مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آرٹ کی لاش اُٹھائے کیوں پھریں!۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پتا نہیں میں سنکی ہوں، یا کوئی اور وجہ ہے۔ لیکن اب ایسی خبروں پر وحشت نہیں بلکہ خوشی ہوتی ہے کہ ہمارا انحطاط اور زوال تیزی سے ہو رہا ہے۔ ویسے یہ کوئی ایسا انحطاط اور زوال بھی نہیں۔ اپنے آرٹ کا کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں: رقص میں مجرے، آرٹ میں فلیکس ڈیزائن، اداکاری میں مہوش حیات، پینٹنگ میں رابی پیرزادہ اور موسیقی میں علی ظفر وغیرہ سر فہرست ہیں۔ گزشتہ سال ادب میں جن لوگوں کو انعامات دیے ہیں اُن پر بھی غور کر لیں!
اگر چودھری پرویز الٰہی وزیر اور عثمان بزدار اور قائم علی شاہ وزیر اعلیٰ رہ سکتے ہیں، اگر مراد راس وزیر تعلیم رہ سکتا ہے تو اِس میں کیا قباحت ہے؟ جس جغرافیائی گروہ کے ’مقبول ترین لیڈر‘ عمران خان جیسے ہوں وہاں آپ کیا توقع کریں گے؟ تکلیف تو اُن لوگوں کو ہونی چاہیے جو اِس چیئرمین کے ماتحت کام کرنے پر آمادہ ہیں جن میں سلیمہ ہاشمی بھی شامل ہے اور شاہد محمود ندیم بھی۔ ہمیں ہرگز تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ یہ معاشرے کا منطقی بہاؤ ہے۔ ہمارا جتنا بھی آرٹ باقی ہے وہ جشن بہاراں کے دنوں میں لاہور کی نہر کے گرد لگی چائنیز لائٹوں اور بھونڈے پھولوں کی حد تک ہی ہے۔
کیا ہم ادبی میلے نہیں دیکھتے؟ جو لگتا ہے کہ ڈیڑھ سو روپے کی چائے بیچنے کے لیے ہی لگائے جاتے ہیں، یا پھر سٹیج پر گنے چنے نابکار سپیکرز بٹھانے کے لیے۔ فیض میلہ کب کا بک چکا ہے۔
قدیم لوگ خانہ آدم خوری کرتے تھے۔ اُن کی دلیل تھی کہ اگر دادا جی یا ابا جان بوڑھے ہو گئے ہیں اور نقل مکانی میں بھی مصیبت کا باعث بنتے ہیں تو اُنھیں کھا لینا ہی بہتر ہے۔ انیسویں صدی تک کچھ آدم خور قبائل اِسی روش پر چلتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بیمار کے مرنے کا انتظار کرتے رہنے کی بجائے اُسے کھا لینا بہتر ہے۔ نیز کوئی مر جاتا تو اُسے بھی کھا لیتے۔ دفنانے سے اچھا بھلا ضیافت کا سامان ضائع ہو جاتا تھا۔ ٹھیک ہی تو کہتے تھے۔
اب یہ معاشرہ آرٹ کی خیالی لاش کہاں تک اُٹھائے پھرے؟ بہتر نہیں کہ یہ کچھ کووں اور سنڈیوں کے سپرد کر دی جائے؟

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: