اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تاریخ سے محرومی کا قومہ۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر کوئی آپ سے کہے کہ وہ پاکستان یا پنجاب کی تاریخ پڑھنا چاہتا ہے، اور اردو میں کوئی طبع کتاب تجویز کریں تو آپ کے ذہن میں شاید ہی کوئی کتاب آئے۔ حتیٰ کہ قائد اعظمؒ، علامہ اقبالؒ اور دیگر رحمۃ اللہوں کے بارے میں کوئی کتاب مشکل سے ملے گی۔ مشاہیر پاکستان، سردار عبدالرب نشتر وغیرہ کی تو بات ہی الگ ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ تاریخ کے اتنے پی ایچ ڈیز کیا صرف گھاس کاٹ رہے ہیں؟ تاریخ کا مضمون یونیورسٹیوں میں کس لیے پڑھایا جاتا ہے؟
انگریزوں نے انتظامی مقاصد کے تحت جو ضلع وار گزیٹیئر مرتب کیے تھے اُن میں مالیات، تاریخ، ذرائع پیداوار، ثقافت، اہم مقامات وغیرہ کے متعلق معلومات درج تھیں۔ حتیٰ کہ پیمانے، اوزان، زیور، محاورے وغیرہ بھی دیے گئے تھے۔ یہ گزیٹیئرز ایک سو سال سے زائد عرصے تک اردو میں دستیاب نہ ہو سکے، اور میں نے 2011ء کے بعد اِنھیں پہلی بار ترجمہ کیا۔
ذاتیں، قبیلے وغیرہ ہمارے ہر ہر گھرانے کا اہم جزو ہیں، اِن کے متعلق معلومات کو اب مردم شماری کے ڈیٹا کا حصہ ہی نہیں بنایا جاتا۔
یہ سب لاپروائی کا یا بے حسی کا نتیجہ نہیں۔ یہ سوچی سمجھی سکیم ہے۔ دیکھیں، ایک خلا رہے گا تو تبھی آپ کی آواز گم ہو گی، ایک فراموشی کا افتراق منہ کھولے ہر وقت کھڑا رہے گا تو آپ ڈرے سہمے رہیں گے۔
اردو میں پاکستان کی کوئی طبع زاد تاریخ موجود نہ ہونا بے معنی نہیں۔ (ایک یحییٰ امجد کی تاریخ پاکستان محض مطالعہ پاکستان کا تسلسل ہے)۔ آپ کو پنجاب اور لاہور کی تاریخ کوئی ایک سو سال پرانی ملے گی۔ بلوچستان کی تاریخ انگلش ماخذوں کی بنیاد پر ہی لکھی گئی۔ سرحد یا پختونخوا کی تاریخ دیکھی کبھی آپ نے؟
جو ڈراما آج کل آپ اور ہم ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں، وہ اسی بے دماغی اور تناظر کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ یہ ساری تاریخ مٹانے کی کاوش اسی لیے ہوئی تھی۔ یوتھیے یونہی پیدا نہیں ہو گئے۔ وہ بے دماغی کا ثمر ہیں۔ پاکستان کا حال اِس وقت وہی ہے جو شدید حادثے کے شکار، الزائمر اور شیزوفرینیا کے مریض کا ہوتا ہے۔
کہتے ہیں کہ جونہی شدید حادثے کا شکار ہونے والے مرد دو چار یا چھ ماہ قومے سے باہر آتے ہیں تو فوراً اپنے عضوِ تناسل کو چیک کرتے ہیں، اور عورتیں فوراً بچوں کا پوچھتی ہیں۔ پاکستانی مردوخواتین قومے کی حالت میں ہی رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا صلب قومے میں بھی چل رہا ہے اور ماؤں کے بچے زمان پارک میں جھنڈے پکڑ کر کھڑے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: