے گی لیکن میں ایک اخبار نویس کے طور پر اسے دیکھنے سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ سی پیک کے ساتھ عمران خان کے پونے چار سالہ دور میں جو سلوک ہوا وہ آئندہ نہیں ہوگا اور منصوبے کی بحالی کے ساتھ نئے منصوبہ جات جیسا کہ 58ارب ڈالر کے بلٹ ٹرین کا منصوبہ اس حوالے سے چینی قیادت پچھلے ایک برس کے دوران چین کا دورہ کرنے والی پاکستانی قیادت سے گارنٹی مانگ رہی تھی۔

آرمی چیف کا حالیہ دورہ اسی سلسلے کی کڑی تھا ۔

9مئی کو عمران گرفتار ہوئے اس کے بعد عسکری تنصیبات اور کور کمانڈر ہائوس پر ہونے والے حملوں کے ذریعے چین کو یہ پیغام دیا گیا کہ جو فوج اپنے کور کمانڈر کے گھر کا دفاع نہیں کرسکی وہ سی پیک منصوبے اور اس کے نئے پراجیکٹ کی حفاظت خاک کرے گی۔

پچھلے ماہ اپریل میں داسو ڈیم پراجیکٹ پر کام کرنے والے ایک چینی انجینئر پر توہین مذہب کے الزام پر اٹھے ہنگامے کے وقت بھی ان سطور میں عرض کیا تھا کہ یہ تماشا سی پیک اور متعلقہ منصوبوں پر کام رکوانے کے لئے کیا گیا ہے

حکومت اور ریاستی محکمے سنجیدگی کے ساتھ تحقیقات کرالیتے تو انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتے جن کا اب سامنا ہے۔

حرف آخر یہ ہے کہ پنجاب میں زیادہ تر گرفتاریاں اضلاع میں قائم ان کوآرڈی نیشن کمیٹیوں کے کہنے پر ہوئی ہیں جو سردار عثمان بزدار کے دور میں قائم کی گئی تھیں البتہ گرفتاریوں کے اس عمل کے حوالے سے جو چند سنگین شکایات سامنے آئی ہیں ان کی آزادانہ تحقیقات ازبس ضروری ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: