مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پیپلزپارٹی ڈیجیٹل میڈیا ۔۔۔ || آفتاب احمد گورائیہ

سوشل میڈیا پر شئیر کرنے کے لئے اچھے مواد کا ہونا بھی بہت ضروری ہے، اس کے لئے علیحدہ سے ٹیم ہونی چاہئیے جو ریسرچ کرکے معیاری اور سچ پر مبنی مواد تشکیل دے جسے سوشل میڈیا رضاکاروں کے ذریعے سوشل میڈیا پر شئیر کیا جا سکے

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک زمانہ تھا جب فتوحات کا تصور کسی کے علاقے پر قبضہ کر لینے تک محدود تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں ہر معاملےمیں جدت آتی گئی اور تعلیم و تہذیب کے ارتقا کے ساتھ لوگوں کی سوچ کا انداز بدلتا گیا اور دنیا جہان کا علم سمٹتے سمٹتے ایک عام آدمی کی جیب میں پڑے سمارٹ فون کے ایک کلک تک آن پہنچا تو میڈیا کی مختلف اقسام کے ذریعے کسی بھی قسم کے پروپیگنڈے کی رفتار بھی تیز تر ہوتی گئی اور صورتحال یہاں تک آن پہنچی کہ اب کسی کے علاقے یا زمین پر قبضہ کرنے اور وہاں کے لوگوں کو غلام بنا لینے کی بجائے پروپیگنڈے کے ذریعے اس علاقے یا ملک کے لوگوں کی سوچ کو یرغمال بنا کر اپنے حق میں استعمال کرنا اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا بہت آسان ہو چکا ہے۔ آج کے دور میں پروپیگنڈہ کے ذریعے کسی کی رائے کو تبدیل کر دینا یا اپنے زیر اثر کر لینا بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے اور سوشل میڈیا پروپیگنڈہ کی اس جنگ کا ایک بڑا ہتھیار بن چکا ہے۔

 سوشل میڈیا یا ڈیجیٹل میڈیا ایک بہت وسیع موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن کسی تکنیکی تفصیل میں جائے بغیر بھی اگر دیکھا جائے تو پچھلی دو دہائیوں میں میڈیا کی ظاہری شکل و صورت بہت حد تک تبدیل ہو چکی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب خبر کا واحد ذریعہ پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات و رسائل جبکہ الیکٹرانک میڈیا میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ایک سرکاری چینل تک محدود تھا لیکن اب پرنٹ میڈیا سے بات چلتے چلتے الیکٹرانک میڈیا کے سینکڑوں چینلز اور اب سوشل میڈیا تک آن پہنچی ہے۔ سوشل میڈیا پر خبر کی رفتار نے میڈیا کے باقی سارے ذرائع کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

‏پچھلی دو دہائیوں میں انٹرنیٹ کی بدولت انفارمیشن کا ایک طوفان ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے گھر گھر بلکہ لوگوں کی جیبوں میں سمارٹ فون کے ذریعے پہنچ چکا ہے۔ موجودہ دور بلاشبہ تیز رفتار ترقی کا دور ہے جہاں سوشل میڈیا کسی نعمت سے کم نہیں۔ پہلے جہاں معلومات کے حصول کے لئے لائبریریوں اور کتابوں کو کھنگالنا پڑتا تھا اب ایک کلک پر تمام معلومات آپ کے سامنے آجاتی ہیں۔  دنیا حقیقی معنوں میں ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ کسی بھی موضوع پر آپ کو رہنمائی درکار ہو تو سرچ کے ایک کلک پرمتعلقہ شعبے کے تجربہ کار افراد کی ماہرانہ رائے آپ کو میسر ہو جاتی ہے۔ اگر کتاب پڑھنے کا شوق ہے تو ہر موضوع پر دنیا جہان کی کتب سوشل میڈیا ویب سائٹس پر موجود ہیں جن سے آپ بلا معاوضہ استفادہ کر سکتے ہیں۔

‏ایک طرف اگر سوشل میڈیا کے بے شمار فائدے ہیں تو دوسری طرف سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے بے شمار نقصانات بھی ہیں۔ جھوٹی خبروں اور کسی کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ غلط اور نامناسب معلومات کے فروغ میں ایک بڑے معاون کا کردار بھی ادا کرسکتا ہے۔ بعض سیاسی جماعتیں اپنے سوشل میڈیا ورکرز کے ذریعے اپنے مخالفین کے خلاف جھوٹی خبریں اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کے لئےسوشل میڈیا کو  استعمال کرتی ہیں۔ باقاعدہ سوشل میڈیا سیل بنائے جاتے ہیں اور سوشل میڈیا ورکرز کو بھاری تنخواہ کے عوض اپنے مخالفین کے خلاف پروپیگنڈہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ چونکہ سوشل میڈیا کا دائرہ کار بہت وسیع ہے اور اور اس کو استعمال کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اس لئے کوئی بھی غلط خبر بہت ہی تھوڑے وقت میں وائرل ہو کر پڑھنے والے کی رائے پراثرانداز ہو جاتی ہے۔ اگر اس خبر کا فوری طور پر تدارک نہ کیا جائے تو پڑھنے والا اس غلط خبر کو سچ جان کر اپنی مستقل رائے قائم کر لیتا ہے جس کے بعض اوقات بڑے دور رس نتائج سامنے آتے ہیں۔

‏سوشل میڈیا چونکہ خبر کی ترسیل کا تیز ترین ذریعہ ہے اور ایسی خبریں جو چینلز نہیں دکھا سکتے وہ بھی سوشل میڈیا پر دستیاب ہوتی ہیں اس لئے کوئی بھی خبر سوشل میڈیا پر شئیر کرنے سے پہلے اس کی تحقیق بہت ضروری ہے۔ ایسا کرنا نہ صرف اخلاقی طور پر بہت ضروری ہے بلکہ غلط خبر آپ کی ساکھ کو بھی متاثر کرتی ہے۔ مسلسل غلط اور غیر مصدقہ خبریں شئیر کرنا لوگوں کے ذہن میں آپ کا ایک مستقل غلط تاثر قائم کر دیتا ہے اور آپ کی خبر کو اہمیت ملنا ختم ہو جاتی ہے۔

‏سیاسی جماعتیں بھی اپنے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا سیل میں نظریاتی کارکنوں اور رضاکار سوشل میڈیا کارکنوں کے علاوہ بھاری تنخواہوں پر پروفیشنلز کو بھی بھرتی کیا جاتا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے سوشل میڈیا رضاکاروں کا بھی یہ دیرینہ مطالبہ تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم کو منظم بنیادوں پر استوار کیا جائے تاکہ نہ صرف پارٹی کے نظریے، منشور اور کارکردگی کو تیز ترین ذریعہ ابلاغ یعنی سوشل میڈیا کے ذریعے عام آدمی اور نوجوانوں تک پہنچایا جا سکے بلکہ پارٹی اور قیادت کے خلاف پھیلائے جانے والے غلیظ پروپیگنڈے کا توڑ بھی کیا جا سکے۔ پیپلزپارٹی کی مخالف سیاسی جماعتوں کی منظم سوشل میڈیا ٹیموں کے مقابلے میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم اب تک صرف سوشل میڈیا رضاکاروں کے سہارے اپنا کام چلا رہی تھی۔ کارکنوں کے مطالبے اور سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے پاکستان پیپلزپارٹی ڈیجیٹل میڈیا کے نام سے باقاعدہ سوشل میڈیا ٹیم تشکیل دی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی ڈیجیٹل میڈیا ٹیم نے تھوڑے ہی عرصے میں نہ صرف پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے سوشل میڈیا رضاکاروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا ہے بلکہ بیرون ملک بسنے والے سوشل میڈیا رضاکاروں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرکے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی ڈیجیٹل کی جانب سے کراچی میں منعقد ہونے والی لانچنگ کی تقریب میں تقریبا دو ہزار کے قریب سوشل میڈیا رضاکاروں نے شرکت کی۔ کراچی کے بعد ملتان اور لاہور میں بھی ڈیجیٹل میڈیا کی لانچنگ کی تقریبات منعقد کی گئیں جو ہزاروں سوشل میڈیا رضاکاروں کی شرکت کے باعث ہاؤس فل شو قرار دی گئیں۔ ان تقاریب کی خاص بات یہ تھی کہ ان تقاریب کے روح رواں عام سوشل میڈیا کارکن تھے جن کی ان تھک محنت اور کوشش سے ان کامیاب تقاریب کا انعقاد ممکن ہو سکا۔ ان تقاریب میں بڑی تعداد میں نوجوانوں کی شرکت بھی پارٹی کے مستقبل کے لئے نہایت خوش آئیند امر ہے۔ 

ڈیجیٹل میڈیا کی لانچنگ کی تقاریب کے انعقاد اور سوشل میڈیا رضاکاروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا بلاشبہ ایک قابل ستائش کام ہے لیکن یہ صرف نکتہ آغاز ہے، اصل کام ان ہزاروں سوشل میڈیا رضاکاروں کو پارٹی پالیسی اور کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق تربیت دے کر ایک منظم اور مضبوط سوشل میڈیا ٹیم کی شکل دینا ہے۔ تربیت یافتہ اور فعال سوشل میڈیا ایکٹویسٹ ہی پارٹی کے لئے سوشل میڈیا پر فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کی ہر صنف پر توجہ دئیے جانے کی بھی ضرورت ہے، ٹوئیٹر، فیس بک، انسٹا گرام، یوٹیوب، ٹک ٹاک سمیت ہر میڈیم کے لئے سوشل میڈیا ایکٹویسٹس کی کم از کم بنیادی تربیت ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ تربیتی سیشن آن لائن بھی کئے جا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ہر شعبہ کے لئے الگ الگ لوگوں کو ذمہ داری دی جا سکتی ہے جو اپنے اپنے شعبے میں لوگوں کی تربیت کے ذمہ دار ہوں اور مرکزی سطح پر ان تربیتی سیشنز کا فالو اپ بھی کیا جائے تاکہ کسی سطح پر کوئی کوتاہی نہ ہو۔ 

سوشل میڈیا پر شئیر کرنے کے لئے اچھے مواد کا ہونا بھی بہت ضروری ہے، اس کے لئے علیحدہ سے ٹیم ہونی چاہئیے جو ریسرچ کرکے معیاری اور سچ پر مبنی مواد تشکیل دے جسے سوشل میڈیا رضاکاروں کے ذریعے سوشل میڈیا پر شئیر کیا جا سکے۔ ڈیجیٹل میڈیا کے ذمہ داران کو چاہئیے کہ ایسے لوگوں کو آن بورڈ لیں جو اچھا لکھ سکتے ہوں، وی لاگ کر سکتے ہوں، ویڈیوز بنا سکتے ہوں، ٹک ٹاک کے ذریعے پیروڈی کر سکتے ہوں۔ سب سے اہم بات جو یقیننا کوڈ آف کنڈکٹ کا بھی لازمی جزو ہو وہ یہ کہ سوشل میڈیا پر صاف ستھری اور شائستہ زبان میں اپنی رائے کا اظہار کیا جائے، مخالفانہ پروپیگنڈے کا جواب دینے کے لئے دلیل کا سہارا لیا جائے جس سے نہ صرف پارٹی کا ایک اچھا امیج بنے گا بلکہ کہی ہوئی بات کا اثر بھی ہو گا۔ سوشل میڈیا پر پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے بارے ایک عام تاثر موجود ہے کہ پیپلزپارٹی کے سوشل میڈیا رضاکار دلیل کے ساتھ بات کرتے ہیں اور شائستگی سے اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہیں۔ اس تاثر کو خراب نہیں ہونا چاہئیے بلکہ مزید بہتر ہونا چاہئیے۔ اس چیز کو ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے کہ وقتی سیاسی مفادات کی خاطر اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اور سوشل میڈیا کو صحت مند سیاسی مکالمے کے لئے استعمال کیا جائے نہ کہ مخالفین کی پگڑی اچھالنے کے لئے۔ دلیل کا جواب دلیل سے دیا جائے گالی سے نہیں۔

پیپلزپارٹی ڈیجیٹل میڈیا کی لانچنگ کے ساتھ ہی پارٹی کے اندر اور باہر سے تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ پارٹی کے باہر سے اٹھنے والی آوازوں اور تنقید کی تو سمجھ آتی ہے کہ پیپلزپارٹی ڈیجیٹل میڈیا کے منظم ہونے سے ان کے مفادات پر زد پڑے گی اور ان کے پھیلائے غلیظ پروپیگنڈے کا منظم طریقے سے جواب دینے کا بندوبست ہونے جا رہا ہے لیکن پارٹی کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں اور مسلسل تنقید بہرحال قابل فکر اور قابل غور معاملہ ہے۔ پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور سوشل میڈیا رضاکاروں کا عرصہ دراز سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ پارٹی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو منظم کیا جائے اور مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جائے۔ اب اگر پارٹی نے یہ مطالبہ تسلیم کر لیا ہے تو سب کو پارٹی کی اس کاوش کا ساتھ دینا چاہئیے۔ جن کارکنوں کو طریقہ کار سے اختلاف ہے ان کو چاہئیے کہ آگے آئیں اور بجائے اپنے اختلافات کو سوشل میڈیا پر نمایاں کرنے کے پارٹی کے پلیٹ فارم پر ڈیجیٹل میڈیا کے ذمہ داران کے ساتھ مل کر بیٹھیں، پارٹی پلیٹ فارم پر اپنی تجاویز دیں اور دلائل کے ساتھ اپنا نکتہ نظر بیان کریں۔ یہ چھوٹے چھوٹے مسائل کہ لانچنگ کی تقریبات ایسے ہونی چاہئیے تھیں ویسے نہیں ہونی چاہئیے تھیں، رجسٹریشن کی پابندی ہونی چاہئیے یا رجسٹریشن کی پابندی نہیں ہونی چاہئیے، ان کو پس پشت ڈال کر اصل مقصد کے لئے آگے بڑھیں۔

ڈیجیٹل میڈیا کے ذمہ داران کو بھی چاہئیے کہ تنقید کو مثبت انداز میں لیں اور اختلاف رکھنے والے ساتھیوں کی بات سنیں اور ان کے نکتہ نظر کو اہمیت دیں۔ پیپلزپارٹی ڈیجیٹل کے پلیٹ فارم کی مضبوطی اور کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں اوراختلافات سے باہر نکل کر پارٹی نے جو پلیٹ فارم مہیا کیا ہے اسے مضبوط کرنے کے لئے سب ساتھیوں کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ چھوٹے موٹے اختلافات چلتے رہتے ہیں، سارے سوشل میڈیا رضاکار مل کر بیٹھیں گے، پروگراموں میں شامل ہوں گے تو قابل عمل اور بہتر تجاویز پر عمل بھی ہو سکتا ہے اور اختلافات بھی حل ہو سکتے ہیں۔ مقصد ایک ہو، منزل ایک ہو تو طریقہ کار کے چھوٹے چھوٹےمسائل رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں۔

۰

Twitter: @GorayaAftab

پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

آفتاب احمد گورائیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: