اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شیزوفرینیائی معاشرہ کہاں جائے؟ (2)۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملک خداداد کو لاحق مرض شیزوفرینیا کے متعلق کل بات کی تھی جس میں آپ حقیقت کا ادراک کھو دیتے ہیں، اور ایک تخیلاتی دنیا میں رہتے ہیں۔ جب یہ مرض فرد کی سطح پر ہو تو مریض خود کو عظیم یا خطرے کا شکار سمجھتا ہے اور اُسے لگتا ہے کہ کوئی باطنی آوازیں اُس کے ساتھ باتیں کر رہی ہیں۔
قومی مرض کی صورت میں بھی خبطِ عظمت، حد سے بڑھی ہوئی قوم پرستی اور ملک کا کوئی خیالی روحانی مقصد نمایاں علامات میں شامل ہے۔ ہم یونہی تو نہیں سمجھتے کہ پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں۔ ایک ویڈیو میں پروفیسر احمد رفیق اختر کہہ رہے ہیں کہ کبھی کوئی مسلمان قوم قحط کا شکار نہیں ہو سکتی۔
اکثر ایسے مریض کے لیے ’’سیانے‘‘ اپنی اپنی طرف سے مطلق حل پیش کرتے ملتے ہیں۔ آپ بھی اکثر ٹی وی پر اور دیگر بکواسیات پروگراموں (ادبی سیمینارز، میلے) میں عارفہ سیدہ، قاسم شاہ اور دیگر افلاطونوں کو اس قسم کے نسخے تجویز کرتے ہوئے ملیں گے: بس ایک تعلیم ٹھیک ہو جائے، بس ایک ایمان دار حکمران مل جائے، بس معاشی پہیہ چل پڑے، بس سب پرخلوص بن جائیں، وغیرہ وغیرہ۔ معاشروں کے سوئچ نہیں ہوتے۔
یہ لوگ سمجھ نہیں رہے کہ ہم مریض معاشرہ ہیں، اور جو لوگ علاج تجویز کرتے پھر رہے ہیں، وہی تو اِس کے وسوسوں اور اختباط، واہموں، خبطِ عظمت، روحانی دوروں اور حقیقت سے کٹے ہونے کی وجہ ہیں۔
کسی نے پوچھا کہ اگر ملک خداداد شیزوفرینیائی ہے تو پھر اِس کا حل کیا ہے۔ ماہرین نفسیات اس علاج کو cognitive behavioral therapy کہتے ہیں۔ اگر مریض کو ماہر نفسیات کے پاس پہنچا دیا جائے تو وہ اس طریقے سے علاج کرتا ہے۔ نفسیات دانوں کے خیال میں نفسیاتی مسائل سوچ کے غلط انداز کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی فرد یا معاشرہ سوچ لے کہ سب ہمارے دشمن ہیں، تو اُسے سب دشمن ہی نظر آنے لگیں گے۔ اور وہ خود کسی کا بھی دوست نہیں ہو گا۔ لیکن مخصوص عادات بھی نفسیاتی مسائل اور شیزوفرینیا سے دوچار کرتی ہیں۔ اگر نفسیاتی مسائل کو تسلیم کر لیا جائے تو اُن سے نمٹنا آسان ہو جاتا ہے۔
سی بی ٹی طریقۂ علاج میں سوچنے کا ڈھنگ تبدیل کیا جاتا ہے۔ مریض کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ مسائل پیدا کرنے والی سوچوں سے دھیان بٹائے اور اُنھیں حقیقت کی روشنی میں دیکھے۔
مریض کو دوسروں کے رویے کی مثال دے کر سمجھایا جاتا ہے۔ مسائل حل کرنے کی مہارتیں سکھائی جاتی ہیں۔ اگر وہ ٹھیک ہونا چاہتا ہو تو اپنی صلاحیتوں پر بھروسا کرنے لگتا ہے اور اُس کا رویہ بدلتا ہے۔ اس کے لیے اپنے خوفوں کا سامنا کرنے کی ہمت چاہیے۔
آپ فرد کو باندھ کر ڈاکٹر کے پاس لیجا سکتے اور ادویات کھلا سکتے ہیں۔ ایک پورے معاشرے کو کہاں لے جائیں؟ لیکن معاشرے اپنا علاج خود نہ کریں تو اپنے اندر ہی منہدم ہو جاتے ہیں۔ دیکھ لینا!

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: