اپریل 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آپ کی مرضی۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظامِ شمسی کو وجود میں آئے کوئی پانچ ارب سال ہوئے ہیں، اور مزید کوئی پانچ ارب سال بعد شاید یہ بھسم ہو جائے گا، سورج بجھ یا پھٹ جائے گا۔ تجاذب میں ایک خفیف سی ہلچل تمام سیاروں کو گرد کے ذروں کی طرح سورج کی کوکھ میں واپس کھینچ لے گی، ستاروں کی خاک ستارے میں مل جائے گی۔
ابھی صرف پچاس سال ہی تو ہوئے ہیں کہ انسان نے اپنے مسکن سیارے کو کہیں اور سے دیکھا ہے۔ یہ کرۂ ارض کا پہلا معروضی نظارہ تھا۔ دنیا نے اپنے معاملات کو بھی معروضی انداز میں دیکھنا سیکھا ہے، یا کم ازکم اِتنا ضرور سیکھا ہے کہ خواہ مخواہ اپنے موضوعی (سبجیکٹو) نقطۂ نظر کو دوسروں پر عائد نہیں کرنا۔
اِس تصویر کو دیکھیں، اِس کرے پر بڑا حصہ پانی کا ہے، سمندر جو زندگی کی کوکھ تھا، اور پونے دوسو کے قریب دریا جو تہذیب کا گہوارہ بنے۔ تہذیب کا ریکارڈ ہم کوئی دس ہزار سال سے ہی جانتے ہیں۔ یقین کیجیے موئے زیرِ ناف کی مشروع لمبائی یا دائیں/بائیں ہاتھ سے پانی پینے کا گناہ یا ثواب اِس کائنات میں اُتنی بھی وقعت نہیں رکھتا ہے جتنا ہزاروں ہرنوں کے ریوڑ میں کسی ہرن کی تھوتھنی پر بیٹھی ہوئی مکھی کی ٹانگوں سے چمٹا ہوا پولن۔
کارل ساگان کی کتاب ’’کاسموس‘‘ کی خوبی یہ ہے کہ وہ آپ کو اپنے فرسودہ اور جھوٹے قومی فخر، درخشاں ماضی کی فرضی چکاچوند، انسانی حرامزدگی، سیاسی تبصروں اور تجزیوں سے ہمیشہ کے لیے نہیں تو کم ازکم کچھ گھنٹوں کے لیے ضرور بھلا دیتی ہے۔ کارل ساگان آپ کے تعصبات، ’’عالمگیر‘‘ مسائل اور ’’مجھے یہ پسند نہیں‘‘ کی بکواسیات کا توڑ ہے۔ مگر آپ ہیں کہ پی ٹی آئی اور نون لیگ کے دو پلاسٹک کے پہلوانوں کو نظر نہ آنے والے دھاگے میں پرو کر نچاتے اور لڑاتے ہوئے ہی زندگی گزارنے کے مشتاق ہیں۔ آپ کی مرضی۔
ادب کی کئی تھیوریز آرٹ کے دیگر شعبوں سے ادب میں آئیں، جیسے ڈی کنسٹرکشن کی تھیوری کا آغاز آرکیٹکچر سے ہوا۔ اس کے علاوہ امپریشن ازم وغیرہ بھی پینٹنگ سے تعلق رکھتی تھی۔ میں نے اپنی کتاب نظریات کی مختصر تاریخ میں امپریشنزم کا مختصر تعارف دیا ہے جو بک کارنر جہلم سے شائع ہوئی۔
امپریشنزم (impressionism) کے لیے اُردو میں تاثریت اور ارتسامیت کی اصطلاحات بھی استعمال ہوتی ہیں۔ مصوری میں اس تحریک جس کا آغاز انیسویں صدی کے اواخر میں فرانس سے ہوا۔ امپریشنسٹ مصوروں کو ان کے دور میں روایت شکن خیال کیا جاتا تھا کیونکہ اُنھوں نے سابق مصوروں کے قائم کردہ اصولوں کو توڑا۔ اُنھوں نے تاریخ کے بجائے ارد گرد کی زندگی سے موضوعات ڈھونڈے۔ وہ سابق آرٹسٹوں کی طرح مثالی حسن مصور کرنے کے بجائے کسی خاص لمحے میں لیے ہوئے تاثر کو پیش کرنا چاہتے تھے۔ ضروری نہیں تھا کہ لوگوں کی نظر میں وہ تاثر خوب صورت ہی ہو۔ امپریشنسٹ مصوروں کی تصاویر میں رنگ روشن ہیں کیونکہ اُنھوں نے کالے اور نسواری رنگوں کے استعمال سے اجتناب کیا۔ امپریشنزم سے وابستہ آرٹسٹوں میں ایڈگر ڈیگاس، کلاڈ مونے، برتھ موریسوٹ، کاملے پیسارو، پیئرے آگسٹ، رینائر اور ایلفرڈ سسلے شامل ہیں۔ ادب میں یہ اصطلاح کبھی کبھی کسی معروضی حقیقت کی تخلیق نو یا تعبیر نو کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ مثلاً ڈوروتھی رچرڈسن، ورجینیا وولف اور جیمز جوائس کی تحریروں کو امپریشنسٹ قرار دیا جاتا ہے جنھوں نے سلسلۂ شعور کی تکنیک استعمال کی۔ ادبی تنقید میں اس سے مراد کسی فن پارے کی جانب کسی شخص کے موضوعی تاثرات ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: