مارچ 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاستی تشدد سے مخالف کو کچلنے کی ترغیب||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے ایک انتہائی قابل احترام دوست نے مجھے کہا کہ ظل شاہ /علی بلال نامی پی ٹی آئی کا سیاسی کارکن پولیس تشدد سے ہلاک نہیں ہوا بلکہ ایک موٹر سائیکل حادثے میں جاں بحق ہوا، میں نے لاہور میں اس واقعے کی کوریج کرنے والے صحافیوں سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ظل شاہ کو ریلی کے آغاز میں ہی درجن بھر پولیس والوں نے اپنی گرفت میں لیا اور اُسے گھسیٹتے ہوئے، مارتے ہوئے، اُس کے سر اور جسم کے دیگر حصوں پر لاٹھیا‌ں برساتے ہوئے اپنے ساتھ لے جاتے دیکھے گئے –
پی ٹی آئی کے آفیشل میڈیا سے ہٹ کر بھی ٹوئٹر اور یو ٹیوب پر ایک ویڈیو کلپ مسلسل شیئر ہورہا ہے جس میں ظل شاہ کو پولیس والوں کی گرفت میں دیکھا جاسکتا ہے جو مسلسل اس کے سر پر لاٹھیاں برسارہے ہیں اور ایک جگہ وہ گر بھی جاتا ہے –
پنجاب پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی کی ریلی پر تشدد، واٹر کینن کا استعمال، خواتین کے ساتھ بدسلوکی کا کوئی جواز سرے سے نہیں بنتا –
مجھے انتہائی افسوس سے یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ جیسے 17 جون 2014ء کو پنجاب پولیس اور پولیس کی وردیوں میں ملبوس ایک کالعدم تنظیم کے غنڈوں کی جانب سے پاکستان عوامی تحریک کے مرکز پر دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی 14 ہلاکتوں بشمول دو خواتین اور 150 سے زائد شدید زخمیوں پر مشتمل واقعے کی مسلم لیگ نواز کے زر خرید کمرشل لبرل صحافتی و سول سوسائٹی اشراف نے مذمت نہیں کی تھی بلکہ عاصمہ جہانگیر نے تو پاکستان عوامی تحریک کو ریاست و آئین کی باغی جماعت قرار دے کر اُن کے خلاف ریاستی ایکشن کرنے تک کا مطالبہ کردیا تھا –
ایسے ہی کل لاہور میں ہوئے پولیس ایکشن کے جواز کے لیے من گھڑت اور غیر سیاسی جواز گھڑے جارہے ہیں – بلکہ جھوٹ تک بولنے سے گریز نہیں کیا جارہا –
میں پی ٹی آئی اور اس کی مرکزی قیادت کی سیاست اور اُن کے نظریات اور فیصلوں کا شدید ترین مخالف ہوں – اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ونگ جھوٹ گھڑنے اور ایک کو سو دکھانے اور کئی بار کسی اور سانحے کے متاثرین کی تصاویر کو اپنے واقعہ کی تصاویر بناکر اَپ لوڈ کرنے میں مسلم لیگ نواز سے بھی کئی ہاتھ آگے ہے جیسے کل کے واقعے میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تصاویر استعمال کی گئیں –
لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ جس کارکن کی ہلاکت بادی النظر میں پولیس تشدد سے ہوئی اُس بارے آپ "موٹر سائیکل حادثے” کا جھوٹ گھڑ لیں؟
میرے نزدیک لاہور میں 17 جون 2014ء کا پولیس ایکشن ہو یا 8 مارچ 2023 کا ہو دونوں قابل مذمت ہیں –
کسی جمہوری کارکن کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اظہار رائے کی آزادی اور اجتماع کی آزادی کے حق کی پامال کا جواز تلاش کرے، یہ حق غیر سرکاری مافیا پامال کرے یا کوئی ریاستی ادارہ اس کو ہرگز سراہا نہیں جائے گا، اس کی مذمت کی جائے گی –
جو میرے دوست احباب پی ٹی آئی کو "فاشزم” کی آئیڈیالوجی اور پریکٹس والی جماعت قرار دے کر ریاستی تشدد کا جواز لارہے ہیں اُن سے میرا سوال یہ ہے کہ 14 فروری 2023 کنونشن سنٹر اسلام آباد میں کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان کو کانفرنس کرنے اور وہاں پر شیعہ، احمدی، کرسچن، ہندؤ اور دیگر فرقوں کو ڈرانے دھمکانے والی تقاریر کے وقت اسلام آباد کی حکومت، اس کی پولیس، فوج کا فسطائی مخالف جذبہ کہاں مرا پڑا تھا؟ وہاں وفاقی وزیر مذھبی امور جس کا تعلق جے یو آئی – ایف سے تھا، ممبر قومی اسمبلی جس کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا سمیت کالعدم تنظیموں اور فورتھ شیڈول میں شامل ملاؤں نے دوسرے فرقوں کے لوگوں کو ڈرایا دھمکایا اور سینٹ کو دھمکی دی کہ اگر اس نے فلاں بل پاس نہ کیا تو اس کو نتائج بھگتنا ہوں گے تب فسطائی مخالف جذبہ پی ڈی ایم کی حکومت کا کہاں گھاس چرنے چلا گیا تھا؟
پنجاب میں گزشتہ مہینے دو ایک مذھبی کمیونٹی کے دو افراد قتل ہوئے اور جو تنظیمیں اُن کے خلاف روز تشدد، نفرت، اور اُن کے قتل پر اکساتی ہیں اُن کے خلاف کون سا ایکشن ہوا؟ تب ریاست کا فسطائی مخالف جذبہ کہاں چلا گیا تھا؟
اس ملک میں اینٹی احمدی، ہندؤ، سکھ، کرسچن، شیعہ، صوفی بھگت فوبیا اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے ” فسطائی جذبہ تعذیب”
Fascist Passion for Persecution against religious minorities
کے خلاف ریاست کی مشینری حرکت میں نہیں آتی تو پھر پی ٹی آئی کے خلاف فاشزم کی غلط اصطلاحیں استعمال کرکے ریاستی تشدد کا جواز کیوں فراہم کیا جارہا ہے؟
جمہوری سیاست کرنے کی بجائے، عمران خان، متعصب ججز، متعصب جرنیلوں کا سیاسی میدان میں عوام کی طاقت اور حمایت سے مقابلہ کرنے کی بجائے اسٹبلشمنٹ کے اندر دوسرے دھڑوں سے مدد مانگ کر اُن کے زریعے ریاستی تشدد سے مخالف کو کچلنے کی ترغیب بذات خود آمریت اور فسطائی جذبہ ہے –
آج آئی جی پنجاب پولیس نے ایک پریس کانفرنس کی ان کے ساتھ نگران چیف منسٹر پنجاب سید محسن رضا نقوی بھی موجود تھے ، انھوں نے اپنی پریس کانفرنس میں فوٹیج اور گاڑی کے ڈرائیور کے اعترافی بیان کے ساتھ دعوی کیا کہ ظل شاہ کی موت حادثہ تھی – دوسری طرف فرانزک کی رپورٹ ظل شاہ کے جسم پر تشدد کے 27 نشانات بتارہی ہے۔ موقعہ پر موجود کئی صحافیوں کا موقف ہے کہ پولیس نے ظل شاہ پر بہیمانہ تشدد کیا ، سوال یہ بھی اٹھایا جارہا ہے اگر ظل شاہ کی موت ٹریفک حادثہ تھی تو پنجاب پولیس نے ظل شاہ کے قتل کے مقدمے کی ایف آئی آر عمران خان اور پی ٹی آئی والوں کے خلاف کیوں کاٹ دی؟ اس سوال کا جواب بھی آج کی پریس کانفرنس میں موجود نہیں تھا – دوسری طرف پی ٹی آئی کے محمود الرشید اور ديگر کی جو ظل شاہ کی لاش کے سٹریچر کے گرد کی ویڈیو ہے اس میں ایک شخص کی آواز سنائی دیتی ہے کہ ٹریفک حادثے سے موت ہوئی ہے، محسن نقوی کا اس پریس کانفرنس میں رویہ انتہائی جارحانہ تھا وہ یہاں تک کہہ گئے کہ اگر چیف منسٹر نہ ہوتا تو دوسرے انداز میں جواب دیتا، وہ بطور نگران وزیراعلی اب تک بنائے گئے نگران وزرائے اعلی سے مختلف ثابت نہیں ہوئے۔ پہلے دن سے ان کی ماتحت بیوروکریسی اور یہاں تک کہ اینٹی کرپشن کا رویہ ویسا ہ؛ی ہے جیسا پی ٹی آئی کے دور میں تھا- پی ٹی آئی کے دور میں ڈی جی اینٹی کرپشن کہتا تھا کہ کرپشن کا معاملہ اگر نواز لیگ کا ہے تو جم جم آئیں بسم اللہ اگر پی ٹی آئی کا ہے تو مت آئیں ، ایسے ہی اب سہیل ظفر چھٹہ ہے جو شہباز شریف کا سب سے فیورٹ پولیس افسر ہے اور اسے ہاف فرائی /فل فرائی کا بڑا شوق رہا ہے اور اب یہ اینٹی کرپشن ميں صرف اور صرف پی ٹی آئی ، چودھری برادران کے بارے میں کیسز کی ڈیمانڈ کررہا ہے۔ اگلی خبر بھی سن لیں کل تک چوہدری پرویز اللہی کے بیٹے کے ساتھ ہر ایک کرپشن جس کا نام نواز لیگ کا میڈیا سیل مسلسل لیتا تھا اور جنگ /جیو/ڈان سمیت نواز لیگ کے قریب سمجھے جانے والے میڈیا گروپسش میں نامور اینکر صحافی جنہیں حامیاں نواز لیگ سمجھا جاتا ہے زور و شور سے لیتے تھے یعنی ایاز نیازی وہ پی پی پی میں شامل ہوگیا ہے اور پی پی پی کے ڈمی عہدے دار اسے پیپلزپارٹی میں شمولیت پر خوش آمدید کہہ رہے ہیں – اس آدمی پر الزام ہے کہ اس نے پانچ ارب روبے کے ترقیاتی کاموں میں سے ہر ایک کام پر پانچ فیصد کمیشن وصول کیا اور اس پر کرپشن کرنے کے مزید کئی الزامات ہیں -کل تک عمران خان پر تنقید تھی کہ اس نے جسے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا اسے پارٹی کا صدر بنادیا اور اب پیپلزپارٹی میں آکر ایاز نیازی پاک صاف ہوجائے گا- یہ شخص پاکستان انشورنس کمپنی کا سربراہ بنایا گیا تھا پی پی پی کے دور میں اور اس کی وجہ سے پی پی پی کی حکومت پر بہت الزامات لگے، بدنامی ہوئی اور اس نے پی پی پی سے جب فائدہ اٹھایا تو اس کا گروپ خانیوال میں مسلم لیگ ق میں کھڑا تھا اور جب 2012 کا الیکشن ہوا تو اس کا سیاسی گروپ مسلم لیگ نواز میں کھڑا تھا جہاں سے اس کا والد ایم پی اے بنا- اور 2018ء میں یہ پی ٹی آئی کو سپورٹ کررہے تھے اور ق لیگ کے سرکردہ بنے ہوئے تھے ۔ یہ موقعہ پرستی کی بدترین مثالیں ہیں -گیلانی کوشش کرتے تو حلقہ پی پی-209 خانیوال سے انہیں بہت بہتر امیدوار مل سکتا تھا جو کم از کم اسقدر ڈھیلے کردار کا مالک نہ ہوتا- میرے پی پی پی کے بہت سارےجیالے دوست ایاز نیازی کی شمولیت کی تاویل بھی ڈھونڈ لائیں گے۔ میں پھر کہوں گا کہ پاکستان میں سیاست آج واقعی 60ء کی دہائی جیسی اشرافیت زدہ ہوگئی ہے لیکن ایک فرق ہے آج کے زمانے سے اس زمانے کا کہ تب طلباء تنظیمیں، ٹریڈ یونینز ، کسان و ہاری تنظیمیں ، اور عوامی سیاسی کارکن اور سیاست دان رہنماؤں کا قحط نہیں تب ہی 68ء اور 69ء میں اشرافیت پسند سیاست کو منہ کی کھانی پڑی تھی – عوام میں ورکنگ کلاس اور کسان طبقات کی بےگانگی اور بے زاری اس اشراف پسند سیاست سے روز بروز بڑھتی جارہی ہے جبکہ درمیانے شہری اور دیہی طبقے کے نوجوانوں کی اکثریت پنجاب میں پی ٹی آئی کے بیانیے کے پیچھے ہے اور میرے لیے سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ پی پی پی جس کے پاس ایسے سیاسی ورکر ہیں جو اس درمیانے طبقے کے نوجوانوں میں عمران خان جیسے آمرانہ رجحانات کے حمل سیاست دان اور نواز لیگ بڑے سرمایہ دارانہ طبقے کی ہوس،لوٹ مار اور بربریت کے خلاف کامیاب جدوجہد کرسکتے تھے انہیں دیوار سے لگاکر نواز لیگ سمیت رجعت پرستوں سے زبردستی پارٹی کا نکاح کردیا گیا ہے اور اس جبری نکاح سے پارٹی کی جو تباہی ہوئی ہے اس پر عذرلنگ بہت ہیں-

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: