مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اٹھاؤ گلاس ، مارو جھک(افسانہ)||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اس مرتبہ لاہور گیا تو اس نے مرا تپاک سے استقبال کیا اور مجھے کینٹ میں سرور روڈ پر بنے اپنے شاندار گھر لے آئی اور کہنے لگی
جتنے دن لاہور رہو ، یہیں رہنا ، مری گاڑی حاضر ہے اور اس مرتبہ جہاں جاؤ مجھے ساتھ رکھنا ہے
میں نے سرہلایا
کہنے لگی آج رات تمہیں کسی جگہ لیکر چلنا ہے ، آرام کرلو ، شاید رات بھر جاگنا پڑے
میری ایک کمرے تک رہنمائی کی ، میں کمرے میں آیا اور جوتے اتار ، سامان رکھ ، بستر پر خود کو گرا سوگیا ، نجانے کب تک سوتا رہا
اٹھ جائیں جناب
اس کی آواز مرے کانوں میں پڑی ، میں اٹھ کر بیٹھ گیا
کب سے تمہیں آوازیں دے رہی ہوں ، کیا محض سونے آئے ہو
میں نے اس کی اور دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا
بلیک کلر کی ساڑھی اور سفید رنگ کے بلاؤز میں وہ قیامت لگ رہی تھی
میں مبہوت ہوگیا ، اس کا سرخ و سپید رنگ ، شربتی آنکھیں ، کالے لمبے بال ، ستواں چہرہ واقعی زھد شکن تھا اور وہ بڑے طنطنے اور تمکنت کے ساتھ کھڑی تھی
مجھے لگا کہ جیسے اس کی انکھیں سکینر ہوں اور مری آنکھوں سے مرے دماغ کے اندر چل رہی کھد بد کو پڑھ رہے ہوں
چہرے پر ایک فخریہ مسکراہٹ تھی اور پتلے پتلے سے ہلکے سی اسکن لپ اسٹک کے ساتھ اس کے ہونٹوں پر ایک مسکان تھی اور ہونٹ تھوڑے سے کھل گئے تھے
مجھے لگا کہ جیسے کہہ ڈالے گی کہ
کمبخت اندر سے مرد ہی نکلا نا
میں جب بھی لاہور آتا تو ہر بار یہ ارادہ کرتا کہ اس سے نہ ملوں گا
مگر یہ ارادہ ہر بار لاہور شہر آکر دم توڑ جاتا اور میں لقے کبوتر کی طرح اس کا طواف کرتا ، اس کے ساتھ دن اور راتیں گزارا کرتا تھا
وہ اور میں اس وقت سے ایک ساتھ تھے جب ہم دونوں گورنمنٹ کالج لاہور میں پہلی مرتبہ اس وقت ملے تھے جب کالج اور کلاس میں ہمارا پہلا دن تھا ، اس دن کلاس میں بیگ صاحب کے سامنے یا میں بے تکان بولا تھا یا وہ ، اور بعد میں پہلے دن ہم نے کینٹین پر ہی اسقدر لمبا وقت گزارا تھا کہ شام ڈھل گئی اور کینٹن کے مالک نے آکر کہا
جناب ! ہم نے کینٹن بند کرنی ہے
ہم دونوں بوکھلا کر اٹھے اور باہر نکلے تو دیکھا کہ کچھ دیر میں رات کا اندھیرا پھیلنے ہی والا ہے
اس کے بعد تو پھر کالج سے بی اے کرنے تک ہم اکٹھے ہی رہے
لاہور شہر کی گلیاں ، کوچہ و بازار ، باغات ، وائی ایم سی ہال ، پاک ٹی ہاؤس ، سب ہم نے پیدل اکٹھے ہی دریافت کئے اور وہآں پر چھپی ” اداسی ” کو کھودا اور پھر ان مقامات پر پرانے دور کے کئی کرداروں کو گھمتے پھرتے اور آہیں بھرتے دیکھا
لیکن اس قدر گہرے تعلق کے باوجود نہ اس نے کبھی مرے خاندان یا کسی اور زاتی چیز بارے پوچھا اور نہ ہی ميں نے ، اس نے کبھی اپنے گھر آنے کی مجھے دعوت نہ دی اور نہ ہی میں اسے اپنے آبائی شہر اور گھر لیکر آیا ، پھر ایک لمبے عرصے تک ہم نہ ملے اور بہت عرصہ بعد وہ مجھے ” آواری ” میں ملی جبکہ میں وہاں پر ایک سماجی تنظیم کے فنکشن مین گیا تھا ، لفٹ سے اترا تو سامنے اس سے ٹاکرا ہوگیا ، ہم دونوں پہلی نظر میں ایک دوسرے کو پہچان گئے تھے اور تھوڑی دیر خاموشی سے ایک دوسرے کو تکتے رہے ، پھر اس کی جوش میں بھری آواز نکلی
تم ! کہاں مرگئے تھے ؟
یہی سوال مرا بھی ہے کہ تم کہاں مرگئیں تھیں ؟
میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا
تھوڑی دیر کے لئے اس کو چپ لگی ، چہرے پر غبار آیا
پھر اس نے کہا
کہیں نہیں یہیں لاہور میں تھی
ٹھہرے کہاں ہوئے ہو ؟
بس یہیں جوہر ٹاؤن میں
کس کے ہاں ؟
ایک کزن ہے
میں نے کہا
چھوڑو کزن کو ، چلو مرے ساتھ
اس نے یہ کہتے ہوئے مرا ہاتھ پکڑا اور مجھے تقریبا گھسیٹتی ہوئی دوبارہ لفٹ کی اور بڑھی
آواری سے ہم کب نکلے ، کب اس کے گھر پہنچے ، مجھے کچھ پتہ نہیں چلا ، سارے راستے ہم خاموش رہے ، کوئی بات نہ کی
اس نے مجھ سے یہ بھی نہ پوچھا کہ میں کیا کررہا ہوں ؟ اور میں نے بھی
کوئی گھٹیا سے روائتی سوال ہم نے نہ کئے
شادی ہوئی یا نہیں ، ہوئی تو بچے کتنے ہیں ؟ کیا کرتے ہیں
ارے تم کدھر کھوئے ہوئے ہو ؟
اس کی آواز نے مجھے چونکا دیا
جلدی سے نہاؤ ، میں نے تمہارے بیگ سے ایک سوٹ استری کردیا ہے ، اس الماری میں ٹنگا ہے ، اس نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے بتایا
میں باتھ روم میں گھس گیا ، اندر قد آدم آئينے چاروں اور لگے تھے اور ان کو دیکھ کر مجھے اس کا ساڑھی میں لپٹا مہین سراپا یاد آگیا اور مرے زھن میں جو منظر ان قدآدم آئینوں کو دیکھ پیدا ہوا ، اس پر میں خود ہ؛ شرمندہ ہوگیا اور پھر مرے ذھن میں وہی فقرہ گونجا
” کمبخت اندر سے مرد ہی نکلا نا ”
میں نے سارے خیالات جھٹکے اور شاور لینے لگا ، پھر جلدی سے تولیا لپٹے الماری کی اور بڑھا اور اندر دیکھا تو اس نے کالے رنگ کی شلوار قمیص استری کی ہوئی تھی ، میں نے لباس زیب تن کیا ، جوتے پہنے اور باہر آگيا ، وہ لاؤنج میں ایک صوفے پر بیٹھی سامنے لگی ایل ای ڈی سکرین پر چل رہے ایک وڈیو سانگ کو دیکھ رہی تھی
چلیں
مجھے دیکھ کر اس نے کہا
ہاں چلیں ، میں جلدی سے کہا
میں اس کی طرف دیکھنے سے کترا رہا تھا
مگر کنکھیوں سے اس کے سراپے کو دیکھ رہا تھا
تاڑنا ہے تو ٹھیک طرح سے تاڑو نا
ابھی تک تم وہی ہو ، گھامڑ سے خواہشوں سے بھرے لڑکے مگر بے دریغ کسی کو دیکھ کر آنکھیں سیکھنے سے عاری
اس نے اچانک کہا اور میں بری طرح سے گبھراگیا اور سچی بات ہے مرے جھوٹے پندار کو بہت ٹھیس لگی ، اور ميں نے کہا
مجھے تمہارے ساتھ کہیں نہیں جانا ، نہ یہاں ٹھہرنا ہے ، میں جارہا ہوں
او ! مرے غصیلے شہزادے ، زرا ٹھہر ، کہاں چلا ، لے بابا سوری کرتی ہوں ، دیکھ چاہے چھپ کر ، کنکھیوں سے کچھ نہیں کہتی ، ویسے ترا یوں دیکھنا مجھے برا نہیں لگا ، بس دل کیا کہ تو کسی جھجک کے بنا دیکھے اور بار بار تری آنکھوں ميں ابھرتی ستائش دیکھنے کو من کررہا تھا
واہ ! آج تو تم فل فارم میں ہو
یہ کہتے ہوئے میں بھی نارمل ہوگیا ، اور زرا سا شوخ بھی اور ایک بھرپور نظر بھرکے اسے دیکھا
یہ ہوئی نا بات ۔۔۔۔۔۔ اس نے بھی فوری اور برجستہ کہا
اور ساتھ ہی ہم دونوں کھلکھلا کر ہنسنے لگے
کہاں چلنا ہے ؟ میں نے سوال کیا
سرپرائز ہے
ہم دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے اور اس نے گاڑی ڈرائیو کرنا شروع کردی
گاڑی چلا لیتے ہو کہ نہیں
نہیں وہی صورت حال ہے نہ گاڑی ، نہ موٹر سائیکل ، نہ بائی سائیکل
عجب آدمی ہو
مجھے لگتا ہے کہ تم کہیں اسی زمانے میں ٹھہر سے گئے ہو
نہیں تو ، بس اسقدر ٹھہراؤ ہے کہ ڈرائیونگ نہیں آتی مگر لیپ ٹاپ ، سمارٹ فون سمیت کئی جدید ایجادات کو بخوبی استعمال کررہا ہوں
اس نے ہاتھ آگے بڑھایا اور سوئچ دباکر میوزک چلادیا
جاوید بشیر گارہا تھا
وے سادی سجن دے ہتھ بانھہ
رات کے ساڑھے آٹھ بجے تھے ، کینٹ لاہور کی چوڑی کشادہ سڑکوں پر ٹریفک کا رش تھا ، گاڑی وہ بڑی سبک رفتاری سے چلارہی تھی اور اس کے ہاتھوں کی حرکت اور گھماؤ اسٹئیرنگ کے ساتھ ساتھ مجھے ردھم میں لگ رہا تھا ، میں نے آنکھیں بند کرلیں ، ذھن خالی سا ہوگیا تھا ، کافی دیر یونہی گزری اور گاڑی ایک جھٹکے سے رک گئی
میں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا بڑی سی پارکنگ تھی جہاں پہلے ہی درجنوں گاڑیاں کھڑی تھیں اور پیچھے بھی آرہی تھيں ، موٹر سائیکلیں بھی تھیں اور ہر عمر کے لوگ ان میں سے اتر رہے تھے لیکن زیادہ تعداد 20 سے 30 سال کے درمیان کے لڑکوں اور لڑکیوں کی تھی ، سامنے ایک سینما کی عمارت تھی اور بڑا سا سآئن بورڑ لگا تھا
Cine Star
ارے یہ کیا ؟ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا
ہاں نا ، یہی سرپرائز ہے
سینما دیکھیں گے کیا ؟
میں نے اس سے پوچھا
اس نے سر ہلایا اور ساتھ ہی تیزی سے کہا
بے فکر رہو ، یہاں وہ کچھ نہیں ہوگا جو مون لآئٹ ميں ہوا تھا
اس نے جب یہ کہا تو میں بے اختیار ہنس پڑا
گورنمنٹ کالج لاہور میں ہمارا آخری سال تھا اور ضیاء آمریت کے بھی آخری دن چل رہے تھے اور ان دنوں ایک طرف تو وی سی آر اور ہندی فلموں کی وڈیو کیسٹ میں آمد کا بڑا چرچا تھا ، ہم نے وی سی آر پر فلمیں دیکھ ليں تھیں ، دوسرا ان دنوں سینما میں ” ٹوٹے چلنے ” کا بڑا شہرہ تھا اور ان دنوں ” ننگی تصویر ” دیکھنا بھی کسی بڑی عیاشی سے کم نہیں تھا اور ایسے میں جب ” ٹوٹے چلنے ” کا کلچر سینماؤں ميں شروع ہوا تو بہت سے لوگوں کو اس کو دیکھنے کی چاہ تھی اور اس ” ٹوٹا بینی ” کے وہ بھی شائق نظر آتے تھے جو ضیاء کو سینما کلچر کی تباہی کا زمہ دار قرار دیتے تھے ، تو ایک دن اس نے مجھے کہا کہ میں نے امجد سے پروگرام بنالیا ہے اتوار کو بارہ بجے والے شو میں مون لائٹ چلیں گے ، خیر مون لائٹ گئے ہم اور فلم کے درمیان انٹرول سے زرا پہلے ” ٹوٹے ” شروع ہوئے ، ميں بوکھلا گیا ، باکس میں بیٹھے وہ مردانہ لباس میں تھی مگر میں نے دیکھا کہ اس نے سرجھکا لیا تھا اور پھر اچانک ہی ہال میں ہبڑ دبڑ مچ گئی ، روشنیاں جل اٹھیں اور پولیس ہی پولیس نظر آئی
ہمارے باکس میں ایک انسپکٹر ، دو اے ایس آئی آن دھمکے ، ہم تینوں کو باہر چلنے کو کہا ، انسپکٹر جوان تھا اور چہرے مہرے سے پڑھا لکھا نظر آرہا تھا ، میں نے ہمت کرکے اس سے کہا کہ زرا مری بات سن لیں ، اس نے پہلے انکار کیا ، پھر مری صورت دیکھکر اسے شاید رحم آگیا اور اس نے مرا ہاتھ پکڑا اور ایک طرف لیجاکر کہا کہ ہاں کہو
ميں نے کہا
انسپکٹر صاحب ! ہم جی سی کے طالب علم ہیں ، ہم دو تو لڑکے ہیں یہ تیسری لڑکی ہے ، انسپکٹر نے مری بات سنکر بوکھلاکر اس کی طرف دیکھا جو مری دی ہوئی شلوار قمیص ڈالے سر کے بالوں کو پگڑی میں چھپائے کھڑی تھی اور تھوڑا کانپ بھی رہی تھی
کتنی شرم کی بات ہے کہ ایک تو خود یہ شرمناک حرکت کرنے آئے اور پھر ساتھ ایک لڑکی کو بھی لے آئے ، اس کے خاندان کی عزت کا جنازہ نکلا تو کون زمہ دار ہوگا ، انسپکٹر نے غصّے میں کہا ،
سر معاف کردیں ، اس کو جانے دیں
میں نے عاجزی سے کہا
انسپکٹر تھوڑا نرم پڑگیا اور پھر اچانک کہا کہ آؤ مرے ساتھ ، ہم باکس سے نکلے اور وہ ہمیں نیچے سڑھیوں سے اتار کر سینما کے مین گیٹ تک لایا ، جہاں سپاہی کھڑے تھے ، اس کو دیکھکر اٹینشن ہوئے اور سیلوٹ مارا ، اس نے دروازہ کھولنے کو کہا اور ہمیں آہستہ سے کہا
دفعان ہوجاؤ اور دوبارہ نظر مت آنا
ہم تینوں تھوڑی دور تک آہستہ آہستہ چلے اور پھر ایک دم تیزی سے دور پڑے اور پھر کبھی ” ٹوٹے ” دیکھنے نہیں گئے
سینے سٹار سینما کے سامنے کھڑا یہ میں سب سوچ رہا تھا ، وہ مجھے ہاتھ پکڑ کر اندر لے آئی
Wow
مرے منہ سے نکلا
اندر ایک خوب آراستہ و پیراستہ گیلری بنی تھی اور بہت ہی زبردست سینما تھا ، اس نے مرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور اس نے ایک طرف سے سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں اور مجھے لئے ایک ہال میں داخل ہوگئی ، ہال میں اکثر کرسیاں بھرچکی تھیں ، بہت ساری نوجوان عورتیں ، مرد ، فیملیز اپنی سیٹوں پر بیٹھی ہوئی تھیں ، وہ مجھے لیکر سامنے بنی چوتھی قطار میں درمیان کی نشستوں پر لیکر آئی اور ہم وہآں بیٹھ گئے ، مرے ساتھ ہی دو نوجوان لڑکیاں مجھ سے ساتھ دو سیٹوں پر بیٹھی تھیں جبکہ اس کے پہلو میں ایک عورت اپنی بیٹی کو گود مين لئے بیٹھی تھی ، تھوڑی دیر میں بتیاں گل ہوئیں اور قومی ترانہ شروع ہوگیا ، میں اور وہ تو کھڑے ہونے والے نہیں تھے مگر اس رات اس ہال میں بس مشکل سے دو یا تین افراد ہی کھڑے ہوئے ، مجھے یاد آگیا کہ 80ء کے عشرے ميں پنجاب اور کراچی کے سینما گھروں میں ہم دو یا تین دوست بیٹھے رہتے اور باقی سب کھڑے ہوتے تھے، حد یہ تھی اس دن مون لائٹ سینما میں ” ٹوٹے ” دیکھنے آئے لوگ بھی سب کے سب کھڑے ہوگئے تھے جب ” قومی ترانہ ” بجنا شروع ہوا ، مجھے حسن عسکری یاد آئے تھے کہ
چھاؤنی کا کلچر یہ ہوتا ہے کہ دو دن چکلے میں اور دو دن مسجد میں
لیکن آج تو اس ہال کے آڈینس کی اکثریت بالکل ہی الگ تھی ، ہم اچانک اقلیت سے اکثریت میں بدل گئے تھے ، یہ ہمارا کمال تھا کہ ہمارے حکمران طبقات کا
ترانہ بجنے کے بعد فلم شروع ہوئی ، ڈیجیٹل سکرین پر بڑا سا کرکے
” منٹو ” لکھا ابھرا تو میں واقعی چونک گیا
کیا فلم منٹو پر بنی ہے ؟
ميں نے حیرانی کے ساتھ اس کے کان میں سرگوشی کی
اس نے کہا
عجب چوتیا آدمی ہو یار تم بھی
سارے پاکستان میں اس فلم کی دھوم مچی ہے
آج پہلا دن ہے اور دوسرا شو
اچھا ، اچھا ، منٹو کی موذیل نہ بنو
میں اس کے مجھے ” چوتیا ” کہنے پر چڑگیا تھا
تو کیا پھر ” کلونت کور ” بن جاؤ ، سوچ لو اپنا انجام
اس نے برجستہ کہا اور میں ہنس پڑا
فلم شروع ہوئی اور آخر تک ہم نے دیکھی
فلم کے سین چلتے گئے اور میں نے کئی مرتبہ سنا اسے کہتے
Rubbish , Damn it
باسٹرڈ
بہت کمرشل کردیا سالے نے
پھر کمال ہے ، ایک کارنامہ ہے منٹو کو سکرین پر لانا
فلم ختم ہوئی تو ہم گاڑی میں آکر بیٹھ گئے
اس نے گاڑی سٹارٹ کی
کھانا کہاں کھاؤ گے ؟
نہیں ، مرا ابھی وہسکی پینے کو دل کررہا ہے
میں نے اسے کہا
چلو ٹھیک ہے پھر گھر چلتے ہیں
کھانا اگر کھانا ہوا تو آڈر کرکے منگوا ليں گے
ہم گھر آگئے
اور وہ اپنے کمرے میں مجھے لے گئی
ٹیبل پر اس نے ایک الماری سے بہت ہی خوبصورت کرسٹل سے بنے گلاس دھرے اور اور پھر بیڈ کے ساتھ بنی ایک سمال ٹیبل کو کھولا اور اس کے اندر ایک ترتیب میں دھری چھے سے سات بوتلیں مجھے نظر آئیں ، اس نے وائلڈ ٹرکی امریکن وہسکی کی ایک بوتل نکال لی ، اور ایک ٹرے میں فریج سے کیوب نکالے اور آکر مرے سامنے بیٹھ گئی
یار تم فلم کے دوران برے برے منہ بناکر
کبھی ربش ، کبھی ڈیم اٹ ، باسٹرڈ جیسے الفاظ کیوں بول رہی تھیں
یار اس نے منٹو کا ستیا ناس کرڈالا ، اس کو ایک نفسیاتی مریض بناکر دکھایا اور اس کی زندگی کا لازمی جزو بن جانے والے کچھ کرداروں کو گول کرگیا یہ سرمد سلطان کھوسٹ ” الو کا پٹھا ” منٹو وہاں عالم بالا میں اس ” کھوسٹ ” کی لے رہا ہوگا
وہ تو جیسے پھٹ پڑی
مجھے تھوڑا سا غصّہ آگیا
میں نے کہا
یار اس نے اتنی محنت سے منٹو کو ویوژول کیا اور تم ہو کہ اسے کوس رہی ہو
کہنا آسان ہوتا ہے ، کرنا بہت مشکل ، میں نے اس کی طرف طنز سے دیکھتے ہوئے کہا
مری بات سنکر کہنے لگی کہ
میں اگر منٹو پر بنے مقدمات میں کسی مقدمے کی کاروائی کو ” منٹو پر بنی فلم ” کے کسی سین کا حصّہ بناتی تو کراچی میں اس پر بنے مقدمے میں اس کی ملاقات ابراہیم جلیس سے ضرور دکھاتی اور لاہور میں اس پر اور عصمت چغتائی پر چلے مقدمے کی کاروائی کا سین دکھاتی اور اسے عصمت چغتائی کے بیانیہ کے مطابق ویوژول کرتی
میں نے کہا کہ اس نے کیا دکھایا تھا
وہ اچانک اٹھی اور اس نے سامنے الماری سے ایک فائل نکالی ، اس میں کچھ کاغذ تھے ، بعد میں تپہ چلا کہ وہ عصمت چغتائی کی خود نوشت ” کاغذی ہے پیراہن ” اور ابراہیم جلیس کا منٹو کی وفات کے بعد لکھا گیا مضمون کی کچھ نقول تھے
کہنے لگی کہ میں منٹو ، عصمت ، شاہد اور صفیہ کو ایک تانگے میں بیٹھ کر لاہور کی سیر کرتے دکھاتی اور پھر وہ مکالمہ جو منٹو کے ساتھ عصمت کا ہوا تھا دکھاتی
جوتوں کی دکان پر منٹو کے نازک سفید پیر کو دیکھ کر مجھے بڑا رشک آیا – اپنے بھدے پیر دیکھ کر مور کی طرح ماتم کو جی چاہا
” مجھے اپنے پیروں کو دیکھ کر گھن آتی ہے ” منٹو نے کہا
کیوں اتنے خوبصورت تو ہیں ” میں نے بحث کی
” میرے پیر بالکل زنانہ ہیں ” ” مگر زنانیوں سے تو اتنی دلچسپی ہے آپ کو ! ”
” آپ تو الٹی بحث کرتی ہیں – میں عورت سے مرد کی حثیت سے پیار کرتا ہوں اس کا یہ مطلب تو نہیں خود زنانہ بن جاؤں ”
ہٹائیے بھی زنانے اور مردانے کی بحث کو ‘ انسانوں کی بات کئجیے نازک پیروں والے مرد بڑے حساس اور ذھین ہوتے ہیں
منٹو کا وکیل : یہ کہانی فحش ہے ؟
گواہ : جی ہاں
وکیل صفائی : کس لفظ سے آپ کو معلوم ہوا کہ فحش ہے
گواہ : لفظ ” چھاتی ” سے
وکیل : مائی لارڈ لفظ چھاتی فحش نہیں ہے
جج : درست
وکیل : لفظ چھاتی فحش نہیں ؟
گواہ : نہیں ، مگر یہاں مصنف نے عورت کے سینے کو چھاتی کہا ہے
منٹو ( ایک دم سے کھڑا ہوتے ہوئے ) : عورت کے سینے کو چھاتی نہ کہوں تو کیا ” مونگ پھلی ” کہوں
کورٹ میں قہقہ
جج : اگر ملزم نے پھر اس قسم کا چھچھورا مذاق کیا تو کن ٹمپٹ آف کورٹ کے جرم میں نکال باہر کیا جائے گا
اس نے یہ سارے مکالمے دھڑاک سے مجھے سنا ڈالے اور سماں باندھ دیا
اب بتاؤ نا ، اس نے مری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
مجھے اس کی ایک ماہر فلم ڈائریکٹر ، رائٹر کی سی یہ کارکردگی بہت بھائی ، میں نے کہا اچھا اور کیا سین ڈالتیں تم اس میں آگر تم ہوتیں اس فلم کی ڈائریکٹر
کہنے لگی کہ میں اس فلم ميں ایک سین منٹو کی امرتسر کی زندگی کا ڈالتی اور باری علیگ کو لیکر آتی اور “کامریڈ منٹو ” کا عکس دکھاتی ، ایک سین آل اںڈیا ریڈیو دلّی کا اور اس کی چشمک کا اور پھر بمبئی کے فلمستان کا اوپندرناتھ اشک سے اس کی لڑائی کا اور ایک وہ جسے خود منٹو نے ” عصمت پر اپنے مضمون میں ” بیان کیا ہے جس میں اس نے بار بار ایک فقرہ دوھرایا ہے
” یہ تو کمبخت بالکل ہی عورت نکلی ”
کہنے لگی کہ کراچی میں اگر وہ تھوڑی سی فنتاسی سے کام لیتا اور ابراہیم جلیس کا منٹو سے لاہور میں ہوا مکالمہ کراچی میں دکھاتا تو کیا کمال ہوتا اور تمہيں پتہ ہے سرمد سلطان کھوسٹ نے ” منٹو ” سے وہی کیا جس کا ابراہیم جلیس کو شکوہ تھا
کیا شکوہ تھا ؟
میں نے پوچھا تو کہنے لگی جب منٹو کے مرنے کی خبر جلیس کو ہوئی تو اس نے مضمون لکھا تو اس میں یہ بھی کہا تھا
منٹوؔ کے کردار کے بارے میں بے شمار لوگوں کو، جو اُسے شخصی طور پر نہیں جانتے تھے، اُس کی تحریروں کے باعث بڑی غلط فہمی ہے کہ وہ بڑا غلط قسم کا شرابی ، بے حد آوارہ عورتوں کارَسیا اور بڑا غلیظ لباس انسان ہے۔ منٹوؔ سے ملنے سے پہلے میرا تصوّر بھی کچھ کچھ ایسا ہی تھا۔ لیکن جب میں منٹوؔ سے ملا اور ملتا رہا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے منٹو دلدل کا کنول ہے
اور زرا منٹو و جلیس کا یہ مکالمہ دیکھو
جلیس : بالکل بکواس ہے تمہاری یہ کتاب ” نور جہاڑ ، سرور جہاں ” اب تم ہتک ، بابو گوپی ناتھ ، موذیل اورکھول دوجیسے لافانی افسانے کیوں نہیں لکھتے؟ فلمسٹاروں کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟‘‘
منٹو : یار ! اب گوپی ناتھ کے مقابلے میں فلمسٹار آسانی سے بِک جاتے ہیں
ابراہیم جلیس : فلمسٹاروں سے زیادہ تو تم بِکتے ہو سعادت، مجھے یہ دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے کہ تم اب ادب کی شاہراہ پر خوشیا، سوگندھی ،گوپی ناتھ اور موذیل جیسے یاد گار مجسمے نصب کرنے کے بجائے پرانے بغداد کے بردہ فروش تاجر کی طرح آوازیں لگاتے ہوئے اپنے دوستوں کے اجسام سرِبازار نیلام کر رہے ہو۔‘‘
منٹو ( جھلاکر ) : ادب و دب سب بکواس ہے۔ انسان بڑی چیز ہے۔ اٹھاؤ گلاس اور مارو جھک
تمہیں پتہ ہے کہ جب منٹو پر شراب پینے پر پابندی لگی تو اس کا ٹھکانہ کون سا ہوٹل تھا ؟
میں نے کہا نہیں
اس نے کہا
وہی جہاں ابراہیم جلیس ٹھہرتا اور ان دنوں اس کے ساتھ کمپنی کرنے والوں میں احمد راہی ، اے حمید ، نصیر انور وغیرہ ہوا کرتے تھے اور وہاں پر ہوئے مکالموں کا نقشہ بھی جلیس ، راہی وغیرہ نے کھینچا ہے
یار یہ کہانی تو سرمد سلطان کھوسٹ نے ندیم شاہد کے تھیٹر کے لئے لکھے گئے ڈرامہ ” منٹو ” سے فلمائی ہے ، میں نے کہا
دونوں نے جھک ماری ہے ، یہ سنکر اس نے غصّے میں
پھر اس نے برجستہ کہا
بوتل کھولو
وائلڈ ٹرکی ، تمہیں پسند ہے نا
ہاں اس لئے پسند ہے کہ سکاچ وہسکی کے بعد جس وہسکی کا نام معلوم پڑا وہ یہی تھی جو تم نے پلائی تھی ورنہ اس سے پہلے ووڈکا سے ہی واقف تھا
وہ تھوڑا سا ہنسی
کہنے لگی ! یار تمہیں پتہ ہے کہ یہآں سے کچھ دور درجنوں گیسٹ ہاؤسز میں اور ہوٹلوں ميں کیا ہوتا ہے ؟
میں نے کہا کیا ہوتا ہے
کہنے لگی کہ ڈار کی ڈار 16 سے 25 سال کی لڑکیوں کی آتی ہیں اور ان کو مرد گدھوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ، بعض دفعہ تو ایک دو گھنٹوں ميں 50 سے 100 لڑکیوں ميں سے کسی ایک کو پسند کیا جاتا ہے اور پھر منٹو کے سارے کردار وہآں زندہ ہوجاتے ہیں
یہ آج کے تھیڑ لکھنے والے اور افسانہ نگاروں کے ہآں ان کرداروں پر نئی کہانیاں لکھنے کا دم کیوں نہیں ہے اور مجھے تو منٹو جیسا کوئی مرد نہیں ملا جو ” زنانیوں پر اس طرح سے جم کر لکھے اور اپنے خوبصورت پیروں سے گھن کھائے ”
اور یہ اعتراف بھی کرے کہ میں ” مرد کی حثیت سے خوبصورت عورتوں سے پیار کرتا ہوں ”
تم بھی تو عورتوں کی خوبصورتی کے دلدادہ ہو ، ان کے خدوخال کو پورے مرد بنکر تاڑتے ہو مگر پوز تمہارا ” ملحد صوفیوں ” جیسا ہوتا ہے جو اپنی ” حرص ” کو روحانیت کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتے پورے چوتیا ہوجاتے ہیں ، بالکل ممتاز مفتی کی طرح جو اپنی سوتیلی ماں کے خوبصورت جسم کو تاڑتا تاڑتا ولایت کے مرتبے پر فائز ہوگیا تھا اور زرا دیکھو تو کیسے اس فلم میں قدرت اللہ شہاب آیا ، اس کے اندر بھی تو ایک راسپوٹین تھا جسے بے نقاب کرنے کی ہمت آج بھی کسی میں نہيں ہے
اس نے یہ کہتے ہوئے ادھ بھرے گلاس میں اور وائلڈ ٹرکی انڈیلی اور کہنے لگی
بانو قدسیہ ” راجہ گدھ سے لاحاصل ” تک آن پہنچی اور اس کا ادب آگے “مری زات زرہ بے نشاں ، اور پیر کامل ” جیسی کہانیاں جن رہا ہے اور پہلے سے ہی بے نشاں ہوئی عورت زات اور بے نشاں ہوتی جارہی ہے ، وہ عورتوں کو مذھبی اخلاقیات کے نام پر اور تم جیسے عورتوں کو آزادی کے نام پر لبھاتے ہو ، کبھی ان کی اپنی زات کو خود دریافت کرنے کی اجازت نہیں دیتے ، منٹو تم جیسے مردوں کی ٹھیک لیتا تھا ، اتنی لیتا کہ چیخیں نکل جاتی تھیں
میں نے اس کی بات سنی اور جھلا کر کہا
سب بکواس ، اٹھاؤ گلاس ، مارو جھک
یہ سنکر وہ کھلکھلاکر ہنسنے لگی
اور میں وائلڈ ٹرکی کے گھونٹ بھرنے لگا

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: