مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عین عید کی صبح، جب امریکی مسلمان نماز پڑھ رہے ہوں گے، میں میری لینڈ کے ہولی کراس اسپتال کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔
میں نے بھابھی کو کال کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے فون نہیں اٹھایا۔ استقبالیے پر موجود لڑکی کو میں نے پیشنٹ کا نام بتاکر کمرا نمبر پوچھا۔ اس نے ایک اسٹیکر پرنٹ کرکے میری شرٹ پر چپکایا اور آئی سی یو کی راہ دکھائی۔
انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہونا، چاہے آپ مریض ہوں، یا تیمار دار، کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ میں کئی راہداریوں میں گھوم کر انیس نمبر کے کمرے میں پہنچا تو دھک سے رہ گیا۔
یہ تو معلوم تھا کہ ہمارے دوست انجم ہیرلڈ گل پھیپھڑے کے کینسر میں مبتلا تھے اور آکسیجن لگی ہوگی لیکن ان کا حال دیکھا نہ گیا۔
ابھی چند دن پہلے تک مضبوط جسم والا ہنس مکھ شخص بستر پر بے ہوش پڑا تھا۔ آنکھیں تھوڑی سی کھلی ہوئی تھیں۔ ناک اور منہ میں نلکیاں لگی تھیں۔ بدن پر تاریں لپٹی تھیں۔ ایک مشین بگڑے ہوئے دل کی کیفیت بتارہی ہے۔
میرے حواس قابو میں آئے تو کمرے میں ایک خاتون نظر آئیں۔ میں نے اپنا تعارف کروایا تو انھوں نے بتایا کہ وہ انجم کی بہن ہیں۔ کینیڈا سے آئی ہوئی ہیں۔ جب انھوں نے کہا کہ انجم میرا اکلوتا بھائی ہے تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ رونے لگیں۔ میری سمجھ میں نہ آیا کہ انھیں کیسے تسلی دوں۔ میں نے زندگی میں لاکھوں الفاظ لکھے ہوں گے۔ اس وقت کوئی لفظ یاد نہیں آیا۔
میں بستر کے قریب گیا تو بہن نے کہا، انجم بول نہیں سکتے لیکن سن سکتے ہیں۔
لیکن وہ گہری غنودگی میں تھے۔ ان کے منہ میں اتنی موٹی نلکی لگی تھی کہ اگر وہ ہوش میں ہوتے اور چاہتے بھی تو نہ بول پاتے۔
میں دس منٹ بھی اس کمرے میں کھڑا نہ رہ سکا۔ ہم نے کئی سال ایک دفتر میں ساتھ گزارے تھے۔ آٹھ گھنٹے آمنے سامنے بیٹھتے تھے۔ دوپہر کا کھانا ساتھ کھاتے تھے۔ دو بار ورزش کی تہمت کے لیے دو بلاک چہل قدمی کرتے تھے۔ ایسے پکے یار تھے کہ نوکری سے بھی ایک ہی دن نکالے گئے۔
میں نے فون پر بھابھی سے پوچھا تھا کہ انجم کو کیا ہوا؟ انھوں نے بتایا کہ سانس لینے میں دشواری تھی۔ ابتدائی تشخیص نمونیے کی تھی۔ لیکن مزید ٹیسٹ کروائے تو آخری مرحلے کا کینسر ظاہر ہوا۔ اس کے بعد انجم نے ہاتھ پاؤں چھوڑ دیے۔
کینسر کسی اور مقام پر ہو تو بڑھتے بڑھتے پھیپھڑوں تک پہنچتا ہے اور تب انسان موت کے شکنجے میں جکڑا جاتا ہے۔ انجم کو تو معلوم ہی تب ہوا جب کینسر نے آخری وار کیا۔
کمرے سے نکلتے ہوئے میں جانتا تھا کہ وہ آخری ملاقات تھی۔ بے شک میں نے کہا تھا کہ ان شا اللہ انجم بالکل ٹھیک ہوجائیں گے اور بہن نے بھی کہا کہ خداوند مسیح انھیں صحت دیں گے۔ لیکن ہم دونوں اندر سے ڈرے ہوئے تھے اور سچائی کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے تھے۔
میری کوئی عید اس سے زیادہ خراب نہیں گزری۔
ابھی اطلاع ملی ہے کہ انجم کا انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر پچپن چھپن سال ہوگی۔ وہ امریکا میں اوسط عمر سے بیس سال پہلے چلے گئے۔
جرنلزم ہم صحافیوں کی زندگی ہوتی ہے۔ لکھنے پڑھنے کی مشقت ہماری عمر بڑھاتی ہے۔ ہم نیوزروم میں زندہ رہتے ہیں۔ وائس آف امریکا کے نیوزروم میں جاکر دیکھیں، وہاں پچھتر، اسی اور پچاسی سال کے صحافی آج بھی کام کررہے ہیں۔ یہ رزق چھن جانے سے ہماری زندگی گھٹ جاتی ہے۔
ڈیڑھ دو سال پہلے ہم سے ہماری زندگی چھینی گئی تھی۔ ابھی دو ماہ پہلے نیوزروم میں واپسی نے مجھے ڈوبنے سے بچایا۔ میں سروائیو کرگیا۔ انجم کو لائف لائن نہیں مل سکی۔ ایک محروم صحافی مرحوم ہوگیا۔ میں اپنی بیروزگاری بھول سکتا ہوں لیکن ان کی ملازمت ختم کرنے والے کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ اس نے صرف معاشی قتل نہیں کیا، انجم کا جسمانی قتل بھی کیا۔ جب تک سفاک لوگ نیوزروم کے مالک رہیں گے، صحافی اسی طرح قتل ہوتے رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ