نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’ تارا مسیح ثانی‘‘ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور کے ماہ و سال یاد آرہے ہیں کچھ بعد کے شب و روز کی دستک شدید ہے ۔ ایک بار ایسا ہوا کہ جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کو آرمی ہائوس ملاقات کے لئے بلایا دونوں میں خاصی گپ شپ ہوئی چائے پتے ہوئے جنرل مشرف نے ایک فائل چیف جسٹس کے سامنے رکھی اور بولے مناسب یہی ہے کہ منصب سے مستعفی ہوجائیں۔

افتخار چودھری ابھی سنبھلنے نہیں پائے تھے کہ مشرف بولے تشریف رکھیں غور کریں فائل پڑھ لیں میں جمعہ پڑھ کے واپس آتا ہوں پھر بات کرتے ہیں۔ اشفاق، آپ کی میزبانی کے لئے موجود ہے۔

کچھ دیر بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حکم پر ملازمین نے دونوں کے سامنے کافی کے کپ رکھے۔ کافی ختم ہوئی کیانی بولے آپ جانا چاہیں تو جاسکتے ہیں’’ میں سب دیکھ سنبھال لوں گا‘‘۔ یہ دیکھ سنبھال لوں گا اصل میں پیغام تھا، استعفیٰ نہیں دینا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے

آزاد عدلیہ کی تحریک چلی ملک کی طاقتور ایجنسی کے لوگ شہر شہر اس تحریک کو منظم کرنے میں ہمہ تن مصروف ہوئے اور صدر جنرل پرویز مشرف کو سب اچھا کی رپورٹس ملتی رہیں۔ ہمیں وکلاء تحریک میں ہوئی سرمایہ کاری چودھری کے لئے دلداری اور دوسرے معاملات پر بات نہیں کرنی البتہ وقت نے ثابت کیا کہ اشفاق پرویز کیانی اور امریکی سفیر ایک پیج پر تھے۔

یاد کیجئے جب بہت بعد میں میاں نوازشریف اور اعتزاز احسن کی قیادت میں ججز بحالی کا جلوس گوجرانوالہ میں تھا تو اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے آرمی چیف کیانی اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو فون کیا تھا۔ گیلانی نے صدر مملکت زرداری سے بات کی زرداری کا موقف تھا کہ میثاق جمہوریت میں تو صاف لکھا ہے کہ پی سی او جج بحال نہیں ہوں گے۔

بہرحال قصہ مختصر جلوس والوں کو بتایا گیا کہ وزیراعظم ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے جج بحال کررہے ہیں۔ تب جناب اعتزاز احسن نے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے رابطہ کرکے اس خبر کی تصدیق کی اور پھر میاں نوازشریف کو بتایا کہ معاملہ طے پاگیا ہے۔

کچھ پیچھے اس مقام پر واپس چلتے ہیں جہاں چودھری اور مشرف کی ملاقات ہوئی تھی۔ جنرل مشرف نے جو فائل افتخار چودھری کے سامنے رکھتے ہوئے استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا تھا اس فائل میں دیگر باتوں گھاتوں سرخی پوڈر کی وارداتوں کے علاوہ افتخار چودھری کے بیٹے ارسلان افتخار کی ’’پھڑپھڑیاں‘‘ کی تفصیلات درج تھیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جس ایجنسی نے یہ فائل بنائی اس نے پیپلزپارٹی کے ساتھ وہی کیا کروایا جو تارا مسیح نے بھٹو کے ساتھ کیا تھا۔ تارا مسیح کی تو نوکری ہی یہی تھی کہ وہ پھانسی کی سزا پانے والے کو تختہ دار پر لٹکانے سے قبل اس کے ہاتھ پشت کی طرف لے جاکر باندھے چہرے پر کالا غلاف چڑھائے اور پھانسی گھاٹ کا لیور کھینچ دے۔

البتہ افتخار چودھری جب پیپلزپارٹی کے لئے تارا مسیح بنے تو یہ اس حساب سے خوش قسمت رہے کہ آرمی چیف، آئی ایس آئی چیف اور ملک کی متبادل قیادت میاں نوازشریف اس کے ساتھ کھڑے تھے۔

خیر چھوڑیں آجکل پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں صلح چل رہی ہے ایسے میں ہم کون ہوتے ہیں تفصیل لکھنے والے کہ پیپلزپارٹی کے لئے تارا مسیح بننے والے نے شاہراہ دستور کو جب پیپلزپارٹی کا پھانسی گھاٹ بنایا تھا تو تب رسیاں کس نے لاکر دیں۔ کالا غلاف کون لایا۔ پائوں کس نے باندھے۔ یہ کوئی راز نہیں

یہ سطور لکھتے ہوئے یاد آیا کہ چیف جسٹس افتخار چودھری کے بیٹے ارسلان افتخار کی کرپشن کے قصے زبان زدعام ہوئے موصوف بڑی بڑی مالدار شخصیات سے بھتے، معاف کیجئے گا سہولتیں لیتے تھے یہ معاملہ جب بے قابو ہوا تو یہ ثبوت سامنے آئے کہ ارسلان افتخار کی کاروباری کمپنی کا ایڈریس سی جے ہائوس ججز کالونی اسلام آباد کا لکھا ہوا ہے۔

غالباً شعیب سڈھل نے تحقیقات میں تعاون کیا چودھری سے کیوں کیا یہ الگ داستان ہے۔ ارسلان افتخار شعیب سڈھل کو بچوں کی طرح عزیز تھے اسی لئے تو اس کی شادی کی تقریبات کے منتظم اعلیٰ لگے رہے۔

خیر معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا افتخار چودھری خود اس بنچ کے سربراہ بن گئے جس نے اس کے بیٹے کی کرپشن کے معاملات کی سماعت کرنا تھی۔ اب یاد کیجئے کہ کس کس سرمایہ دار نے ثبوت فراہم کئے تھے ارسلان افتخار چودھری کو فراہم کی گئی سہولتوں، پیش کئے گئے نذرانوں، بیرونی سفر کے قیام و طعام اور شاپنگوں کے۔

وہ سرمایہ دار بھی نائب بری امام یا داتا گنج بخش ثانی نہیں تھے لیکن انہیں بعد میں سپریم کورٹ کئی برسوں تک خوب رگڑے لگاتی رہی۔

معاف کیجئے گا میں بھی کیا کہانی لے کر بیٹھ گیا۔ پچھلے دو دن سے سوشل میڈیا پر بھارت کی ترقی و استحکام کے گن گانے والے پاکستان کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کوئی مقابلہ اور تقابلی جائزہ بنتا ہے کیا بھارت کا اور ہمارا؟ ہماری رائے میں تو نہیں بنتا۔کرپشن بھارت میں بھی ہے اتنی کہ خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں البتہ اگر صورتحال کو ٹھنڈے دل سے سمجھنا چاہتے ہیں تو پھر کم از کم پچھلے 50برسوں کے دوران بھارت اور پاکستان میں فرائض سے سبکدوش ہوئی سول ملٹری اشرافیہ کے اثاثوں پر نگا دوڑالیجئے۔

بھارت میں ہزار خرابیوں کے باوجود حق ملکیت عوام کے پاس ہے اور حق حکمرانی منتخب نمائندوں کے پاس، وہاں زورزبردستی کے مالکان ہونا نظریاتی سرحدوں کا دھندہ نہیں ہے یہ چونچلے ہمارے یہاں ہی پائے اٹھائے جاتے ہیں

چلیں بھارت کے ذکر خیر کو چھوڑیں ہم واپس اسلام آباد چلتے ہیں۔ 14مئی کو پنجاب اسمبلی کے الیکشن کرانے کے حتمی حکم اور پھر سٹیٹ بینک کو 21ارب روپے الیکشن کمیشن کو دینے کے حکم سے پہلے سیایس جماعتوں کے وکلاء سے توہین آمیز برتائو کرکے انہیں حقارت کے ساتھ بیٹھ جانے کو کہنے والے چیف جسٹس نے گزشتہ روز تین باتیں کیں،

فرمایا، اعلیٰ فوجی افسروں کو بتادیا تھا کہ فیصلہ ہوچکا ہے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ حکومت الیکشن کمیشن کو 27اپریل تک 21ارب روپے دے اٹارنی جنرل حکومت کو بتادیں کہ عدالتی حکم سے انحراف کے سنگین نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔ تین رکنی بنچ نے وزارت دفاع کی درخواست نمٹادی۔

ایک ہی دن انتخابات کروانے کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کو نوٹس بھجوانے کے ساتھ کہا ایک موقف پر آجائیں تو گنجائش نکل سکتی ہے ورنہ 14مئی کو پنجاب میں انتخابات ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ نے بقول آپ فوجی افسروں کوبتا دیا تھا کہ فیصلہ ہوچکا ہے پیچھے نہیں ہٹیں گے تو یہ گنجائش کس معاملے میں نکالنے کا اشارہ ہے؟

ساعت بھر کے لئے رکئے کیا واقعی فوجی افسروں سے یہی کہا گیا تھا کہ ’’فیصلہ ہوچکا ہے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘۔ دستیاب معلومات کے مطابق یہ نہیں کہا گیا تھا۔ کیا کہا گیا تھا یہ ویسے ملاقات کرنے والوں کو اب بتادینا چاہیے اور یہ بھی کہ کیا ملاقات طے کرانے کے لئے انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا تھا یا اٹارنی جنرل نے ملاقات کے لئے پیغام سیکرٹری دفاع کو دیا تھا پھر ٹیلیفونک رابطے ہوئے۔

عدالتی حکم عدولی کے سنگین نتائج کی دھمکی اور دوسری جانب یہ کہنا کہ سیاسی جماعتیں متفق ہوں تو گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔

سیاسیات و صحافت کے اس طالب علم کو بس اتنا بتادیجئے کہ دستور میں کہاں لکھا ہے کہ عدالت ایک فیصلہ دے پھر اس فیصلے کو منوانے کے لئے دو اور فیصلے اور پھر یہ پیشکش کردے کہ ’’ایک بنو نیک بنو تو ہم کچھ کرتے ہیں‘‘

بہت احترام کے ساتھ عرض ہے عدالتیں فیصلے دیتی ہیں سہولت کاری کا تاثر نہیں۔ انتخابات کی تاریخ میں ردوبدل کا اختیار پارلیمان کو ہے یا دیئے گئے اختیارات کی بدولت الیکشن کمیشن کو۔

پارلیمان اور الیکشن کمیشن کے اختیارات استعمال کرنے کی کوئی بھی کوشش مسائل پیدا کرے گی۔

افتخار چودھری کی پیروی تباہی کے بیج بوئے گی۔ اصولی طور پر تو 14مئی کو الیکشن کرانے اور سٹیٹ بینک کو 21 ارب روپے الیکشن کمیشن کو دینے کا حکم سنانے والوں نے ان سیاسی جماعتوں کے وکلاء سے جو سلوک کیا تھا اس کے بعد انہیں وکلاء کے ذریعے پیش نہیں ہونا چاہیے تھا نوٹسز کی تعمیل اور پیشی کا مطلب یہ ہوگا کہ پارلیمنٹ جس فیصلے کو چار تین کا فیصلہ قرار دے رہی ہے اسے تین دو کا فیصلہ مان لیا جائے اور اختیارات سے تجاوز کرکے دیئے گئے صرف پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے حکم کے سامنے سپر ڈال دی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author