نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یکساں نصاب تعلیم کے ’’گھٹالے‘‘۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکرر عرض کئے دیتا ہوں، دستور پاکستان میں اس امر کی ضمانت دی گئی ہے کہ حکومت تمام شہریوں کے سیاسی، مذہبی، معاشی اور شہری حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہے بلکہ اس امر کی بھی کہ کوئی شخص یا گروہ دوسرے کے نجی معاملات جیسا کہ عقیدے، سیاسی تعلق، ذرائع روزگار اور بنیادی شہری حقوق پر تجاوز کا مرتکب نہ ہو۔

وضاحت کے ساتھ پھر عرض کئے دیتا ہوں ملکی آئین اپنے شہریوں کو جو حقوق دیتا ہے اس پر فرد، گروہ، ادارہ بلکہ خود حکومت وقت بھی قدغن نہیں لگاسکتی۔

لگ بھگ ڈیڑھ دو سال قبل ان سطور میں یک نصابی پروگرام (یہ وفاقی حکومت کا منصوبہ ہے) پر عرض کیا تھا کہ یکساں تعلیمی نصاب ہونے میں کوئی امر مانع نہیں ماسوائے اس کے کہ دو اہم مسائل کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔

اولاً یہ کہ پاکستان ایک کثیرالقومی اور کثیرالمسلکی ملک ہے۔ ثانیاً یہ کہ ہسٹری و تعلیمی کمیشن کے قیام اور اس کی رپورٹ تک یکساں نصاب والے معاملہ کو نہ چھیڑا جائے۔

تب جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ ایک ایک کرکے درست ثابت ہورہے ہیں۔ یکساں تعلیم نصاب پر دو صوبوں کے بالخصوص سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کے تحفظات کو سابق وفاقی حکومت خاطر میں نہیں لائی پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اس کی اپنی حکومت تھی لہٰذا اندھی تائید مل گئی حالانکہ ان دونوں صوبوں میں بھی بہت سارے اہل دانش اور خیبر پختونخوا میں اے این پی نے یکساں تعلیمی نصاب پروگرام پر کچھ سوالات اٹھائے تھے ۔

افسوس کہ ان سوالات کا جواب دینے کی بجائے سوال کرنے والوں پر مراد سعید اور علی محمد خان جیسے لوگوں کو "چھوڑدیا” گیا جن کی علمی حیثیت زیرو اور سیاسی حیثیت عمران خان کا وفادار ہونے کے سوا کچھ نہیں تھی ۔

یاد پڑتا ہے کہ انہی دنوں ایک مشترکہ دوست کے ذریعے اس وقت کے وفاقی وزیر مذہبی امور قاری نورالحق قادری کی توجہ اس معاملے پر دلوائی ان کا جواب موصول ہوا کہ ’’میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود سے لازماً اس معاملے پر بات کروں گا‘‘

عین ممکن ہے کہ قاری صاحب نے شفقت محمود سے بات کی ہو لیکن جو لوگ ان صاحب کو پچھلے دو اڑھائی عشروں سے جانتے ہیں وہ آگاہ ہیں کہ شفقت محمود ایک اچھا ڈاکخانہ تو ہیں ایسے فہمیدہ شخص ہرگز نہیں جو معاملے کی حساسیت کو سمجھ کر اصلاح احوال کے لئے مخلصانہ کوشش کریں۔ وجہ صرف ایک ہے وہ ان کا بیوروکریٹ اور بالادست صوبے کا شہری ہونا ہے ۔

تمہید طویل ہوگئی، بار دیگر عرض کئے دیتا ہوں کہ وفاق کے مشترکہ تعلیمی نصاب پروگرام کے حوالے سے اب تک مختلف کلاسوں کے لئے مرتب کی جانے والی بعض مضامین کی کتابوں سے یہ بات دوچند ہوجاتی ہے کہ اکثریت کی مذہبی، صوبائی بالادستی کو نصاب میں بھی ٹھونسا جارہا ہے۔

مثلاً دوسری سے ساتویں جماعت کی اسلامیات اور اردو کی کتابوں کے اسباق کے حوالہ جات خالصتاً فرقہ وارانہ سوچ پر مرتب کئے گئے اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا کہ یہ ایک کثیرالمسلکی ملک ہے۔

میرے لئے بہت آسان ہے کہ اردو اور اسلامیات کی کتابوں میں شامل اختلافی باتوں کو یہاں لکھ دوں مگر ایک عامل صحافی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی عرض کروں گا کہ مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر یا یوں کہہ لیجئے مکتب خلافت اور مکتب امامت میں وحدت امت کے لئے جن امور پر اتفاق رائے ہے انہیں متنازعہ نہ بنایا جائے۔

جملہ مسلمان تاریخی روایات اور مصدقہ احادیثؐ کی روشنی میں دختر رسول اکرمؐ حضرت بی بی سیدہ فاطمتہ الزہرا سلام اللہ علیہا کا سیدۃ النسا العالمین ہونا مانتے ہیں تو اس تعارف کے باب میں۔ نیشنل بک فائونڈیشن کے زیراہتمام شائع ہونے والی تیسری جماعت کی اردو کی کتاب میں سوال ہے

’’سیدۃ النساء العالمین کون ہے؟‘‘ اور جواب میں لکھا ہے حضرت مریمؑ اور حضرت خدیجہؓ عالم میں افضل ترین عورتیں ہیں۔

یقیناً مادری گرامی حضرت عیسیٰؑ بی بی مریمؑ اور مادر گرامی سیدہ فاطمہؑ بی بی خدیجہؑ اپنی جگہ عالمین کی افضل ترین خواتین ہیں لیکن کیا یہ اس سوال کا جواب ہے کہ ’’سیدۃ النسا العالمین کون ہے؟‘‘

مسلم تاریخ کی دستیاب تمام کتب میں تواتر کے ساتھ لکھا ہے کہ حضرت رسول اکرمؐ جب بھی کسی سفر یا مہم سے واپس مدینہ تشریف لاتے تو سب سے پہلے اپنی صاحبزادی حضرت بی بی فاطمہؓ کے گھر تشریف لے جاتے تھے

لیکن اردو کی جماعت دوئم کی کتاب کا سوال ہے۔ نبی اکرمؐ کا سفر سے واپسی پر کیا معمول تھا؟

جواب میں لکھا ہے "آپؐ سخی، خوش مزاج بچوں سے محبت کرنے والے اور بچوں سے پیار کرنے والے تھے آپ کے اس طور پر ٓذکر خیر سے انکار نہیں لیکن سوال کیا تھا اور کیا یہ اس سوال کا جواب ہے؟

نیشنل بک فائونڈیشن کے زیراہتمام شائع ہونے والی مشترکہ نصاب والی متعدد کتب کے حوالہ جات صفحات کے عکس سمیت میرے سامنے رکھے ہیں۔ بالائی سطور میں دو حوالے دیئے ہیں۔ ایک حوالہ فتح مکہ کے وقت کا لکھے دیتا ہوں۔ جماعت پنجم کی کتاب میں فتح مکہ کے حوالے سے اردو کی کتاب میں لکھا ہے ’’بیت ابو سفیان اور بیت اللہ‘‘۔ کتب احادیث تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں صدیوں سے یہی لکھا پڑھا جارہا ہے کہ

’’آج کے دن ہر اس شخص کو امان ہے جو ابوسفیان کے گھر داخل ہوجائے اُم ہانیؑ (حضرت امام علیؑ کی بہن) کے گھر میں پناہ لے لے۔ اپنے گھروں کے دروازے بند کرلے یا بیت اللہ کی حدود میں آجائے ” ۔

مگر پانچویں جماعت کی اردو کی کتاب میں امان کے چار میں سے تین مقام لکھے ہیں۔ حضرت ام ہانیؑ (دختر سرکار حضرت ابو طالبؑ ) جوکہ امام علیؑ کی ہمشیرہ اور رسول اکرمؐ کی چچازاد بہن ہیں ان کا ذکر اب جواب کے باب میں نہیں۔

مزید حوالہ جات لکھنے اور تاریخ کے گھٹالوں پر بحث اٹھانے سے بہتر سمجھتا ہوں کہ یہ عرض کروں کہ آئین کا آرٹیکل 22 اے اس امر کی ضمانت دیتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں ایسی مذہبی ہدایات و تعلیمات حاصل کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا جن کا تعلق طالب علم کے عقیدے سے مختلف ہو۔

آرٹیکل 25اے، پانچ سے سولہ سال کے بچوں کے لئے لازمی تعلیم کیلئے ہے اس میں بھی مذکورہ معاملے کی وضاحت موجود ہے۔ یہی معاملہ تاریخ کے مضامین کا ہے۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان متحدہ ہندوستان کی تقسیم کی صورت میں معرض وجود میں آیا۔ یہاں پاکستان میں تاریخ متحدہ ہندوستان والی ہی ہوگی ۔ ہم اخلاقی اعتبار سے 14اگست 1947ء سے تاریخ کے ایک نئے باب کا اضافہ تو کرسکتے ہیں یہ نہیں ہوسکتا کہ پوری تاریخ ہی مسخ کردی جائے۔

حملہ آوروں کو نجات دہندہ بناکر پیش کیا جائے یا بلاد عرب کی تاریخ کے بعض حصوں کو ہماری تاریخ کے طور پر بچوں کو پڑھایا جائے۔

ہم آخر کیوں اپنے بچوں کو دولے شاہ کا چوہا ہی دیکھنے پر خوش ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کی مشترکہ تاریخ بٹوارے اور پھر 1971ء کے بٹوارے کے بعد سے اب تینوں ملکوں بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی مشترکہ تاریخ ہے۔ ہمارے ہاں کیوں جرم ہے اس مشترکہ تاریخ کو پڑھنا۔

یعنی آپ کیسے 14اگست 1947ء سے قبل کی تاریخ کے اس حصے سے ہمیں کاٹ رہے ہیں جو اس خطے کی اصل تاریخ ہے۔ ایک بار پھر عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ لگ بھگ دو سال قبل جب مشترکہ تعلیمی نصاب کا ڈول ڈالا جارہا تھا اور ہر طرف اس وقت کی حکومت کی ’’واہ واہ‘‘ ہورہی تھی تو ہم نے عرض کیا تھا کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم مشترکہ تعلیمی نصاب کے شوق میں ایک بار پھر حقیقت پسندانہ طرزعمل کو تج کر گھٹالوں اور غلط بیانیوں کے ساتھ مسخ شدہ واقعات کو مذہب و تاریخ کے طور پر پڑھانا شروع کردیں۔

بدقسمتی سے یہ خدشہ حرف بحرف پوا ہوا۔ آج کے کالم میں تحریر نویس نے کتابوں میں لکھے معاملات کے حوالے دے کر جو معروضات پیش کی ہیں اس کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہمیں (ہم سب عوام اور حکومت دونوں) کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ ملک ایک کثیرالمسلکی ملک ہے۔ قوموں کی شناخت کی طرح مسالک بھی تاریخی شناخت رکھتے ہیں۔

کوئی قانون ان شناختوں کو جرم قرار نہیں دیتا۔ دستور پاکستان نہ صرف ان شناختوں کے احترام کی تلقین کرتا ہے بلکہ اس امر کی ضمانت بھی دیتا ہے کہ فرد کے نجی امور، مذہبی، سیاسی، معاشی و شہری حقوق کی فراہمی حکومت کا فرض ہے اور یہ بھی کہ کوئی ان میں مداخلت کا مرتکب نہ ہو۔

فی الوقت یہی عرض کرنا ہے کہ ایک بار پھر شائع کردہ کتب کو اجتماعی مفاد میں دیکھ لیا جائے۔ اس کے لئے اہل دانش اور محققین کی صوبوں کی مساوی نمائندگی والی کمیٹی بنالی جائے تاکہ بحران پیدا ہو نہ فساد کا دروازہ کھلے۔

پسِ نوشت

ہماری دانست میں نصاب تعلیم نئی نسل کی نشونما کی بنیادی ضرورتوں اور اور ان کی تربیت کے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہئے ناکہ کسی خاص فہم کو زبردستی بچوں کو پڑھانے کی سوچ پر مبنی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author